اقتباس۔۔۔۔"
یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں، کے دوران جب طالب علموں کو ضابطہء اخلاق بتایا جا رہا تھا اور انھیں بتایا جا رہا تھا کہ گھروں سے مہذب لباس پہن کر آئیں لڑکوں کو بغیر بازو کی شرٹ اور ٹی شرٹ پہننے کی اجازت نہیں، لڑکیاں جینز، کھلے گلے، بغیر بازو کی قمیضیں اور قمیضیں اور پاجامے نہ پہنیں لڑکیاں جینز نہیں پہن سکتیں اور نہ ہی بغیر دوپٹے کے یونیورسٹی آسکتی ہیں۔ یونیورسٹی کی حدود میں لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط اور آپس میں محفوظ فاصلہ رکھنا ضروری ہے۔یہ وہ ہدایات ہیں کہ جن پر لڑکیوں کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کی حفاظت ہی کے خیال سے یہ سب اقدامات کیے جا رہے ہیں۔کوئی بھی ایسا لباس جسے دیکھ کر نظر پلٹ کر دوبارہ پڑے، ایسا لباس تو ہمارے مذہب کے رو سے بھی پہننا جائز نہیں، مگر بجائے اس بات پر خوش ہونے کے کہ لباس کے معاملے میں عائد کی گئی پابندیاں ان ہی کے مفاد اور موافقت میں ہیں یہ ساری ہدایات لکھ کر موصوفہ پوچھتی ہیں، اتنی پابندیاں، ہم ملک کی ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا طالبانائزیشن کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں؟اس کے سوال پر ہی اکتفا نہیں، اس کے جواب میں جن لوگوں نے facebook کی اس بحث میں حصہ لیا ہے ان کے خیالات اور سوچ بھی مغربی معاشرے کو شرمانیوالی ہے۔
جن لڑکیوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ ہدایات جاری کی ہیں، وہ لڑکیاں خود ہی نہیں چاہتیں کہ ان کی عزت محفوظ رہے، آبرو باختہ معاشرے میں رہتے ہوئے ہم اخلاقی اور مذہبی اقدار سے اتنا دور جا چکے ہیں کہ ہمیں ہر وہ شے بھاتی اور آسان لگتی ہے جو ہمارے مذہب کی تعلیمات سے تضاد رکھتی ہو۔ میں ہر روز سیکڑوں لڑکیوں اور لڑکوں کو تعلیمی اداروں سے نکلتے ہوئے دیکھتی ہوں اورسوچتی ہوں کہ کیا ان بچوں کے والدین دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے اپنے تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے کس طرح کے حلیے میں گھر سے نکلے ہیں؟ہم پر اخلاقی پستی کے باعث سب مصائب آرہے ہیں، ہم اس قدر پست ہو چکے ہیں کہ رشتوں کی پہچان بھی ختم ہو چکی ہے۔ ہم خود سے کیوں سوال نہیں کرتے کہ ہم پر ایک کے بعد دوسری قدرتی آفات اور عذاب کے آنے کے اسباب کیا ہیں کچھ تو سبب ہے کہ، زلزلے بے سبب نہیں آتے!!!
یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں، کے دوران جب طالب علموں کو ضابطہء اخلاق بتایا جا رہا تھا اور انھیں بتایا جا رہا تھا کہ گھروں سے مہذب لباس پہن کر آئیں لڑکوں کو بغیر بازو کی شرٹ اور ٹی شرٹ پہننے کی اجازت نہیں، لڑکیاں جینز، کھلے گلے، بغیر بازو کی قمیضیں اور قمیضیں اور پاجامے نہ پہنیں لڑکیاں جینز نہیں پہن سکتیں اور نہ ہی بغیر دوپٹے کے یونیورسٹی آسکتی ہیں۔ یونیورسٹی کی حدود میں لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط اور آپس میں محفوظ فاصلہ رکھنا ضروری ہے۔یہ وہ ہدایات ہیں کہ جن پر لڑکیوں کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کی حفاظت ہی کے خیال سے یہ سب اقدامات کیے جا رہے ہیں۔کوئی بھی ایسا لباس جسے دیکھ کر نظر پلٹ کر دوبارہ پڑے، ایسا لباس تو ہمارے مذہب کے رو سے بھی پہننا جائز نہیں، مگر بجائے اس بات پر خوش ہونے کے کہ لباس کے معاملے میں عائد کی گئی پابندیاں ان ہی کے مفاد اور موافقت میں ہیں یہ ساری ہدایات لکھ کر موصوفہ پوچھتی ہیں، اتنی پابندیاں، ہم ملک کی ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا طالبانائزیشن کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں؟اس کے سوال پر ہی اکتفا نہیں، اس کے جواب میں جن لوگوں نے facebook کی اس بحث میں حصہ لیا ہے ان کے خیالات اور سوچ بھی مغربی معاشرے کو شرمانیوالی ہے۔
جن لڑکیوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ ہدایات جاری کی ہیں، وہ لڑکیاں خود ہی نہیں چاہتیں کہ ان کی عزت محفوظ رہے، آبرو باختہ معاشرے میں رہتے ہوئے ہم اخلاقی اور مذہبی اقدار سے اتنا دور جا چکے ہیں کہ ہمیں ہر وہ شے بھاتی اور آسان لگتی ہے جو ہمارے مذہب کی تعلیمات سے تضاد رکھتی ہو۔ میں ہر روز سیکڑوں لڑکیوں اور لڑکوں کو تعلیمی اداروں سے نکلتے ہوئے دیکھتی ہوں اورسوچتی ہوں کہ کیا ان بچوں کے والدین دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے اپنے تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے کس طرح کے حلیے میں گھر سے نکلے ہیں؟ہم پر اخلاقی پستی کے باعث سب مصائب آرہے ہیں، ہم اس قدر پست ہو چکے ہیں کہ رشتوں کی پہچان بھی ختم ہو چکی ہے۔ ہم خود سے کیوں سوال نہیں کرتے کہ ہم پر ایک کے بعد دوسری قدرتی آفات اور عذاب کے آنے کے اسباب کیا ہیں کچھ تو سبب ہے کہ، زلزلے بے سبب نہیں آتے!!!