Nawaz sharif was pm for over 4 years didn't do anything in NA120, Maryam has done few weeks of sympa

Imran the legend

Chief Minister (5k+ posts)
Nawaz sharif was pm for over 4 years didn't do anything in NA120, Maryam has done few weeks of sympathy drama that NS loves you again & needs your vote again promise some jobs, then after win disappear again, in rich ruling life.

4 years pmln didn't do any thing in NA120 just few weeks before elections they remembered they love people roads starting building, starting giving jobs. Started listening to people just had play a drama that her day was unfairly kicked out that's why they don't spend money on education so people don't devolp they stay dumb so they ca carry on ruling them stay in power and enjoy the rich elite life.

Go abroad doe medical treatment go abroad for schools for them selfs they didn't give clean water or schools just few weeks drama then disappear again until the next elections.

DSC0323-222x300.jpg
 
Last edited by a moderator:

Educationist

Chief Minister (5k+ posts)
گوالمنڈی: 1985 سے 2017 تک کا سفر

گوالنڈی چوک سے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی طرف جائیں تو چند قدم چلنے کے بعد دائیں طرف رفیق شیر فروش کی دکان ہے، یہ وہی دکان ہے جس کی پیڑے والی لسی پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ یہاں کا دہی اتنا میٹھا کہ جیسے شہد ملا ہو، اتنا سخت جما ہوا کہ جیسے آئس کریم ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا دہی نیسلے والے بھی آج تک نہ بنا سکے۔
یہ دکان شروع کرنے والا رفیق مرحوم، جسے ساری گوالمنڈی چاچا کہا کرتی تھی، ہاتھ کی مدھانی سے لسی بنایا کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک گڑوی ہوا کرتی تھی جو اس کے والد صاحب نے 1932 میں امرتسر سے خریدی تھی اور پھر اسی گڑوی میں اگلے 60 سال تک چاچا رفیق لسی بناتا رہا اور لوگوں کو حیران کرتا رہا۔
آجکل غالباً چاچے رفیق کا بھتیجا یہ دکان چلاتا ہے اور کافی بیمار شیمار بھی رہنے لگا ہے، اللہ اسے صحت دے۔ اب اس نے وہ پرانی گڑوی کہیں کونے میں رکھ دی ہے کیونکہ اس کے ہاتھ نہیں چلتے، اب بجلی کی گڑوی سے لسی بنتی ہے۔
چاچے رفیق کی دکان کے سامنے ایک کلچے کی دکان ہوا کرتی تھی جس کے پاس کوئلے کا تندور تھا اور وہ شام کو خستہ باقر خانیاں لگا کر پورے گوالمنڈی کی گلیوں میں سحر انگیز خوشبو پھیلا دیا کرتا تھا۔ اس کے تندور سے گرما گرم کلچہ لے کر چاچے رفیق کے ساتھ والے مرغ چنے کے کھوکھے سے لوگ چنے کے ساتھ کھاتے تھے۔ کلچہ خرید کر سڑک پار کرتے کرتے آدھا کلچہ ویسے ہی ختم ہوجایا کرتا تھا کیونکہ وہ اتنا خستہ، اتنا تازہ ہوتا تھا کہ کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا تھا۔
وہ تندور والا بھی چند سال قبل فوت ہوگیا اور اب اس کی جگہ اس کا بیٹا تندور چلاتا ہے۔ مشقت سے بچنے کیلئے اب اس نے کوئلوں کی بجائے گیس والا تندور لگا لیا ہے، کلچے پہلے جیسے خستہ نہیں رہے، لیکن کوالٹی میں دوسروں سے بہتر ہیں۔ باقر خانی لگانے کا سلسلہ اس کے والد صاحب کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔
تھوڑا مزید آگے ریلوے روڈ کالج کی طرف چلیں، بائیں طرف ایک مسجد آتی ہے، اس کے بازو میں ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان ہوا کرتی تھی۔ یہ دکان 1940 میں بنی تھی اور پڑدادا سے سے ہوتی ہوئی اب پڑپوتے کے پاس ہے۔ دکان والے کے پڑدادا، دادا اور والد صاحب کی ایک عادت تھی کہ کوئی بھی بچہ اگر سودا سلف لینے آتا تو اسے ' چُونگا ' ضرور دیتے، چاھے ایک پیسے کی گولی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ گولیاں ختم ہوچکی ہوتیں تو تھوڑی سی چینی یا گڑ دے دیا کرتے۔ جب بھی دال یا کھلا گھی خریدنا ہوتا تو مائیں اپنے بچوں کو ہی بھیجتیں، کیونکہ یہ پرچون فروش بچوں کو وزن سے زیادہ دیتا تھا اور ساتھ انہیں چونگا بھی ملتا۔ پرچون والے کو بھی پتہ تھا کہ عورتیں اپنے بچوں کو کس وجہ سے اس کے پاس بھیجتی ہیں، لیکن وہ پھر بھی بچوں کے ساتھ خصوصی شفقت کرتا۔
اب اس سٹور کا نقشہ بدل چکا ہے، اب اس میں فرنٹ کے کاؤنٹر کی بجائے سیلف سروس کی طرح کی آئلز آچکیں، اب ہر چیز پہلے سے پیکٹوں میں بند ہیں، اب نہ تو بچوں کو چونگا ملتا ہے اور نہ ہی وزن سے زیادہ تول کر دالیں ملتی ہیں۔
گوالمنڈی والوں نے 1985 میں پہلی مرتبہ نوازشریف کو اسمبلی میں پہنچایا اور چاچے رفیق فروش، اس کے سامنے تندور والا، بازو میں مرغ چنے بیچنے والا اور آگے یہ پرچون فروش، ان سب لوگوں نے ہر الیکشن میں نوازشریف کے پوسٹرز لگائے اور اس کے انتخابی دفتر کیلئے اپنی دکان کے سامنے کرسیاں لگوائیں۔
آج 2017 آگیا، پچھلے 32 سال میں ان کی حالت بس اتنی ہی بدلی کہ چاچے رفیق کی دکان پر اب بجلی کی مدھانی ہے، سامنے کلچے والے کے پاس گیس کا تندور آگیا، ساتھ مرغ چنے والا میز کی بجائے ریڑھی پر آگیا اور اس پرچون فروش نے اب تول کر چیزیں دینا بند کردیں۔
آج بھی گوالمنڈی کے نلکوں میں پانی قطرہ قطرہ آتا ہے، آج بھی بارش کی پھوار پڑے تو وہاں گلیاں جوہڑ بن جاتی ہیں، آج بھی وہاں کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، آج بھی وہ لوگ آدھے کلومیٹر دور میو ہاسپٹل میں جاتے ہیں تو کئی کئی گھنٹے خوار ہوتے ہیں۔ آج بھی ان کے بچوں کے پاس نہ تو تعلیم کی سہولیات آسکیں اور نہ ہی انہیں بغیر رشوت کے سرکاری سروس میسر ہوسکی۔
گوالمنڈی والوں کی دو نسلیں قبر میں پہنچ گئیں لیکن نوازشریف اب بھی سیاست کررہا ہے، آج بھی اس کی بیٹی گوالمنڈی والوں کو ان کی تقدیر بدلنے کے وعدے کرکے ووٹ مانگ رہی ہے، 1985 میں نوازشریف کو ووٹ دینے والے اگر زندہ ہیں تو وہ اپنی حالت دیکھ لیں اور اس کا موازنہ نوازشریف اور اس کی فیملی سے کرلیں۔
گوالمنڈی والو، ضمنی الیکشن میں ووٹ بے شک بیگم کلثوم نواز کو دے دینا لیکن ایک دفعہ یہ ضرور سوچ لینا کہ پچھلے 32 برس میں اگر نوازشریف کچھ نہ کرسکا تو اب کیا کرلے گا ؟؟؟ ۔

تحریر: گوالمنڈی کا ایک رہائشی


 

chandaa

Prime Minister (20k+ posts)
Re: گوالمنڈی: 1985 سے 2017 تک کا سفر

Loharis know the secret of Lohaar family. They became billionaire after coming into politics.
 

Educationist

Chief Minister (5k+ posts)
Re: گوالمنڈی: 1985 سے 2017 تک کا سفر

امی بیمار ہے
ابو نا اہل ہے
بھائیوں نے گھر سے نکال دیا

خاوند بےروزگار ہے
اولاد لندن میں خیرات پر "پل" رہی ہے۔
 

Admiral

Chief Minister (5k+ posts)
Re: گوالمنڈی: 1985 سے 2017 تک کا سفر



میرے پیارے بھائی جان، پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ان۔اے 120 والوں کے دماغ، اور شعور، گزشتہ 30 سالوں سے گٹروں کا پانی پی پی کر ختم ہو چکے
ان سے زیادہ عقل تو باندروں میں ہوتی ہے،، ایک باندر بھی اپنے بچوں پر ہونے والے ظلم کو برداشت نہیں کرے گا
اور یہ ووٹرز خود اپنے ہاتھوں سے اپنی نسلوں کی بربادی کا ووٹ ڈال کر آتے ہیں شیر کی گ میں
 
Last edited:

Back
Top