Murtaza Javed Abbasi got injured after falling from vehicle in Maryam's convey

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
I heard from here about Qatri video from many days...I don't have idea..what type of this Qatri video is?.
قطری ویڈیو ایک خیالی ویڈیو ہے جو اس وقت بنایی گی جب مریم
اکیلے میں جاسم قطری سے قطر ملنے گی تھی نواز شریف کے لیے
مشھور زمانہ قطری خط لینے.
اب پتا نہیں کوئی ویڈیو ہے بھی یا نہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ قطر
وزٹ کے بعد مریم کی جو لڑکی پیدا ہوئی اسکی شکل قطری جاسم
سے بلکل ملتی ہے.
 

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)




ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر ( تیراندازوں کے ) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں ۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا ‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں ۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا ‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں ۔ پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی ۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ اللہ کی قسم ! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں ۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں ۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا ‘ کہ غنیمت لوٹو ‘ اے قوم ! غنیمت تمہارے سامنے ہے ۔ تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں ۔ اب ڈر کس بات کا ہے ۔ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ‘ تم اسے بھول گئے ؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے ۔ جب یہ لوگ ( اکثریت ) اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے ‘ اور ( مسلمانوں کو ) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے ‘ یہی وہ گھڑی تھی ( جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ ) ” جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے “ ۔ اس سے یہی مراد ہے ۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا ۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے ۔ بدر کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا ‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول ‘ ( جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر ) ابوسفیان نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں ؟ تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا ‘ کیا ابن ابی قحافہ ( ابوبکر رضی اللہ عنہ ) اپنی قوم میں موجود ہیں ؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا ‘ پھر پوچھا ابن خطاب ( عمر رضی اللہ عنہ ) اپنی قوم میں موجود ہیں ؟ یہ بھی تین مرتبہ پوچھا ‘ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے خدا کے دشمن ! خدا گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لئے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے ۔ ابوسفیان نے کہا اچھا ! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے ۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے ( کبھی ادھر کبھی ادھر ) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے ۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم ( اپنے آدمیوں کو ) نہیں دیا تھا ‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا ۔ اس کے بعد وہ فخر یہ رجز پڑھنے لگا ‘ ہبل ( بت کا نام ) بلند رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے ۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ ( بت ) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں ، آپ نے فرمایا ، جواب کیوں نہیں دیتے ، صحابہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! اس کا جواب کیا دیا جائے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں ۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ يُحَدِّثُ قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ ـ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلاً ـ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ فَقَالَ ‏"‏ إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ، فَلاَ تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلاَ تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ ‏"‏ فَهَزَمُوهُمْ‏.‏ قَالَ فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ ـ أَىْ قَوْمِ ـ الْغَنِيمَةَ، ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالُوا وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ‏.‏ فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم غَيْرُ اثْنَىْ عَشَرَ رَجُلاً، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلاً، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُجِيبُوهُ ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَّا هَؤُلاَءِ فَقَدْ قُتِلُوا‏.‏ فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ، وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوؤُكَ‏.‏ قَالَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، وَالْحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ أُعْلُ هُبَلْ، أُعْلُ هُبَلْ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ قَالَ ‏"‏ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ ‏"‏‏.‏ قَالَ إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ قَالَ ‏"‏ قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ ‏"‏‏
.‏
Reference: Sahih al-Bukhari 3039
In-book reference: Book 56, Hadith 245
USC-MSA web (English) reference: Vol. 4, Book 52, Hadith 276
 

Insaaf4Tyrain

Chief Minister (5k+ posts)


ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر ( تیراندازوں کے ) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں ۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا ‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں ۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا ‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں ۔ پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی ۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ اللہ کی قسم ! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں ۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں ۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا ‘ کہ غنیمت لوٹو ‘ اے قوم ! غنیمت تمہارے سامنے ہے ۔ تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں ۔ اب ڈر کس بات کا ہے ۔ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ‘ تم اسے بھول گئے ؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے ۔ جب یہ لوگ ( اکثریت ) اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے ‘ اور ( مسلمانوں کو ) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے ‘ یہی وہ گھڑی تھی ( جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ ) ” جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے “ ۔ اس سے یہی مراد ہے ۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا ۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے ۔ بدر کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا ‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول ‘ ( جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر ) ابوسفیان نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں ؟ تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا ‘ کیا ابن ابی قحافہ ( ابوبکر رضی اللہ عنہ ) اپنی قوم میں موجود ہیں ؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا ‘ پھر پوچھا ابن خطاب ( عمر رضی اللہ عنہ ) اپنی قوم میں موجود ہیں ؟ یہ بھی تین مرتبہ پوچھا ‘ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے خدا کے دشمن ! خدا گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لئے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے ۔ ابوسفیان نے کہا اچھا ! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے ۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے ( کبھی ادھر کبھی ادھر ) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے ۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم ( اپنے آدمیوں کو ) نہیں دیا تھا ‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا ۔ اس کے بعد وہ فخر یہ رجز پڑھنے لگا ‘ ہبل ( بت کا نام ) بلند رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے ۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ ( بت ) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں ، آپ نے فرمایا ، جواب کیوں نہیں دیتے ، صحابہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! اس کا جواب کیا دیا جائے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ يُحَدِّثُ قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ ـ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلاً ـ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ فَقَالَ ‏"‏ إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ، فَلاَ تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلاَ تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ ‏"‏ فَهَزَمُوهُمْ‏.‏ قَالَ فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ ـ أَىْ قَوْمِ ـ الْغَنِيمَةَ، ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالُوا وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ‏.‏ فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم غَيْرُ اثْنَىْ عَشَرَ رَجُلاً، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلاً، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُجِيبُوهُ ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَّا هَؤُلاَءِ فَقَدْ قُتِلُوا‏.‏ فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ، وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوؤُكَ‏.‏ قَالَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، وَالْحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ أُعْلُ هُبَلْ، أُعْلُ هُبَلْ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ قَالَ ‏"‏ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ ‏"‏‏.‏ قَالَ إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ قَالَ ‏"‏ قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ ‏"‏‏
.‏
Reference: Sahih al-Bukhari 3039
In-book reference: Book 56, Hadith 245
USC-MSA web (English) reference: Vol. 4, Book 52, Hadith 276
Yaar kero defend lakin phir hummay na kaho ke nawaz ko q defend kertay ho
 

Insaaf4Tyrain

Chief Minister (5k+ posts)
indians-offended-by-a-social-media-meme-showing-imran-khan-as-shiv-bhagwan-by-pmln-trolls.jpg
 

thinking

Prime Minister (20k+ posts)


ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر ( تیراندازوں کے ) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں ۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا ‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں ۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا ‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں ۔ پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی ۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ اللہ کی قسم ! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں ۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں ۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا ‘ کہ غنیمت لوٹو ‘ اے قوم ! غنیمت تمہارے سامنے ہے ۔ تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں ۔ اب ڈر کس بات کا ہے ۔ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ‘ تم اسے بھول گئے ؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے ۔ جب یہ لوگ ( اکثریت ) اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے ‘ اور ( مسلمانوں کو ) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے ‘ یہی وہ گھڑی تھی ( جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ ) ” جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے “ ۔ اس سے یہی مراد ہے ۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا ۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے ۔ بدر کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا ‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول ‘ ( جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر ) ابوسفیان نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں ؟ تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا ‘ کیا ابن ابی قحافہ ( ابوبکر رضی اللہ عنہ ) اپنی قوم میں موجود ہیں ؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا ‘ پھر پوچھا ابن خطاب ( عمر رضی اللہ عنہ ) اپنی قوم میں موجود ہیں ؟ یہ بھی تین مرتبہ پوچھا ‘ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے خدا کے دشمن ! خدا گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لئے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے ۔ ابوسفیان نے کہا اچھا ! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے ۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے ( کبھی ادھر کبھی ادھر ) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے ۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم ( اپنے آدمیوں کو ) نہیں دیا تھا ‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا ۔ اس کے بعد وہ فخر یہ رجز پڑھنے لگا ‘ ہبل ( بت کا نام ) بلند رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے ۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ ( بت ) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں ، آپ نے فرمایا ، جواب کیوں نہیں دیتے ، صحابہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! اس کا جواب کیا دیا جائے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ يُحَدِّثُ قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ ـ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلاً ـ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ فَقَالَ ‏"‏ إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ، فَلاَ تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلاَ تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ ‏"‏ فَهَزَمُوهُمْ‏.‏ قَالَ فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ ـ أَىْ قَوْمِ ـ الْغَنِيمَةَ، ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالُوا وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ‏.‏ فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم غَيْرُ اثْنَىْ عَشَرَ رَجُلاً، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلاً، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُجِيبُوهُ ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَّا هَؤُلاَءِ فَقَدْ قُتِلُوا‏.‏ فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ، وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوؤُكَ‏.‏ قَالَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، وَالْحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ أُعْلُ هُبَلْ، أُعْلُ هُبَلْ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ قَالَ ‏"‏ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ ‏"‏‏.‏ قَالَ إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ قَالَ ‏"‏ قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ ‏"‏‏
.‏
Reference: Sahih al-Bukhari 3039
In-book reference: Book 56, Hadith 245
USC-MSA web (English) reference: Vol. 4, Book 52, Hadith 276


In which content you qoute this??
There are many sad incidents happend during Hazoor Pak SAW life and after HIS SAW Wasal(Dunai se parda Karnay ke baad)
And throughout during and after all Khulfay e Rashdeen RTH lives..We all still stuck on these unfortunate incidents..Which adopted by all firqas which suits thiers Firqas preaching..and all Firqas interpretation these incidents according Thiers Firqas preaching..I can qoute many here...But I always stay away from Religious Firqa base discussing on social medias.. which is very dangerous for already shattered Muslims society..Allah SWT ham sab ko Haq or Batil mein faraq Karnay ki Baseerat ata farmay..Ameen..