Munafqeen Eid k Naam..

lotaa

Minister (2k+ posts)
Asslam o Alaikum,mera ik sawal hay,agar rawayet e hilal commeti ghalt faislay karti hay,tu 12 Rabee ul Awwal,,,9 aur 10 Muharram ul Haram,,Shabb e baraat yaoma Hazrat Umar ,hazrat Abu Bakar Hazrat Usman,,Hazrat Ali Razi Allaho Anhoma poray pakistan mein q ik din hoti hy,in dinooo mein mein q koi itraz nahi karta?


Agar saal k 11 maheenay rawyet e hilal cometi sahi hoti hay tu Ramzan k 1 chand k liay ghalt Q,,Q k 12 Rabee ul Awwal,,,9 aur 10 Muharram ul Haram,,Shabb e baraat b tu hum saudia se ik din baad mein rakhtay hain,,i think ye maslaki jhagra hy jo chand mufad parst molbi popalzai ko ungli detay hain,wo ghar bethay chand dekh leta hay,itraz karnay waloon ko baqi 11 maheenay b itraz karna chahiay,12 Rabee ul Awwal,,,9 aur 10 Muharram ul Haram,,Shabb e baraat walay din b saudia k sath rakhnay chahiay.
 
Last edited by a moderator:

khandimagi

Minister (2k+ posts)
بات آپکی ٹھیک ہے، پر ،،واش بیسن،،پر کھڑے ہوکر منہ دھونے والے۔۔۔لوٹے۔۔کی بات کب سنیں گے،بھائی
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
محترم آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے کہ پوپلزئی گھر بیٹھے چاند دیکھتا ہے۔ 29 رمضان کو سارا میڈیا اور پشاور کے عوام کی اکثریت مسجد قاسم علی خان میں ہوتی ہے۔اور عیدین ہا رمضان کا اعلان ایک باقاعدہ پراسس کے بعد کیا جاتا ہے۔
چونکہ رمضان اور شوال کی پہلی تاریخ کا تعلق فرض اور واجب عبادت سے ہے اس لیے ان مہینوں کے چاند کی رویت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
عید الاضحیٰ میں قربانہ کے لیے تین دن ہوتے ہیں اس لیے وہاں بھی ایک دن کی تاخیر سے عبادت میں فرق نہیں پڑتا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مکہ مناسک حج ایک دن ادا ہوتے ہیں اور ہم دوسرے دن مناتے ہیں۔
اسی طرح دیگر دنوں میں فرض عبادات کے متاثر ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا اس لیے ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
چو

کے پی میں ہر مہینے کے چاند کو دیکھنے کی پختہ روایت موجود ہے۔

مسجد قاسم علی خان سے پہلے عید اور رمضان کے چاند کی اطلاع کا فریضہ رجڑ (چارسدہ) کے مسجد ادا کرتا تھا۔ وہاں کے مولٰنا صاحب حق کے اعلان کے بعد پورے خطے میں عید یا رمضان ہو جاتی تھی۔
صاحب حق کے بعد یہ فریضہ مفتی عبد الرحیم پوپلزئی(شہاب الدین کے والد) انجام دینے لگے۔
مسجد قاسم علی خان، بھر رجڑ چارسدہ اور اب پھر قاسم علی خان سے اعلانات کی روایت تقریباً 190 سال پرانی ہے۔ جب کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فراڈ ایوب خان کے زمانے میں شروع ہوا۔
واضح رہے کہ کمیونی کیشن نہ ہونے کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے پہلے پورے پاکستان میں ایک ہی دن عید ہوتی تھی۔ حالانکہ سعودی کے چاند کی خبر بھی دو دب بعد پاکستان پہنچتی تھی۔

پس: مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی بنیاد ایک فراڈ کے نتیجے میں پڑی۔
اس کا کوئی آئین یا قانون یا ایکٹ نہیں اس لیے اسے ختم کیا جائے۔
 

lotaa

Minister (2k+ posts)
aap k kehnay ka matlab hain aap ramzan aur zulhaj k month mein pakkay musalman hain,baqi sab ki khair hay,bhai pora saal har maheenay ka hisaab rakhna parta hay,kiya aap ye b bataa saktay hain k umman saudia k sath hay wahan Q Pakistan k sath Eid hoti hay,?
محترم آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے کہ پوپلزئی گھر بیٹھے چاند دیکھتا ہے۔ 29 رمضان کو سارا میڈیا اور پشاور کے عوام کی اکثریت مسجد قاسم علی خان میں ہوتی ہے۔اور عیدین ہا رمضان کا اعلان ایک باقاعدہ پراسس کے بعد کیا جاتا ہے۔
چونکہ رمضان اور شوال کی پہلی تاریخ کا تعلق فرض اور واجب عبادت سے ہے اس لیے ان مہینوں کے چاند کی رویت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
عید الاضحیٰ میں قربانہ کے لیے تین دن ہوتے ہیں اس لیے وہاں بھی ایک دن کی تاخیر سے عبادت میں فرق نہیں پڑتا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مکہ مناسک حج ایک دن ادا ہوتے ہیں اور ہم دوسرے دن مناتے ہیں۔
اسی طرح دیگر دنوں میں فرض عبادات کے متاثر ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا اس لیے ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
چو

کے پی میں ہر مہینے کے چاند کو دیکھنے کی پختہ روایت موجود ہے۔

مسجد قاسم علی خان سے پہلے عید اور رمضان کے چاند کی اطلاع کا فریضہ رجڑ (چارسدہ) کے مسجد ادا کرتا تھا۔ وہاں کے مولٰنا صاحب حق کے اعلان کے بعد پورے خطے میں عید یا رمضان ہو جاتی تھی۔
صاحب حق کے بعد یہ فریضہ مفتی عبد الرحیم پوپلزئی(شہاب الدین کے والد) انجام دینے لگے۔
مسجد قاسم علی خان، بھر رجڑ چارسدہ اور اب پھر قاسم علی خان سے اعلانات کی روایت تقریباً 190 سال پرانی ہے۔ جب کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فراڈ ایوب خان کے زمانے میں شروع ہوا۔
واضح رہے کہ کمیونی کیشن نہ ہونے کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے پہلے پورے پاکستان میں ایک ہی دن عید ہوتی تھی۔ حالانکہ سعودی کے چاند کی خبر بھی دو دب بعد پاکستان پہنچتی تھی۔

پس: مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی بنیاد ایک فراڈ کے نتیجے میں پڑی۔
اس کا کوئی آئین یا قانون یا ایکٹ نہیں اس لیے اسے ختم کیا جائے۔
 

dildar

MPA (400+ posts)
آپکی بات سے اتفاق ہے لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ یوم علی یا محرم سعودیہ میں نہیں منائی جاتی اسلئے جھگڑا بھی نہیں ہوتا ، اگر ہلال کمیٹی آج کہہ دے کہ عید سعودیہ منائی جاۓ گی تو تم دیکھنا کہ پوپلزی کیسے اپنے پوپلے منہ سے اقرار کرتا ہے کہ وہ بھی دراصل سارا ڈرامہ سعودیہ کی خاطر رچاتا تھا ،ایسا ہوگا نہیں کیونکہ مسلمانوں کی غالب اکثریت وہابیت سے متنفر ہے جسے مسلک کی بجاۓ آزم کہنا درست ہو گا
 

Temojin

Minister (2k+ posts)

واضح رہے کہ کمیونی کیشن نہ ہونے کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے پہلے پورے پاکستان میں ایک ہی دن عید ہوتی تھی۔ حالانکہ سعودی کے چاند کی خبر بھی دو دب بعد پاکستان پہنچتی تھی۔

پس: مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی بنیاد ایک فراڈ کے نتیجے میں پڑی۔
اس کا کوئی آئین یا قانون یا ایکٹ نہیں اس لیے اسے ختم کیا جائے۔

علامہ صاب دنیا میں ایک چیز ریڈیو بھی ہے اور وہ بہت پرانی ہے اور ریڈیو ٹرانسمیٹر بھی تب سے ہی ہیں. فضول بحث کا فائدہ نہیں. آپ نے منا لی کوئی بات نہیں لیکن غلط بات مت کریں. یہ مسلہ پہلے بھی موجود تھا اور ریڈیو شریف بہت کام کی چیز ہے. جب چاند ان علاقوں میں دیکھا جا ہی نہیں سکتا تھا تو بحث سے کیا حاصل، ہاں آپ نے پوپلزئی کی بات مان لی تو اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش تمام کر دیجئے، یہ نہ ہو کل آپ آسٹریلیا جاییں تو ماننے سے انکاری ہو جاییں کہ ایک دن کے فاصلہ میں وقت پیچھے کیسے چلا گیا کیونکہ سائنس تو جھوٹی ہے. بات صرف اتنی ہے کہ روویت بالکل ضروری ہے مگر اس وقت کے بعد جب کم از کم امکان تو ہو کے دکھ جاےگا، ہاں اس امکان کے بعد بھی نہ دکھے تو پھر اگلے دن دیکھ کے حجت پوری ہو جاےگی لیکن وہی بات جب دکھ سکے، اس سے پہلے تو پھر کہانیاں ہی ہیں. الله حافظ، اس بات پر بحث سے حاصل کچھ نہ ہوگا اسلئے جواب دینے سے گریز کیجئے گا
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
علامہ صاب دنیا میں ایک چیز ریڈیو بھی ہے اور وہ بہت پرانی ہے اور ریڈیو ٹرانسمیٹر بھی تب سے ہی ہیں. فضول بحث کا فائدہ نہیں. آپ نے منا لی کوئی بات نہیں لیکن غلط بات مت کریں. یہ مسلہ پہلے بھی موجود تھا اور ریڈیو شریف بہت کام کی چیز ہے. جب چاند ان علاقوں میں دیکھا جا ہی نہیں سکتا تھا تو بحث سے کیا حاصل، ہاں آپ نے پوپلزئی کی بات مان لی تو اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش تمام کر دیجئے، یہ نہ ہو کل آپ آسٹریلیا جاییں تو ماننے سے انکاری ہو جاییں کہ ایک دن کے فاصلہ میں وقت پیچھے کیسے چلا گیا کیونکہ سائنس تو جھوٹی ہے. بات صرف اتنی ہے کہ روویت بالکل ضروری ہے مگر اس وقت کے بعد جب کم از کم امکان تو ہو کے دکھ جاےگا، ہاں اس امکان کے بعد بھی نہ دکھے تو پھر اگلے دن دیکھ کے حجت پوری ہو جاےگی لیکن وہی بات جب دکھ سکے، اس سے پہلے تو پھر کہانیاں ہی ہیں. الله حافظ، اس بات پر بحث سے حاصل کچھ نہ ہوگا اسلئے جواب دینے سے گریز کیجئے گا

بھائی ریڈیو ٹرانسسٹر بھی تھا اخبارات بھی تھے۔ لیکن اخبارات اور ریڈیو کے لیے خبر کے ذرائعے نہیں تھی۔نامہ نگار ٹیلی گرام کے ذریعے خبر بھیجتے اسے ڈی کوڈ کیا جاتا۔ اور جب تک وہ خبر ریڈیو پاکستان کراچی لاہور اور پشاور پہنچتے وہ پُرانی ہو چکی ہوتی۔ سمجھ آئی یا نہیں۔

اور ہاں آپ ضرور مفتی منیب کے پیچھے عید اور روزہ کریں لیکن براہ کرم ہمیں تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ ہم دوسو سال سے انہی کے کہے پر عید ین کرتے ہیں اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مرکزی رویت ہلال کی بنیاد فراڈ پر رکھی گئی ہے اور جس چیز کی بنیاد فراڈ پر ہو اس سے خیر کی توقع نہیں ہوتی۔


عیدالفطر اور آغاز رمضان کا قصہ پاکستان کی حد تک بہت پرانا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کی یہ خواہش کیوں رہی ہے کہ عید اور رمضان المبارک ایک ہی دن ہوں اور پورے پاکستان میں کوئی مقررہ دن عید کا ہو یا آغاز رمضان کا معلوم نہیں ہمارے حکمران اس اتحاد سے کیا چاہتے ہیں کیونکہ عید اور رمضان المبارک کے دینی اور سیاسی تقاضوں سے وہ کوئی تعلق ظاہر نہیں کرتے اور ان موقعوں پر ان کی حکمرانی میں کوئی بہتری بھی نہیں دیکھی جاتی۔

یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی نمائشی اتحاد کے خواہاں ہوتے ہیں جو ان کی خواہش کے مطابق ہو اور ان کے لیے ملک میں مقبولیت کی نشانی بن جائے جب کہ اسلام میں عید اور رمضان کا آغاز چاند کی تاریخوں سے ہوتا ہے اور چاند کی رفتار کسی حکمران کی خواہش کی پابند نہیں ہے یہ قدرت کا ایک نظام ہے۔ عید اور روزے کے لیے ایک دن کی زبردست خواہش ایوب خان کے دور میں پہلی بار پیدا ہوئی تھی لیکن ملک بھر کے علما نے جس دن عید کرنے کا فیصلہ کیا تھا وہ دن حکمران کے پسندیدہ دن سے مختلف تھا۔

مشکل یہ پیدا ہو گئی کہ عید کی نماز پڑھانے کے لیے کوئی امام آمادہ نہیں تھا۔ اس زمانے میں کراچی دارالحکومت تھا مقامی انتظامیہ جیل کے امام مسجد کو پکڑ لائی جس نے عید کی امامت کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی چنانچہ نماز عید شروع ہوئی لیکن پہلا سجدہ جب زیادہ طویل ہو گیا تو کراچی کے ڈی سی ایس کے محمود صاحب نے ذرا سا سر اٹھا کر دیکھا تو مولوی صاحب غائب تھے یوں معلوم ہوا کہ سرکاری امام مسجد بھاگ گیا ہے۔ یہ اس قسم کا پہلا موقعہ تھا جب حکومت کی خواہش اور علمائے کرام کے عمل میں کھلا اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔

اس کے بعد اب تک یہ تنازعہ جاری ہے اور ان دنوں ہمارے وزیر مذہبی امور علما میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ان کی کامیابی اور ناکامی دونوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اس اتحاد میں ایک عالم دین ہمیشہ مشکل پیدا کرتے ہیں وہ پشاور کی قاسم مسجد کے مفتی صاحب ہیں خبر میں بتایا گیا کہ وزیر صاحب نے ان کو پیغام بھجوایا ہے کہ اس بار وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بنائیں ایک خبر یہ بھی ہے کہ انھیں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا رکن بنا لیا گیا ہے اور وہ راضی ہو گئے ہیں۔ بہر کیف پتہ تو عید کے موقعے پر یا آغاز رمضان پر ہی چلے گا۔

معلوم نہیں حکومت کو یہ کس نے بتا دیا ہے کہ اسلام میں نماز عید اور آغاز رمضان ایک ساتھ ہونے ضروری ہیں۔ عید ہو تو پورے ملک میں ایک ہی دن ہو اور پہلا روزہ بھی پورے ملک میں ایک دن رکھا جائے جب کہ دنوں کے اختلاف سے عید اور روزے کے ثواب اور اجر میں کوئی فرق نہیں پڑتا سوائے حج بیت اللہ کے اور کسی عبادت کا دن اور وقت مقرر نہیں ہے۔ جب چاند دکھائی دے تو روزے کی نیت کر لیں اور جب چاند دکھائی دے تو روزہ کھول کر عید کی تیاری کر لیں۔ حکمرانوں کی یہ خواہش پتہ نہیں کہاں سے آ گئی ہے۔

اس مسئلے میں اگر کسی کو کوئی حق حاصل ہے تو وہ صرف علما ہیں جو پورے سال نماز روزہ ادا کرتے ہیں اور حیرت انگیز حد تک پانچ وقت اس فرض کی ادائیگی کی پابندی کرتے ہیں گرمی ہو سردی بارش ہو یا مطلع صاف ہو مسجد سے اذان کی آواز ہر وقت گونجتی ہے۔ مسجد کا مؤذن نہایت ہی معمولی مشاہرے پر تمام دنیا کا یہ کام وقت مقررہ پر کرتا ہے بلکہ بعض اوقات تو یہ کام محض کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔

بہر حال وقت کی پابندی کی یہ مثال دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے کام میں ملتی ہو۔ حکمران اگر عید اور رمضان میں دن کی پابندی کا خیال رکھتے ہیں تو وہ کاروبار حکومت میں بھی اس کی پابندی کریں جو ان کے آداب حکمرانی کا حصہ ہے اور ان کے زیر حکومت خلق خدا اس کا مطالبہ کرتی ہے لیکن کاروبار مملکت میں یہ پابندی مشکل ہے اور حکمرانوں کے آرام اور دوسری آسائشوں مخل ہوتی ہے اس لیے وہ ایسے مسئلے پیدا کرتے ہیں جو فروعی کہلاتے ہیں اور ان کی ذات پر اثر انداز نہیں ہوتے۔

آغاز رمضان المبارک اور عیدالفطر کا دن اگر ایک جیسے یعنی پہلے سے طے شدہ ہوں تو قوم کو مبارک لیکن چاند کی رفتار کا جائزہ لے لیں کہ چاند نہ نکلے تو نہ روزہ رکھا جا سکتا ہے نہ عید کی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ حکمران کہہ رہے ہیں کہ جب چاند دیکھ کر تاریخ طے ہو تو پھر ملک بھر میں یہی تاریخ ہو روزے اور عید کی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حکمرانوں کو رمضان اور عید کی فکر کب سے لاحق ہو گئی ہے فی الحال وہ اگر بذات خود ان فرائض کی پابندی کریں تو قوم ان کے نیک عمل کی اجتماعی برکت سے مستفید ہو گی۔ لیکن اپنے اقتدار کو ایسے سہارے نہ دیں جو ان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ حکمران اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور عامۃالمسلمین کو ان مسئلوں میں نہ الجھائیں۔ میرا ایک نواسہ کل ہی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ بابا مجھ پر روزے کب فرض ہوں گے۔ ایک بڑی ہی مشکل اور صبر آزما عبادت کا یہ شوق نوجوانوں میں باقی رہنے دیں۔

http://www.express.pk/story/367217/
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
ایوب خان کے دور کا یہ دلچسپ واقعہ ہے جو کسی زبردست لطیفے سے کم نہیں، ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ کو ہنسی ضرور آئے گی اگر نہ آئے تو بے شک آپ ہمارا بقیہ کالم نہ پڑھیے گا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایوب خان کے دور حکومت تک ملک میں رویت ہلال کمیٹی کا تصور نہ تھا اور چاند دیکھنے سے متعلق اعلانات وزارت مذہبی امور کے حصے میں آتے تھے۔ ان ہی دنوں ایک بات بڑی مشہور ہوگئی کہ اگر ایک ہی دن دو خطبے ہو جائیں یعنی نماز عید کا خطبہ اور نماز جمعہ کا خطبہ، تو یہ دونوں خطبے حکمرانوں پر بھاری پڑتے ہیں اور ان کی حکومت کا دھڑن تختہ بھی ہو سکتا ہے۔
کسی طرح یہ بدشگونی ایوب خان کی حکومت کے لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی چنانچہ اس ڈر سے کہ کہیں عید جمعے کی نہ ہو جائے حکومت کی طرف سے ایک دن قبل چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا گیا اور سرکاری مولوی کو کہہ دیا گیا کہ وہ پولو گراؤنڈ میں نماز عید پڑھائے۔ پہلے تو مولوی صاحب نے انکار کیا مگر پھر جبر کے تحت حامی بھر لی۔ نماز کے لیے مولوی صاحب سجدے میں گئے تو موقع غنیمت جان کر سجدے سے اٹھ کر باہر نکل گئے، تمام سرکاری افسر اور دیگر نمازی دیر تک سجدے میں پڑے رہے پھر بالآخر تھک کر اٹھے تو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب غائب ہیں۔
لیجیے جناب! رمضان اور عید کی آمد کے ساتھ ہی چاند نظر آنے یا نہ آنے کا مسئلہ بھی سامنے آ گیا ہے خدا کرے کہ کالم کی اشاعت تک اس مسئلے پر کوئی اختلاف رائے نہ ہو، مسلمانوں اور پاکستان کی ساکھ کو اگر کوئی مسئلہ ہر سال تواتر کے ساتھ متاثر کر رہا ہے تو وہ یہی مسئلہ ہے۔ اس اہم مسئلے پر حال ہی میں راقم نے ایک سیمینار میں شرکت کی جس میں اسپیس سائنسز، اسپارکو کے ڈائریکٹر غلام مرتضیٰ، جامعۃ الرشید کے مفتی فیصل احمد اور شیخ زائد اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے اظہار خیال کیا۔
ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے اس مسئلے کے بڑا بنانے یا بننے کے مختلف پہلوؤں پر بہت گہرائی سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ رویت ہلال کمیٹی سے متعلق عوام میں آگہی نہیں ہے جس کے سبب ایک چھوٹی سی بات بھی بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ جاتی ہے۔
مثلاً یہ کہ رویت ہلال کمیٹی کا کام صرف چاند دیکھنا نہیں بلکہ شہادتیں وصول کرنا اور ان کو پرکھنا ہے چونکہ بعض اوقات ملک کے دور دراز علاقوں سے دیر میں چاند سے متعلق شہادتیں موصول ہوتی ہیں یا گواہی دینے والے کمیٹی سے دیر سے رابطہ کرتے ہیں چنانچہ پھر ان شہادتوں یا گواہیوں کو پرکھنے کے لیے کمیٹی کی جانب سے دوبارہ متعلقہ افراد سے رابطہ بھی کیا جاتا ہے، یوں ایک اچھا خاصا وقت اس میں درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بنا پر کبھی رات دیر سے چاند کے متعلق کمیٹی کوئی اعلان کرے تو لوگ جو اس پس منظر سے واقف نہیں ہوتے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جناب چاند کا اعلان اتنی دیر سے کیوں ہو رہا ہے ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔
مفتی فیصل احمد کا کہنا تھا کہ رویت ہلال میں گواہی ضروری ہے صرف حساب لگا کر فیصلہ دینا درست نہیں۔ انھوں نے ایک اور عمدہ بات کہی کہ چاند نظر آنے پر اختلاف کے مسئلے کے متعلق مخالف فریق کے کلچر، نفسیات اور سیاسی حالات کو بھی سمجھنا ضروری ہے اس سلسلے میں انھوں نے صوبہ پختونخوا کے کلچر کی مثال بھی دی۔ انھوں نے بہت صحیح مشورہ دیا کہ عوام کو بہت زیادہ بحث مباحثے میں نہیں پڑنا چاہیے اس سلسلے میں انھوں نے ایک حدیث کا مفہوم بھی بیان کیا کہ جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔
مفتی صاحب کا یہ مشورہ قطعی درست ہے، آج کل ہو بھی یہ رہا ہے کہ ٹی وی چینلز پر کسی بھی مسئلے کو سننے دیکھنے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کسی ماہر کی طرح اس مسئلے کو لے کر بحث شروع کر دیتی ہے جس سے معاملات مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔

چاند کے مسئلے پر اختلافات کم یا ختم کرنے کے لیے راقم کی تجویز ہے کہ رویت ہلال ان گروہوں سے رابطہ کرے جو ہر سال چاند دیکھنے سے متعلق اپنا الگ ہی اعلان کر دیتے ہیں۔ ان گروہوں سے رابطہ کرنے کے بعد گفت و شنید سے انھیں اس بات پر قائل کیا جائے کہ ان کا کوئی ایک نمایندہ رویت ہلال کمیٹی سے رابطے میں رہے اور چاند سے متعلق شہادتیں میڈیا اور عوام کو نہ دے بلکہ رویت ہلال کمیٹی کو دے اور پھر رویت ہلال کمیٹی اس کو پرکھ کر اعلان کرے۔ ان نمایندوں کے علاوہ کسی بھی گروپ کے کسی بھی شخص کو انفرادی یا اجتماعی طور پر چاند سے متعلق اعلان کرنے کی اجازت نہ ہو۔
راقم کے خیال میں اس طرح اعلان کے متعلق ایک نظم و ضبط ضرور پیدا ہو سکتا ہے اور ملک میں ایک سے زائد عیدیں منانے کے امکانات کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک اور نقطہ نظر علمی معلومات اور شعور و آگہی کے لیے پیش کر دوں۔
راقم کے ایک ریسرچ اسکالر دوست کا کہنا ہے کہ چاند کے معاملے پر ہم اصول سے دور ہٹ گئے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ رمضان اور عید دینی تہوار ہیں اور اس کے لیے تمام طریقہ کار بھی سنت کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ دین اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے اس لیے چاند کو آنکھ سے دیکھنے کا اصول بھی قیامت تک کے لیے ہے۔ ہم اپنے دنیا کے معاملات کو بھی دین کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر دن کو کیوں سائنٹیفک میتھڈ پر لائیں؟ جب کہ ہم سائنٹیفک میتھڈ پر اپنی پوری زندگی نہیں گزارتے مثلاً سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سب کو پتہ ہیں مگر بعض ڈاکٹر بھی سگریٹ پیتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح پلاسٹک کے برتن اور بوتلیں بھی استعمال کی جاتی ہیں یہاں ہم سائنٹیفک اصول کے تحت اس کو ختم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے ان دوست کا یہ بھی موقف ہے کہ پاکستان میں آج ہم ڈی سینٹرلائز کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
وفاق سے صوبوں کو اختیارات دینے اور صوبے کے سربراہ سے سٹی ناظم کو اختیار دینے کی باتیں کرتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں چاند کے فیصلے کو سینٹرلائز کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، جب نماز اور روزے رکھنے اور افطار کرنے کے اوقات تمام صوبوں میں الگ الگ ہیں تو عید الگ ہو جانے کے مسئلے پر اس قدر واویلا کیوں؟ اسلام میں گواہی کی اہمیت مسلمہ ہے جب قاضی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف فیصلہ دے سکتا ہے تو چاند کے مسئلے پر گواہی کو اس قدر متنازعہ کیوں بنایا جائے؟ کیا اسلامی تاریخ میں مکہ اور مدینہ میں ایک ساتھ عید منانے کی کوششیں کی گئیں؟
مندرجہ بالا موقف اپنی جگہ وزن رکھتا ہے۔ یہاں پھر عرض کر دوں کے کالم لکھنے کا مقصد فیصلہ دینا نہیں بلکہ غور و فکر کے مثبت دریچے کھولنا ہے، آئیے غور کریں! کس طرح ہم ہٹ دھرمی، ضد اور انا کو ختم کرکے خالصتاً میرٹ پر رائے قائم کر سکتے ہیں تاہم دینی معاملے میں عالم دین ہی کا فیصلہ حتمی تصور کرنا چاہیے۔

http://www.express.pk/story/267407/
 

Temojin

Minister (2k+ posts)

پابندی کریں تو قوم ان کے نیک عمل کی اجتماعی برکت سے مستفید ہو گی۔ لیکن اپنے اقتدار کو ایسے سہارے نہ دیں جو ان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ حکمران اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور عامۃالمسلمین کو ان مسئلوں میں نہ الجھائیں۔ میرا ایک نواسہ کل ہی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ بابا مجھ پر روزے کب فرض ہوں گے۔ ایک بڑی ہی مشکل اور صبر آزما عبادت کا یہ شوق نوجوانوں میں باقی رہنے دیں۔

http://www.express.pk/story/367217/

نہیں رہ سکے نہ علامہ صاب، میں نے ٹرانسسٹر نہیں ٹرانسمیٹر لکھا تھا. سیدھی سی بات کی تھی جب نظر آ ہی نہیں سکتا تھا تو بحث کا فائدہ نہیں. باقی لگتا واقعی یہی ہے جب آپ آسٹریلیا یا امریکا جیئے تو آپ نے ادھر لوگوں کو مارنا ضرور ہے کہ وقت آگے پیچھے نہیں ہو سکتا، سائنس جھوٹی ہے کیونکہ سائنس دان جب کہتے ہیں کہ چاند نظر نہیں آ سکتا تو جھوٹ کہتے ہیں جناب پوپلزئی کے بیکراں علم کے مطابق تو اسی رو سے سورج والی بات بھی جھوٹی ہے. مہربانی کیجئے ابّ جواب نہ دیجئے گا. ہر بات کی ایک بات، نظر آ ہی نہیں سکتا تھا
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
نہیں رہ سکے نہ علامہ صاب، میں نے ٹرانسسٹر نہیں ٹرانسمیٹر لکھا تھا. سیدھی سی بات کی تھی جب نظر آ ہی نہیں سکتا تھا تو بحث کا فائدہ نہیں. باقی لگتا واقعی یہی ہے جب آپ آسٹریلیا یا امریکا جیئے تو آپ نے ادھر لوگوں کو مارنا ضرور ہے کہ وقت آگے پیچھے نہیں ہو سکتا، سائنس جھوٹی ہے کیونکہ سائنس دان جب کہتے ہیں کہ چاند نظر نہیں آ سکتا تو جھوٹ کہتے ہیں جناب پوپلزئی کے بیکراں علم کے مطابق تو اسی رو سے سورج والی بات بھی جھوٹی ہے. مہربانی کیجئے ابّ جواب نہ دیجئے گا. ہر بات کی ایک بات، نظر آ ہی نہیں سکتا تھا

معاف کرنا بھائی۔ میں آپ کی بات سمجھ ہی نہیں سکا۔ براہ کرم نشے کی حالت میں کوئی تحریر نہ لکھیں۔ پڑھنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے،۔
 

Irobot

Senator (1k+ posts)
نہیں رہ سکے نہ علامہ صاب، میں نے ٹرانسسٹر نہیں ٹرانسمیٹر لکھا تھا. سیدھی سی بات کی تھی جب نظر آ ہی نہیں سکتا تھا تو بحث کا فائدہ نہیں. باقی لگتا واقعی یہی ہے جب آپ آسٹریلیا یا امریکا جیئے تو آپ نے ادھر لوگوں کو مارنا ضرور ہے کہ وقت آگے پیچھے نہیں ہو سکتا، سائنس جھوٹی ہے کیونکہ سائنس دان جب کہتے ہیں کہ چاند نظر نہیں آ سکتا تو جھوٹ کہتے ہیں جناب پوپلزئی کے بیکراں علم کے مطابق تو اسی رو سے سورج والی بات بھی جھوٹی ہے. مہربانی کیجئے ابّ جواب نہ دیجئے گا. ہر بات کی ایک بات، نظر آ ہی نہیں سکتا تھا


App sa aik sawal
kia puri ummat ka aik din rooza aur aik hi din eid honi chaya k nahi
chay chand ki shadhat saudia sa aya, iran sa, ya europe sa.
 

Beatle

MPA (400+ posts)
محترم پوپٹ صاب کو اگلی عید پر سعودیہ عرب بھیج دیں ، اور کہیں کہ حکومت کے اعلان سے انخراف کر کے دکھائيں ۔ بے چارہ زید حامد اکیلا جیل میں سڑ رہا ہے ، اسے بھی ٹائم گزارنے کو ایک ساتھی مل جائے گا ۔
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
App sa aik sawal
kia puri ummat ka aik din rooza aur aik hi din eid honi chaya k nahi
chay chand ki shadhat saudia sa aya, iran sa, ya europe sa.

دیکھیں جی! رسول اللہ ﷺ کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ تم کہیں جاؤ وہاں روزہ ہو تو روزہ رکھو اور اگر عید ہو تو عید کر لو۔
اس مفہوم کا واضح مطلب ہے کہ اس طرح کی گنجائش موجود ہے۔

اگر مفتی منیب چاہتے ہیں کہ ایک ہی روز عید ہو تو انہیں چاہیے کہ وہ پورے عالم اسلام کے ساتھ عید کا اعلان کریں اور اگر نہیں اور وہ مطلع کے فرق کے ساتھ الگ عید کے قائل ہیں تو پھر انہیں قاسم علی خان پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
محترم پوپٹ صاب کو اگلی عید پر سعودیہ عرب بھیج دیں ، اور کہیں کہ حکومت کے اعلان سے انخراف کر کے دکھائيں ۔ بے چارہ زید حامد اکیلا جیل میں سڑ رہا ہے ، اسے بھی ٹائم گزارنے کو ایک ساتھی مل جائے گا ۔

محترم یہ درست ہے کہ وہاں آپ حکومت سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ لیکن وہاں کی حکومت بھی تو رویت کے فیصلوں میں لوگوں کا احترام کرتی ہے اور کسی بھی غلطی کی صورت میں اپنے فیصلے سے رجوع کرتی ہے۔
 

Irobot

Senator (1k+ posts)

دیکھیں جی! رسول اللہ ﷺ کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ تم کہیں جاؤ وہاں روزہ ہو تو روزہ رکھو اور اگر عید ہو تو عید کر لو۔
اس مفہوم کا واضح مطلب ہے کہ اس طرح کی گنجائش موجود ہے۔

اگر مفتی منیب چاہتے ہیں کہ ایک ہی روز عید ہو تو انہیں چاہیے کہ وہ پورے عالم اسلام کے ساتھ عید کا اعلان کریں اور اگر نہیں اور وہ مطلع کے فرق کے ساتھ الگ عید کے قائل ہیں تو پھر انہیں قاسم علی خان پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔

Hazoor SAWS ki hadith sa ya b mafoom ha aik araabi aya aur app SAWS ko kaha ma na chand dakha.
App SAWS na us sa poocha tum ghawai datay ho ALLAH ka sawa koi mabood nahi aur muhammad SAWS allah ka rasool hain. Us na kaha han.
App SAWS na bilal r.a. ko kahan loogon ko khain kal rooza rakhain.

is ka matalb ya howa agar aik dosray elaqay ka banda chand dakh k ghawi dy day to hum ko b maan pana chaya bajay apna chand dakhnay k.
 

lotaa

Minister (2k+ posts)
yaar Allah ka khoof karo,yahan tu loog court mein jaa kar jhoti qasmeein khaa kr gawahi detay hain,shariyat ne gawahi k liay meyaar rakha hay,us pr utrna pehlay zaroori hy phir gawahi,,,,
Hazoor SAWS ki hadith sa ya b mafoom ha aik araabi aya aur app SAWS ko kaha ma na chand dakha.
App SAWS na us sa poocha tum ghawai datay ho ALLAH ka sawa koi mabood nahi aur muhammad SAWS allah ka rasool hain. Us na kaha han.
App SAWS na bilal r.a. ko kahan loogon ko khain kal rooza rakhain.

is ka matalb ya howa agar aik dosray elaqay ka banda chand dakh k ghawi dy day to hum ko b maan pana chaya bajay apna chand dakhnay k.
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
yaar Allah ka khoof karo,yahan tu loog court mein jaa kar jhoti qasmeein khaa kr gawahi detay hain,shariyat ne gawahi k liay meyaar rakha hay,us pr utrna pehlay zaroori hy phir gawahi,,,,

بھائی شریعت میں شرط یہ ہے کہ گواہی دینے والا بظاہر شرع کا پابند ہو۔نشہ وغیرہ نہ کرتا ہو۔
پھر وہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتاہے اور چاند دیکھنے کا وقت اور پوزیشن بنتاتا ہے۔
ہاں یہ بات ضروری ہے کہ گواہی دینے والے اکیلے اکیلے گواہی دیں گے۔ ایک دوسرےکے سامنے گواہی غیر معتبر ہوتی ہے۔
جب سب لوگوں کی گواہیاں آپس میں ملتی ہیں وقت اور ڈائرکشن کا حساب درست ہو تب جا کر گواہی مانی جاتی ہے۔

ایک اور شرط یہ ہے کہ اگر گواہیاں شریعت کے معیار پر پوری اُتریں تو مفتی یا منصف پر لازم ہے کہ وہ گواہی کو قبول کرے۔

گواہی کو قبول کرنا یا نہ کرنا قاضی کی صوابدید نہیں جیسا کہ مفتی منیب الرحمٰن کہتا ہے۔
 

NonStopLeo

Minister (2k+ posts)
محترم آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے کہ پوپلزئی گھر بیٹھے چاند دیکھتا ہے۔ 29 رمضان کو سارا میڈیا اور پشاور کے عوام کی اکثریت مسجد قاسم علی خان میں ہوتی ہے۔اور عیدین ہا رمضان کا اعلان ایک باقاعدہ پراسس کے بعد کیا جاتا ہے۔
چونکہ رمضان اور شوال کی پہلی تاریخ کا تعلق فرض اور واجب عبادت سے ہے اس لیے ان مہینوں کے چاند کی رویت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
عید الاضحیٰ میں قربانہ کے لیے تین دن ہوتے ہیں اس لیے وہاں بھی ایک دن کی تاخیر سے عبادت میں فرق نہیں پڑتا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مکہ مناسک حج ایک دن ادا ہوتے ہیں اور ہم دوسرے دن مناتے ہیں۔
اسی طرح دیگر دنوں میں فرض عبادات کے متاثر ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا اس لیے ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
چو

کے پی میں ہر مہینے کے چاند کو دیکھنے کی پختہ روایت موجود ہے۔

مسجد قاسم علی خان سے پہلے عید اور رمضان کے چاند کی اطلاع کا فریضہ رجڑ (چارسدہ) کے مسجد ادا کرتا تھا۔ وہاں کے مولٰنا صاحب حق کے اعلان کے بعد پورے خطے میں عید یا رمضان ہو جاتی تھی۔
صاحب حق کے بعد یہ فریضہ مفتی عبد الرحیم پوپلزئی(شہاب الدین کے والد) انجام دینے لگے۔
مسجد قاسم علی خان، بھر رجڑ چارسدہ اور اب پھر قاسم علی خان سے اعلانات کی روایت تقریباً 190 سال پرانی ہے۔ جب کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فراڈ ایوب خان کے زمانے میں شروع ہوا۔
واضح رہے کہ کمیونی کیشن نہ ہونے کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے پہلے پورے پاکستان میں ایک ہی دن عید ہوتی تھی۔ حالانکہ سعودی کے چاند کی خبر بھی دو دب بعد پاکستان پہنچتی تھی۔

پس: مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی بنیاد ایک فراڈ کے نتیجے میں پڑی۔
اس کا کوئی آئین یا قانون یا ایکٹ نہیں اس لیے اسے ختم کیا جائے۔


Ager sub media aur communication waly wahan per mojood hoty hain to jo chand popalzia ko nazar ata hai woh kabhi kisi media ny kiun nahi dikhaya awam ko? sirf khabar hi kiun ati hai,

Aur doosri baat yeh k Hilal Committee mein Sub masalik k ulema mojood hoty hain to kya sub masalik waly ghalat hoty hian, aur sirf aik popalzai hi theek hota hia?

Aur teesri baat yeh k aap k mutabqi Hilal Committee ka koi Qanoon, Ayeen ya act nahi is liye isy khatam hona chaiye, to Popalzai ka kon sa qanoon ayeen aur act hai? kya us fitny ko khatam nahi hona chahiye jis ny riasat k ander apni hi riasat qayem ki hui hia...

Chothi baat yeh k pehly din k chand ki appearance iftari k baad maximum 30 minutes k liye hoti hai, to popalzai ko hameesha chand isha k baat q nazar ata hai? woh is liye k us time Saudia mein nazar ata hai is liye popalzia ko b usi time nazar ata hai?
 
Last edited:

Green Inside

Senator (1k+ posts)
محترم آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے کہ پوپلزئی گھر بیٹھے چاند دیکھتا ہے۔ 29 رمضان کو سارا میڈیا اور پشاور کے عوام کی اکثریت مسجد قاسم علی خان میں ہوتی ہے۔اور عیدین ہا رمضان کا اعلان ایک باقاعدہ پراسس کے بعد کیا جاتا ہے۔
چونکہ رمضان اور شوال کی پہلی تاریخ کا تعلق فرض اور واجب عبادت سے ہے اس لیے ان مہینوں کے چاند کی رویت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
عید الاضحیٰ میں قربانہ کے لیے تین دن ہوتے ہیں اس لیے وہاں بھی ایک دن کی تاخیر سے عبادت میں فرق نہیں پڑتا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مکہ مناسک حج ایک دن ادا ہوتے ہیں اور ہم دوسرے دن مناتے ہیں۔
اسی طرح دیگر دنوں میں فرض عبادات کے متاثر ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا اس لیے ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
چو

کے پی میں ہر مہینے کے چاند کو دیکھنے کی پختہ روایت موجود ہے۔

مسجد قاسم علی خان سے پہلے عید اور رمضان کے چاند کی اطلاع کا فریضہ رجڑ (چارسدہ) کے مسجد ادا کرتا تھا۔ وہاں کے مولٰنا صاحب حق کے اعلان کے بعد پورے خطے میں عید یا رمضان ہو جاتی تھی۔
صاحب حق کے بعد یہ فریضہ مفتی عبد الرحیم پوپلزئی(شہاب الدین کے والد) انجام دینے لگے۔
مسجد قاسم علی خان، بھر رجڑ چارسدہ اور اب پھر قاسم علی خان سے اعلانات کی روایت تقریباً 190 سال پرانی ہے۔ جب کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فراڈ ایوب خان کے زمانے میں شروع ہوا۔
واضح رہے کہ کمیونی کیشن نہ ہونے کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے پہلے پورے پاکستان میں ایک ہی دن عید ہوتی تھی۔ حالانکہ سعودی کے چاند کی خبر بھی دو دب بعد پاکستان پہنچتی تھی۔

پس: مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی بنیاد ایک فراڈ کے نتیجے میں پڑی۔
اس کا کوئی آئین یا قانون یا ایکٹ نہیں اس لیے اسے ختم کیا جائے۔
کفار بھی نبی کریم کو یہی کہتے تھے ک ہم سو ، دو سو سال سے اپنی بچیوں کو زندا دفن کر رہے ہیں ، بتوں کی پوجا کر رہے ہیں ، ہمیں مت چھیڑو۔۔ پوپلزئی کو مسجد پر تو آئین کی پوری کتاب لکھی جا چکی ہے نا اس لیے وہ حلال ہے ۔
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
کفار بھی نبی کریم کو یہی کہتے تھے ک ہم سو ، دو سو سال سے اپنی بچیوں کو زندا دفن کر رہے ہیں ، بتوں کی پوجا کر رہے ہیں ، ہمیں مت چھیڑو۔۔ پوپلزئی کو مسجد پر تو آئین کی پوری کتاب لکھی جا چکی ہے نا اس لیے وہ حلال ہے ۔

چلیں آپ یہ بتا دیں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کیوں بنائی گئی تھی؟
 

Back
Top