Please wake Zardari and Bilawal a disaster is knocking their door and they can save sindhis if they

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)

Onrushing torrents: High flood expected to sweep through Sindh this weekend

By Our Correspondents
Published: September 9, 2014





759671-homeless-1410196707-887-640x480.JPG
Millions of people were left homeless by the floods which wreaked havoc throughout Sindh in August and September 2011. PHOTO: FILE

HYDERABAD / SUKKUR: Residents of ‘katcha’ (riverbed) areas have been advised to evacuate to higher ground in the face of expected flooding at the Sindh barrages from September 13, while the Sindh irrigation secretary told officers to keep a sharp eye on the embankments and patrol vulnerable points during his visit to the Sukkur and Guddu barrages.

While the lack of rain in August led many to believe there would be no flooding this year, belated monsoon rains have played havoc in Khyber-Pakhtunkhwa and Punjab. Over 800,000 cusecs of water are now heading towards southern Punjab, and a high flood of approximately 700,000 cusecs is expected to enter Sindh at the Guddu barrage on the night between September 12 and 13.
The three barrages of Sindh – Guddu, Sukkur and Kotri – can technically sustain the flow of more than 900,000 cusecs of water, but the protective embankments are not strong enough to withstand this pressure.

Breaches in the embankments in 2010 floods displaced thousands of people throughout upper Sindh and in some parts of lower Sindh. While most of the breaches have reportedly been repaired and are expected to be able to withstand the torrents, the embankments of Begari Sindh feeder, damaged at the same time, might prove vulnerable. Furthermore, while a number of protective embankments can withstand the pressure of up to 700,000 cusecs, higher volumes could be disastrous.

Meanwhile, reports from different parts of upper Sindh indicate that the ‘katcha’ residents, living on the bed of the river, have yet to start evacuating their homes, as they still believe that there will be no high flood. Yet, with the arrival of 350,000 cusecs of water in the Indus, most of the ‘katcha’ areas are already inundated.

In Matiari district too, provincial minister Makhdoom Jameeluz Zaman asked the police and irrigation officials to evacuate people from dozens of ‘katcha’ villages, and to ensure 24-hour monitoring of the embankments. Jamshoro deputy commissioner Suhail Adeeb Bachani also said that due to incomplete drainage work and riverbed encroachments, flooding was imminent in the ‘katcha’ areas, which would have to be evacuated. Badin DC Mohammad Rafique Qureshi directed various government departments to prepare plans to deal with all contingencies, and specifically asked the health department to arrange anti-snake venom vaccines.
MPA Syed Owais Muzaffar, who visited Thatta and Sujawal on Sunday, said that formerly vulnerable embankments were being inspected. However, he remained optimistic that the flood would pass both districts without causing any harm.

In lower Sindh, it’s a numbers game

Meanwhile, irrigation officials and politicians disagreed on the level of the flood which will hit the Sindh barrages and the damage expected in lower Sindh.
Kotri barrage executive engineer Sajid Bhutto said the volume of water would decrease to about 550,000 cusecs by the time it reaches Kotri barrage. “Even if we receive all 700,000 cusecs, there is nothing to fear,” he added while briefing government officials on Monday. The barrage withstood over a million cusecs in 2010.

However, Senator Taj Haider rejected predictions of a medium flood. “There are 900,000 cusecs of water at Marala head, 500,000 at Jhelum, 300,000 at Kalabagh and 150,000 at Ravi-Sutlej,” he said. “These torrents have only one outlet to the Arabian Sea, and that is through Sindh.”

Even worse, Haider added, heavy rains have been forecast for Sindh in September. “The flood will coincide with the rains, which could be calamitous for parts of the province,” he said, fearing that Badin district would be the worst hit, with its lack of an efficient water drainage network and its coastal location.

Published in The Express Tribune, September 9[SUP]th[/SUP], 2014.
 
Last edited by a moderator:

sohnidhartie

Minister (2k+ posts)
بدلو یا بدل ڈالو

یہ سماج کئی دہائیوں سے بے کسوں اور بے حسوں کا میدان جنگ بن چکا ہے۔ ایک طبقہ حکمرانی کے لئے چنا گیا ہے ایک کی قسمت میں غلامی لکھ دی گئی ہے۔ ایک نظام کی بقاءکو ڈھا ل بناتا ہے ایک انقلاب کا نعرہ لگا تا ہے ۔ کچھ تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور کچھ تسلسل کا راگ الاپتے ہیں۔ ہر طبقہ اپنے مکتبہ فکر کے حوالے سے دلیل دیتا ہے، دعوی کرتا ہے ، عمومی فلاح کے درشن کرواتا ہے ، امید کے دیپ جلاتا ہے ۔ مگر دہائیاں گزر گئیں کچھ نہیں بدلا ۔ نہ سماج ، نہ حالات ، نہ سوچ ،نہ فکر ۔

پار لیمنٹ میںجس کی تقریر سنو ایمان لانے کو دل کرتا ہے ۔ الفاظ کا چناو ، لہجے کا زیروبم ، دلیل اور استدلال اپنے عروج کے کمال پر ہیں۔ ہر شخص سچا لگتا ہے تالیوں کی گونج اسکے سچائی کی بارہا گواہی دیتی ہے ۔ہر پارٹی دوسرے سے بہتر اپنا موقف بیان کرتی ہے ۔ اپنے بہترین کھلاڑی کو سامنے لاتی ہے۔ جو اپنے برسوں کے تجربے کو بروئے کار لا کر لمحوں میں ایوان پر چھا جاتا ہے ۔ علم و دانش کے اس مقابلے میں ہر مقرر فاتح ہے ہر کھلاڑی اپنی ذات میں کپتان اور ہر پتہ ترپ کا پتہ ہے۔ سب ایک نقطے پر متفق ہیں کہ نظام چلے گا تو ملک چلے گا۔ جمہوریت ہوگی تو ریاست ہوگی ۔ تبدیلی چہروں کی تو گوارہ ہے نظام حکومت کی نہیں


پارلیمنٹ کے باہر بھی ایک مجمع جمع ہے ۔ لیڈران کو چھوڑ کر دھرنے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ظلم اور جبر کے اس نظام سے خائف ہیں ۔ ان کے چہروں پر امید کے وہ چراغ روشن ہیں جو ہر انقلاب سے پہلے انقلاب لانے والوں کے چہرے منور کرتے ہیں۔ یہ پرامید سے لوگ تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ انقلاب کے گیت گا رہے ہیں ۔ بہتری کے خواب دکھلا رہے ہیں ۔ ان سب کی توقع ہے کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ حالات بدل جائیں۔ ان کو نہ جمہوریت سے کوئی سروکا رہے نہ ریاست کے افعال کی کوئی سمجھ۔ نہ ایوان اقتدار ان کا خواب ہے نہ اسمبلی کی کاروائی میں ان کا کوئی حصہ۔ نہ وازرتوں کی تقسیم ان کی خواہش ہے نہ اربوں کی کرپشن ان کا مطمع نظر۔ نہ ترقیاتی فنڈز میں ان کا کوئی حصہ نہ کسی اخباری بیان میں ان کا کوئی ذکر۔۔۔
اس مجمعے کی سوچ کو اگر جانچیں تو سچ بات تو یہ کہ ایوان بالا میں ہونے والی علم و دانش سے بھرپور تقریر کے مقابلے میں ان کے مطالبات بہت ہی سطحی سے ہیں۔ کہا ں امریکہ اور برطانیہ کی جمہوریت کا مثالیں کہاں دو وقت کی روٹی کا مطالبہ۔ کہاں شیکسپیر اور نطشے کے اقوال کہاں لوڈ شیڈنگ کا رونا ۔ کہاں اقبال اور فراز کے شعر کہاں لاہور کے تھانے میں ایک ایف آئی آر کا ذکر۔ کہاں جمہوریت کی پاسداری کا مصمم عزم کہاں ڈنڈوں پر کیل لگا کر انقلاب کا دعوی ۔

ان دو طبقوں کی سوچ میں یہ فرق آج کا نہیں دہا ئیوں کا ہے۔ نہ نظام کی پاسداری والے تھکتے ہیں نہ تبدیلی کے خواہشمند مرتے ہیں۔
میں صرف اس سوال کی جسارت چاہتا ہوں کہ دانش کے جو جو پھول ایوان میں بکھیرے گئٰے ہیں اگر وہ سب سچ ہیں تو حالات کیوں نہیں بدلے ۔؟ملک نے ترقی کیوں نہیں کی ؟ مسائل کا خاتمہ کیوں نہیں ہوا ؟ ظلم مٹ کیوں نہیں گیا ؟ غربت ختم کیوں نہیں ہوئی ؟ تعلیم عام کیوں نہیں ہوئی؟ صحت پر ، صاف پانی پر ، بنیادی انسانی حقوق پر سب کو حصہ کیوں نہیں ملا؟
سماج کے یہ دو طبقے اپنے اپنے حصے کے لئے جدوجہد کرنے لگے ہیں ۔ اگر یہ آج ناکا م بھی ہوتے ہیں تو کل ایک اور انقلاب درپیش ہو گا۔ یہ جنگ افراد کی نہیں اپنی اپنی امیدوں کی ہے ۔ بے کسوں اور بے حسوں کی ہے ۔ اس عسرت اور بدحالی کا حل ایوان میں کرنا ہوگا رورنہ اس ملک کے ہر شہر ہر کوچے میں آے روز ایک دھرنا ہو گا۔
عمار مسعود

 

Altaf Lutfi

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدلو یا بدل ڈالو

woh apni chaal chaltay hain aur Allah apni chaal chalta hai. Beshak Allah hi behtareen chaal chalnay wala hai.
 

Altaf Lutfi

Chief Minister (5k+ posts)
You are asking far too much from the people who could not carry donated foreign wheat to the poor, dying out of hunger only 60 kilometer away in Thar desert.. The stock piles of wheat in stores for 3 years were found rotten when someone exposed lazy Qaim Ali Shah, the dead man walking.
 

ansarppu

Minister (2k+ posts)
Re: بدلو یا بدل ڈالو

allah ke haan der hai andher nahi...in sha allah jald ya baa der change zaroor aaye gi....
 

pinionated

Minister (2k+ posts)
If they do something about it now, how will they get photo op with the distressed masses.
why do u think Nawazoo did not do anything when India notified them.
 

Talwar Gujjar

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدلو یا بدل ڈالو

Jab tak Bonga Khan aur Baba Qadri jaisey Jurnailoon k palto agent hein, tabdeeli nahi aa sakti.
 

monh zorr

Minister (2k+ posts)
Re: بدلو یا بدل ڈالو

یہ سماج کئی دہائیوں سے بے کسوں اور بے حسوں کا میدان جنگ بن چکا ہے۔ ایک طبقہ حکمرانی کے لئے چنا گیا ہے ایک کی قسمت میں غلامی لکھ دی گئی ہے۔ ایک نظام کی بقاءکو ڈھا ل بناتا ہے ایک انقلاب کا نعرہ لگا تا ہے ۔ کچھ تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور کچھ تسلسل کا راگ الاپتے ہیں۔ ہر طبقہ اپنے مکتبہ فکر کے حوالے سے دلیل دیتا ہے، دعوی کرتا ہے ، عمومی فلاح کے درشن کرواتا ہے ، امید کے دیپ جلاتا ہے ۔ مگر دہائیاں گزر گئیں کچھ نہیں بدلا ۔ نہ سماج ، نہ حالات ، نہ سوچ ،نہ فکر ۔

پار لیمنٹ میںجس کی تقریر سنو ایمان لانے کو دل کرتا ہے ۔ الفاظ کا چناو ، لہجے کا زیروبم ، دلیل اور استدلال اپنے عروج کے کمال پر ہیں۔ ہر شخص سچا لگتا ہے تالیوں کی گونج اسکے سچائی کی بارہا گواہی دیتی ہے ۔ہر پارٹی دوسرے سے بہتر اپنا موقف بیان کرتی ہے ۔ اپنے بہترین کھلاڑی کو سامنے لاتی ہے۔ جو اپنے برسوں کے تجربے کو بروئے کار لا کر لمحوں میں ایوان پر چھا جاتا ہے ۔ علم و دانش کے اس مقابلے میں ہر مقرر فاتح ہے ہر کھلاڑی اپنی ذات میں کپتان اور ہر پتہ ترپ کا پتہ ہے۔ سب ایک نقطے پر متفق ہیں کہ نظام چلے گا تو ملک چلے گا۔ جمہوریت ہوگی تو ریاست ہوگی ۔ تبدیلی چہروں کی تو گوارہ ہے نظام حکومت کی نہیں


پارلیمنٹ کے باہر بھی ایک مجمع جمع ہے ۔ لیڈران کو چھوڑ کر دھرنے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ظلم اور جبر کے اس نظام سے خائف ہیں ۔ ان کے چہروں پر امید کے وہ چراغ روشن ہیں جو ہر انقلاب سے پہلے انقلاب لانے والوں کے چہرے منور کرتے ہیں۔ یہ پرامید سے لوگ تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ انقلاب کے گیت گا رہے ہیں ۔ بہتری کے خواب دکھلا رہے ہیں ۔ ان سب کی توقع ہے کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ حالات بدل جائیں۔ ان کو نہ جمہوریت سے کوئی سروکا رہے نہ ریاست کے افعال کی کوئی سمجھ۔ نہ ایوان اقتدار ان کا خواب ہے نہ اسمبلی کی کاروائی میں ان کا کوئی حصہ۔ نہ وازرتوں کی تقسیم ان کی خواہش ہے نہ اربوں کی کرپشن ان کا مطمع نظر۔ نہ ترقیاتی فنڈز میں ان کا کوئی حصہ نہ کسی اخباری بیان میں ان کا کوئی ذکر۔۔۔
اس مجمعے کی سوچ کو اگر جانچیں تو سچ بات تو یہ کہ ایوان بالا میں ہونے والی علم و دانش سے بھرپور تقریر کے مقابلے میں ان کے مطالبات بہت ہی سطحی سے ہیں۔ کہا ں امریکہ اور برطانیہ کی جمہوریت کا مثالیں کہاں دو وقت کی روٹی کا مطالبہ۔ کہاں شیکسپیر اور نطشے کے اقوال کہاں لوڈ شیڈنگ کا رونا ۔ کہاں اقبال اور فراز کے شعر کہاں لاہور کے تھانے میں ایک ایف آئی آر کا ذکر۔ کہاں جمہوریت کی پاسداری کا مصمم عزم کہاں ڈنڈوں پر کیل لگا کر انقلاب کا دعوی ۔

ان دو طبقوں کی سوچ میں یہ فرق آج کا نہیں دہا ئیوں کا ہے۔ نہ نظام کی پاسداری والے تھکتے ہیں نہ تبدیلی کے خواہشمند مرتے ہیں۔
میں صرف اس سوال کی جسارت چاہتا ہوں کہ دانش کے جو جو پھول ایوان میں بکھیرے گئٰے ہیں اگر وہ سب سچ ہیں تو حالات کیوں نہیں بدلے ۔؟ملک نے ترقی کیوں نہیں کی ؟ مسائل کا خاتمہ کیوں نہیں ہوا ؟ ظلم مٹ کیوں نہیں گیا ؟ غربت ختم کیوں نہیں ہوئی ؟ تعلیم عام کیوں نہیں ہوئی؟ صحت پر ، صاف پانی پر ، بنیادی انسانی حقوق پر سب کو حصہ کیوں نہیں ملا؟

سماج کے یہ دو طبقے اپنے اپنے حصے کے لئے جدوجہد کرنے لگے ہیں ۔ اگر یہ آج ناکا م بھی ہوتے ہیں تو کل ایک اور انقلاب درپیش ہو گا۔ یہ جنگ افراد کی نہیں اپنی اپنی امیدوں کی ہے ۔ بے کسوں اور بے حسوں کی ہے ۔ اس عسرت اور بدحالی کا حل ایوان میں کرنا ہوگا رورنہ اس ملک کے ہر شہر ہر کوچے میں آے روز ایک دھرنا ہو گا۔
عمار مسعود


[/QUOT
حصے بخرے کرنے کے بعد کچھ بچتا ہے ؟ جو ان ،،فقروں ،،پر لگائیں
چلے آئے ،صاف پانی،صحت،تعلیم بنیادی انسانی حقوق
اوئے انسانی حقوق نہیں دیتے تو تم زندہ کیسے ہو، جو تم کماتے ہو اس میں آدھا تمہارا ہوتا ہے کہ نہیں؟ پھر