KHISFO
Senator (1k+ posts)
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/03/130325_kpk_leaders_constituencies_tim.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/03/130325_kpk_leaders_constituencies_tim.shtml
پشاور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون سے پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان عوامی نشنل پارٹی کے امیدوار سابق وفاقی وزیر غلام احمد بلور کا مقابلہ
کریں گے
۔
پاکستان میں عام انتخابات کے اعلان اور پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں نگراں انتظامیہ کےحلف ٹھا لینے کے بعد اب سیاسی جماعتوں نے ہر حلقے کے لیے امیدواروں کی نامزدگی کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں عمران خان ، مولانا فضل الرحمان ، اسفندیار ولی خان ، آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور دیگر سیاسی قائدین نے بھی اپنے اپنے حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
پشاور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون سے پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان عوامی نشنل پارٹی کے امیدوار سابق وفاقی وزیر غلام احمد بلور کا مقابلہ کریں گے۔ اس حلقے سے اگرچہ دیگر سیاسی جماعتیں جیسے پاکستان پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار بھی میدان میں ہوں گے لیکن یہ حلقہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار غلام احمد بلور کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
اس حلقے سے سن دو ہزار دو کے انتخابات میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار شبیر احمد خان کامیاب ہوئے تھے جبکہ اے این پی کے عثمان بلور دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں اس حلقے سے حاجی غلام احمد بلور کامیاب ہوئے تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ایوب شاہ دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی جلسوں سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے اور عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ نظر آتا ہے۔
تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان سیٹ ایڈجسمنٹ کے نتیجے میں کہا جا رہا کہ تحریکِ انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔
اسی طرح تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہو چکی ہے اس لیے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ جس جماعت کا ساتھ دے وہ اکثر کامیاب ہوا کرتی ہے۔
اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی ان انتخابات میں اپنی قربانیوں کو تقاریر کا اہم موضوع بنا سکتی ہے اور پشاور کی سطح پر تو بشیر احمد بلور کی ہلاکت کے بعد لوگوں کی ہمدردیاں ایک مرتبہ پھر بلور خاندان کے ساتھ ہو سکتی ہیں۔
خیبر پختونخواہ میں دیگر سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس مرتبہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چوبیس اور این اے پچیس سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔
ان حلقوں پر اب تک ان کے مد مقابل کوئی بڑے نام سامنے نہیں آئے ہیں۔ بظاہر مولانا فضل الرحمان اب تک اس حلقے سے مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ ان کی اپنی شخصیت اور ان کی جماعت کے ووٹ بینک کے علاوہ مسلم لیگ نواز سے ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی بتائی جاتی ہے۔
یہ حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک کے علاقوں پر مشتمل ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سن دو ہزار آٹھ کے انتخاب میں این اے چوبیس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی سےہار گئے تھے جبکہ این اے پچیس سے ان کے بھائی مولانا عطاءالرحمان کامیاب ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان گزشتہ انتخابات میں بنوں سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہو ئے تھے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس مرتبہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چوبیس اور این اے پچیس سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔
خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے سات پر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ حلقہ اگرچہ اے این پی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن سن دو ہزار دو کے انتخابات میں اس حقلے سے متحدہ مجلس
عمل کے امیدوار مولانا محمد گوہر شاہ کامیاب ہوچکے ہیں۔
اسفندیار ولی خان دو ہزار آٹھ کے انتخاب میں اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے۔ آئندہ انتخابات کے لیے اب تک اسفندیار ولی خان کے مقابلے میں کوئی اہم شخصیت سامنے نہیں آئی ہے۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کی بات ہے تو پیپلز پارٹی اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جماعت کے علاوہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک اس حلقے میں پایا جاتا ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کی صورت میں اس حلقے میں اسفندیار ولی خان کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف کی پوزیشن اس کے امیدواروں سے واضح ہو پائے گی کیونکہ اس وقت تک جتنے تجزیے کیے جا رہے ہیں وہ عمران خان کی مقبولیت اور تحریک انصاف کے جلوس کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ چارسدہ میں اپنے مضبوط گڑھ این اے آٹھ سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ آفتاب شیرپاؤ نے چند ماہ پہلے اپنی جماعت کا نام پیپلز پارٹی شیرپاؤ سے تبدیل کر کے اس کا نام قومی وطن پارٹی رکھ کر قو می پرستی کی سیاست میں قدم رکھا ہے۔ آفتاب شیر پاؤ اس نشست پر دو ہزار دو اور دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی حریف جماعت عوامی نیشنل پارٹی سمجھی جاتی ہے لیکن اس حلقے میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی ہے جو کسی بھی وقت کوئی اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں عام انتخابات کے اعلان اور پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں نگراں انتظامیہ کےحلف ٹھا لینے کے بعد اب سیاسی جماعتوں نے ہر حلقے کے لیے امیدواروں کی نامزدگی کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں عمران خان ، مولانا فضل الرحمان ، اسفندیار ولی خان ، آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور دیگر سیاسی قائدین نے بھی اپنے اپنے حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
پشاور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون سے پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان عوامی نشنل پارٹی کے امیدوار سابق وفاقی وزیر غلام احمد بلور کا مقابلہ کریں گے۔ اس حلقے سے اگرچہ دیگر سیاسی جماعتیں جیسے پاکستان پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار بھی میدان میں ہوں گے لیکن یہ حلقہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار غلام احمد بلور کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
اس حلقے سے سن دو ہزار دو کے انتخابات میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار شبیر احمد خان کامیاب ہوئے تھے جبکہ اے این پی کے عثمان بلور دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں اس حلقے سے حاجی غلام احمد بلور کامیاب ہوئے تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ایوب شاہ دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی جلسوں سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے اور عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ نظر آتا ہے۔

اسی طرح تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہو چکی ہے اس لیے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ جس جماعت کا ساتھ دے وہ اکثر کامیاب ہوا کرتی ہے۔
اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی ان انتخابات میں اپنی قربانیوں کو تقاریر کا اہم موضوع بنا سکتی ہے اور پشاور کی سطح پر تو بشیر احمد بلور کی ہلاکت کے بعد لوگوں کی ہمدردیاں ایک مرتبہ پھر بلور خاندان کے ساتھ ہو سکتی ہیں۔
خیبر پختونخواہ میں دیگر سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس مرتبہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چوبیس اور این اے پچیس سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔
ان حلقوں پر اب تک ان کے مد مقابل کوئی بڑے نام سامنے نہیں آئے ہیں۔ بظاہر مولانا فضل الرحمان اب تک اس حلقے سے مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ ان کی اپنی شخصیت اور ان کی جماعت کے ووٹ بینک کے علاوہ مسلم لیگ نواز سے ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی بتائی جاتی ہے۔
یہ حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک کے علاقوں پر مشتمل ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سن دو ہزار آٹھ کے انتخاب میں این اے چوبیس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی سےہار گئے تھے جبکہ این اے پچیس سے ان کے بھائی مولانا عطاءالرحمان کامیاب ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان گزشتہ انتخابات میں بنوں سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہو ئے تھے۔

خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے سات پر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ حلقہ اگرچہ اے این پی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن سن دو ہزار دو کے انتخابات میں اس حقلے سے متحدہ مجلس
عمل کے امیدوار مولانا محمد گوہر شاہ کامیاب ہوچکے ہیں۔
اسفندیار ولی خان دو ہزار آٹھ کے انتخاب میں اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے۔ آئندہ انتخابات کے لیے اب تک اسفندیار ولی خان کے مقابلے میں کوئی اہم شخصیت سامنے نہیں آئی ہے۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کی بات ہے تو پیپلز پارٹی اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جماعت کے علاوہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک اس حلقے میں پایا جاتا ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کی صورت میں اس حلقے میں اسفندیار ولی خان کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف کی پوزیشن اس کے امیدواروں سے واضح ہو پائے گی کیونکہ اس وقت تک جتنے تجزیے کیے جا رہے ہیں وہ عمران خان کی مقبولیت اور تحریک انصاف کے جلوس کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ چارسدہ میں اپنے مضبوط گڑھ این اے آٹھ سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ آفتاب شیرپاؤ نے چند ماہ پہلے اپنی جماعت کا نام پیپلز پارٹی شیرپاؤ سے تبدیل کر کے اس کا نام قومی وطن پارٹی رکھ کر قو می پرستی کی سیاست میں قدم رکھا ہے۔ آفتاب شیر پاؤ اس نشست پر دو ہزار دو اور دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی حریف جماعت عوامی نیشنل پارٹی سمجھی جاتی ہے لیکن اس حلقے میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی ہے جو کسی بھی وقت کوئی اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/03/130325_kpk_leaders_constituencies_tim.shtml
Last edited by a moderator: