اس شہر کی پرپیچ گلیوں میں بالی وڈ کی جڑیں لاپرواہی کی وجہ سے گل سڑ رہی ہیں۔
کون ہے جس نے دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کا نام نہیں سنا۔ لیکن بہت سے لوگ شاید یہ نہیں جانتے کہ بالی وڈ کے ان سپر سٹارز کی جڑیں اسی شہر میں تلاش کی جا سکتی ہیں آج جس کی پہچان عسکریت پسندی اور قدامت پرستی بن کر رہ گئی ہیں۔
پشاور میں ایک جگہ ڈھکی کہلاتی ہے۔ تنگ و پرپیچ گلیوں پر مشتمل یہ علاقہ پشاور کے قدیم ترین اور مشہور ترین بازار قصہ خوانی کے پہلو میں واقع ایک پہاڑی پر قائم ہے (پشاور کی زبان ہندکو میں ڈھکی کا مطلب ہی پہاڑی ہے)۔اس علاقے میں چار سو میٹر کے دائرے کے اندر اندر بالی وڈ کے تین عظیم ستاروں دلیپ کمار، راج کپور اور شاہ رخ خان کے گھر پائے جاتے ہیں۔ڈھکی کے اندر پہنچنے کے لیے میں قصہ خوانی بازار کے بائیں طرف ایک تاریک گلی میں داخل ہو گیا جس نے مجھے دوسری طرف ایک چھوٹے سے کھلے میدان میں پہنچا دیا۔
دائیں طرف کی بھول بھلیاں گلیوں نے مجھے پہاڑی کے اوپر راج کپور کے گھر تک پہنچا دیا جو 1950 کے عشرے میں بالی وڈ کے میگا سٹار تھے۔راج کپور کے والد پرتھوی راج (جنھوں نے ’مغلِ اعظم‘ میں اکبر کا کردار ادا کیا تھا) اپنے آپ کو پہلا ہندو پٹھان کہتے تھے۔ وہ بالی وڈ میں اداکاروں کے پہلے خاندان کے بانی تھے جو اب چار نسلوں پر محیط ہے۔
کون ہے جس نے دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کا نام نہیں سنا۔ لیکن بہت سے لوگ شاید یہ نہیں جانتے کہ بالی وڈ کے ان سپر سٹارز کی جڑیں اسی شہر میں تلاش کی جا سکتی ہیں آج جس کی پہچان عسکریت پسندی اور قدامت پرستی بن کر رہ گئی ہیں۔
پشاور میں ایک جگہ ڈھکی کہلاتی ہے۔ تنگ و پرپیچ گلیوں پر مشتمل یہ علاقہ پشاور کے قدیم ترین اور مشہور ترین بازار قصہ خوانی کے پہلو میں واقع ایک پہاڑی پر قائم ہے (پشاور کی زبان ہندکو میں ڈھکی کا مطلب ہی پہاڑی ہے)۔اس علاقے میں چار سو میٹر کے دائرے کے اندر اندر بالی وڈ کے تین عظیم ستاروں دلیپ کمار، راج کپور اور شاہ رخ خان کے گھر پائے جاتے ہیں۔ڈھکی کے اندر پہنچنے کے لیے میں قصہ خوانی بازار کے بائیں طرف ایک تاریک گلی میں داخل ہو گیا جس نے مجھے دوسری طرف ایک چھوٹے سے کھلے میدان میں پہنچا دیا۔
دائیں طرف کی بھول بھلیاں گلیوں نے مجھے پہاڑی کے اوپر راج کپور کے گھر تک پہنچا دیا جو 1950 کے عشرے میں بالی وڈ کے میگا سٹار تھے۔راج کپور کے والد پرتھوی راج (جنھوں نے ’مغلِ اعظم‘ میں اکبر کا کردار ادا کیا تھا) اپنے آپ کو پہلا ہندو پٹھان کہتے تھے۔ وہ بالی وڈ میں اداکاروں کے پہلے خاندان کے بانی تھے جو اب چار نسلوں پر محیط ہے۔
- تصویر محل سینما شاہ رخ خان کے گھر سے بہت قریب ہے۔ طالبان نے 2009 کے بعد سے اس سینما کو دوبار بم سے اڑایا ہے، جو فلموں کو فحش اور غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
- ایک فلم بین نے بتایا کہ فلم دیکھتے وقت ہم سکرین سے زیادہ گیٹ کو دیکھتے رہتے ہیں جس سی فلم کا مزا کرکرہ ہو جاتا ہے۔
اس ماحول میں بالی وڈ کے ورثے کو محفوظ رکھنے کی خواہش بے تکی سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پشاور میں موسیقی، شاعری اور تھیئٹر کی روایت بہت توانا رہی ہے۔ 1936 میں پشاور کا شمار برصغیر کے ان گنے چنے شہروں میں ہونے لگا تھا جہاں ریڈیو سٹیشن قائم تھے۔
- یہاں کئی تھیئٹر گروپ تھے جن میں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور افراد حصہ لیتے تھے۔ یہ سلسلہ 1980 کی دہائی تک جاری و ساری رہا۔
- دلیپ کمار کی طرح بعض اداکاروں کے خاندان اس لیے بھارت منتقل ہو گئے کہ ان کے خاندانوں کا وہاں کاروبار تھا۔
- ہندو، خاص طور کپور خاندان، تقسیم کے بعد بھارت ہجرت کر گئے۔ شاہ رخ خان کے والد کی طرح کے لوگ بھارت ہی میں رہے کیوں کہ وہ تقسیم کے خلاف تھے۔
ان کی تین منزلہ حویلی کے سامنے کا حصہ محرابی کھڑکیوں اور باہر کو نکلی ہوئی بالکونیوں پر مشتمل ہے۔ لیکن اب یہ عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔یہاں اب کوئی نہیں رہتا لیکن کپور خاندان کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔گلی ڈنڈا کپورڈھکی کے ایک نوے سالہ باسی محمد یعقوب ہیں جو راج کپور کو اب بھی یاد کرتے ہیں۔’وہ 1920 کے عشرے میں میرا دوست تھا۔ وہ مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا۔ ہم گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ ہم ایک ہی سکول جایا کرتے تھے۔‘
راج کپور کا خاندان 1930 کے عشرے میں ممبئی منتقل ہو گیا، البتہ وہ کبھی کبھی پشاور آتے جاتے رہے۔ محمد یعقوب کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بھی 1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ٹھپ ہو گیا۔کپور خاندان کی حویلی سے تین منٹ کے راستے پر ایک تنگ گلی سے گزر کر بالی وڈ کے ایک اور بڑے کا شکست و ریـخت کا شکار مکان ہے۔دلیپ کمار کو ہندوستانی سینما کا شہنشاہِ جذبات کہا جاتا ہے۔ ان کے اعزازات کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس میں آٹھ فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہیں جو بھارت کے آسکر ایوارڈ سمجھے جا سکتے ہیں۔ان کا آبائی گھر لرزتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کہ اب گرا کہ تب گرا۔
کھڑکیوں اور دروازوں پرلکڑی کا عمدہ کام ہوا ہے لیکن سب کچھ چٹخ گیا ہے اور جگہ جگہ مکڑی کے جالے پھیلے ہوئے ہیں۔گھر کے اندر پشاوری طرز کا لکڑی کا نفیس کام پایا جاتا ہے لیکن یہ بھی بوسیدہ ہو چلا ہے۔ چھت سے پلاسٹر اکھڑ گیا ہے۔یہ مکان اب کپڑوں کے گودام کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اس عمارت میں میری ملاقات مالیار سے ہوئی جنھوں نے مجھے اس مکان کے بارے میں بتایا ’یہ ان کے فخر کی بات ہے جنھوں نے اس چھوٹی سے جگہ سے اٹھ کر ساری دنیا میں نام کمایا، لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے لیے یہ ایک تاریخی مکان ہے، جو اب گودام ہے، اور میں یہاں کام کرتا ہوں۔‘دلیپ کمار اور راج کپور تو ماضی کے درخشاں ستارے تھے، بالی وڈ کے چند حالیہ چوٹی کے اداکاروں کا شجرہ تقسیم کے 66 برس بعد بھی پشاور سے جا ملتا ہے۔
شاہ رخ خان اپنی کزن نورجہاں کے ساتھ۔
شاہ رخ پشاور میںتین منٹ اور آگے چلیں تو بالی وڈ کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے سپر سٹار کا آبائی گھر آتا ہے۔شاہ رخ خان کے والد تاج محمد خان اس مکان میں پیدا ہوئِے اور پلے بڑھے۔ خود شاہ رخ نے اپنے لڑکپن میں یہاں کئی دن گزارے ہیں جب وہ دہلی سے اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ان کی کزن نورجہان اس مکان میں رہتی ہیں۔ وہ دو بار ممبئی جا کر شاہ رخ سے مل چکی ہیں۔انھوں نے 1978 اور 1979 میں شاہ رخ کے یہاں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اسی کمرے میں سوئے تھے جس میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ یہاں پہ بہت خوش تھے کیوں کہ وہ پہلی بار اپنے دودھیال سے ملے تھے۔ بھارت میں ان کا صرف ننھیال ہے۔‘
پشاوری پیداوار ممبئی میںراج کپور کا خاندان 1930 کے عشرے میں ممبئی منتقل ہو گیا، البتہ وہ کبھی کبھی پشاور آتے جاتے رہے۔ محمد یعقوب کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بھی 1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ٹھپ ہو گیا۔کپور خاندان کی حویلی سے تین منٹ کے راستے پر ایک تنگ گلی سے گزر کر بالی وڈ کے ایک اور بڑے کا شکست و ریـخت کا شکار مکان ہے۔دلیپ کمار کو ہندوستانی سینما کا شہنشاہِ جذبات کہا جاتا ہے۔ ان کے اعزازات کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس میں آٹھ فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہیں جو بھارت کے آسکر ایوارڈ سمجھے جا سکتے ہیں۔ان کا آبائی گھر لرزتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کہ اب گرا کہ تب گرا۔
کھڑکیوں اور دروازوں پرلکڑی کا عمدہ کام ہوا ہے لیکن سب کچھ چٹخ گیا ہے اور جگہ جگہ مکڑی کے جالے پھیلے ہوئے ہیں۔گھر کے اندر پشاوری طرز کا لکڑی کا نفیس کام پایا جاتا ہے لیکن یہ بھی بوسیدہ ہو چلا ہے۔ چھت سے پلاسٹر اکھڑ گیا ہے۔یہ مکان اب کپڑوں کے گودام کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اس عمارت میں میری ملاقات مالیار سے ہوئی جنھوں نے مجھے اس مکان کے بارے میں بتایا ’یہ ان کے فخر کی بات ہے جنھوں نے اس چھوٹی سے جگہ سے اٹھ کر ساری دنیا میں نام کمایا، لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے لیے یہ ایک تاریخی مکان ہے، جو اب گودام ہے، اور میں یہاں کام کرتا ہوں۔‘دلیپ کمار اور راج کپور تو ماضی کے درخشاں ستارے تھے، بالی وڈ کے چند حالیہ چوٹی کے اداکاروں کا شجرہ تقسیم کے 66 برس بعد بھی پشاور سے جا ملتا ہے۔
شاہ رخ خان اپنی کزن نورجہاں کے ساتھ۔
شاہ رخ پشاور میںتین منٹ اور آگے چلیں تو بالی وڈ کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے سپر سٹار کا آبائی گھر آتا ہے۔شاہ رخ خان کے والد تاج محمد خان اس مکان میں پیدا ہوئِے اور پلے بڑھے۔ خود شاہ رخ نے اپنے لڑکپن میں یہاں کئی دن گزارے ہیں جب وہ دہلی سے اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ان کی کزن نورجہان اس مکان میں رہتی ہیں۔ وہ دو بار ممبئی جا کر شاہ رخ سے مل چکی ہیں۔انھوں نے 1978 اور 1979 میں شاہ رخ کے یہاں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اسی کمرے میں سوئے تھے جس میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ یہاں پہ بہت خوش تھے کیوں کہ وہ پہلی بار اپنے دودھیال سے ملے تھے۔ بھارت میں ان کا صرف ننھیال ہے۔‘
- پرتھوی راج کپور
(1906 - 1972)
اداکار اور فلم ساز اور کپور خاندان کے بانی
- دلیپ کمار
(1922 -)
نامور اداکار جنھوں نے عشروں تک بالی وڈ پر راج کیا - راج کپور
(1924-1988)
اداکار، ہدایت کار، فلم ساز، شومین، پرتھوی راج کے صاحب زادے - مدھوبالا
(1933-1969)
بالی وڈ کی ملکۂ حسن، جن کا مغلِ اعظم میں انارکلی کا کردار اب بھی دلوں پر نقش ہے - پریم ناتھ
(1926-1992)
مشہور اداکار جن کا خاندان تقسیم کے بعد بھارت منتقل ہو گیا - ونود کھنہ
(1946-)
ستر اور اسی کی دہائیوں کے انتہائی مقبول ہیرو۔ ان کے دو بیٹے بھی فلم انڈسٹری میں ہیں۔
نورجہاں کے 12 سالہ بیٹے کا نام بھی شاہ رخ ہے، اور وہ اپنے آپ کو شاہ رخ خان ثانی کہتا ہے۔ ’انکل نے وعدہ کیا ہے کہ اگر میں کرکٹ کا اچھا کھلاڑی بن گیا تو وہ مجھے اپنی ٹیم میں شامل کریں گے۔‘شاہ رخ خان انڈین پریمیئر لیگ میں کھیلنے والی کولکتہ نائٹ رائیڈرز ٹیم کے مالک ہیں۔یہی نہیں بلکہ پشاور بالی وڈ کے کئی اور مشہور و معروف ستاروں کا گھر بھی ہے۔ ان میں مدھوبالا بھی شامل ہیں جنھیں بالی وڈ کی تاریخ کی حسین ترین ہیرؤین کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ 1975 کی ریکارڈ توڑ فلم شعلے کے مشہور ولن امجد خان کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔1970 کی دہائی میں بالی وڈ کے سب سے مقبول ترین اداکاروں میں سے ایک دنود کھنہ ہیں۔ وہ بھی پشاور ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ انیل کپور کے والد سریندر کپور بھی یہیں کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنے دور کے معروف فلم پروڈیوسر تھے۔شکست و ریختآخر پشاور اتنے مشہور اداکاروں سے مالامال کیوں ہے؟پشاور میں اتنے مشاہیر کے مکانات کو محفوظ رکھنے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
دلیپ کمار کے ایک رشتے دار فواد اسحٰق کہتے ہیں ’دلیپ کمار کے گھر کو محفوظ بنانا چاہیے، تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ ہم پشاوری کیا کچھ کر سکتے ہیں۔‘لیکن خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے ان کے گھر کو سرکاری تحویل میں لینے کی ایک حالیہ کوشش مکان کی ملکیت کے تنازع کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔اسی طرح راج کپور کے گھر کو بھی سرکاری تحویل میں نہیں لیا جا سکا۔ بحالی کے کاموں کی ماہر اور صوبائی حکومت کی مشیر فریال علی گوہر نے اس کی وجوہات ’فنڈز کی کمی، اور اس مکان تک رسائی اور سکیورٹی کے مسائل‘ بتائیں۔پشاور ہی کیوں؟سوال یہ ہے کہ آخر پشاور ہی کیوں؟
اس شہر میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ یہاں اتنے بڑے ستاروں کا جنم ہوا؟مقامی تاریخ دان ابراہیم ضیا اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں:’خاموش فلموں کے دور میں ہندوستانی سینما پر پارسیوں اور بنگالیوں کا طوطی بولتا تھا۔ لیکن جب بولنے والی فلمیں آئیں تو اداکار کی شخصیت کو مرکزی اہمیت ملنا شروع ہو گئی۔ چونکہ ہندوستانی معیار کے مطابق پشاور کے لوگ لمبے تڑنگے اور سرخ و سفید تھے، اور ہندی زبان زیادہ روانی سے بول سکتے تھے۔وجہ چاہے جو بھی ہو، پشاور کو ہندوستانی فلمی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشکلات میں گھرے اس شہر کی پرپیچ گلیوں میں بالی وڈ کی جڑیں لاپرواہی کی وجہ سے گل سڑ رہی ہیں۔
اس کے علاوہ 1975 کی ریکارڈ توڑ فلم شعلے کے مشہور ولن امجد خان کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔1970 کی دہائی میں بالی وڈ کے سب سے مقبول ترین اداکاروں میں سے ایک دنود کھنہ ہیں۔ وہ بھی پشاور ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ انیل کپور کے والد سریندر کپور بھی یہیں کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنے دور کے معروف فلم پروڈیوسر تھے۔شکست و ریختآخر پشاور اتنے مشہور اداکاروں سے مالامال کیوں ہے؟پشاور میں اتنے مشاہیر کے مکانات کو محفوظ رکھنے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
دلیپ کمار کے ایک رشتے دار فواد اسحٰق کہتے ہیں ’دلیپ کمار کے گھر کو محفوظ بنانا چاہیے، تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ ہم پشاوری کیا کچھ کر سکتے ہیں۔‘لیکن خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے ان کے گھر کو سرکاری تحویل میں لینے کی ایک حالیہ کوشش مکان کی ملکیت کے تنازع کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔اسی طرح راج کپور کے گھر کو بھی سرکاری تحویل میں نہیں لیا جا سکا۔ بحالی کے کاموں کی ماہر اور صوبائی حکومت کی مشیر فریال علی گوہر نے اس کی وجوہات ’فنڈز کی کمی، اور اس مکان تک رسائی اور سکیورٹی کے مسائل‘ بتائیں۔پشاور ہی کیوں؟سوال یہ ہے کہ آخر پشاور ہی کیوں؟
اس شہر میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ یہاں اتنے بڑے ستاروں کا جنم ہوا؟مقامی تاریخ دان ابراہیم ضیا اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں:’خاموش فلموں کے دور میں ہندوستانی سینما پر پارسیوں اور بنگالیوں کا طوطی بولتا تھا۔ لیکن جب بولنے والی فلمیں آئیں تو اداکار کی شخصیت کو مرکزی اہمیت ملنا شروع ہو گئی۔ چونکہ ہندوستانی معیار کے مطابق پشاور کے لوگ لمبے تڑنگے اور سرخ و سفید تھے، اور ہندی زبان زیادہ روانی سے بول سکتے تھے۔وجہ چاہے جو بھی ہو، پشاور کو ہندوستانی فلمی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشکلات میں گھرے اس شہر کی پرپیچ گلیوں میں بالی وڈ کی جڑیں لاپرواہی کی وجہ سے گل سڑ رہی ہیں۔