ایک تو یہ بڑی مصیبت ہے۔ یقیناً ایک افسوس ناک خبر ہے کہ عبیداللہ بیگ صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی اخری منازل کو آسان فرمائے مگر اظہار افسوس کے لیے کیا ایم کیو ایم کی ضرورت ہے جن کے نزدیک انسان اور مکھی میں فرق نہیں ہے۔ اب تو مکھیاں اتنی تعداد میں مرتیں جتنی تعداد میں انسان سڑکوں پر مارے جاتے ہیں۔
جتنا مرضی ہاتھ دھونے کی کوشش کرلیں یہ ایم کیو ایم والے مگر خون ان کے منہ کو لگ چکا ہے۔
کراچی میں کوئی چڑیا ان کی اجازت کے بغیر نہیں اڑ سکتی
آپ کو یاد ہوگا، بھارت کی جیل سے رہا ہونے والے ڈاکٹر چشتی جب اپنے گھر کراچی پہنچے کو وہاں ان لوگوں نے قبضہ کر رکھا تھا
میڈیا پر ظاہر یہ کیا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق ان کی جماعت سے ہیں اور ان کی رہائی میں بھی ان ہی کی کوششیں تھیں
حقیقت میں سارے شہر کو یرغمال بنایا ہوا ہے
مجال ہے آپ ان سے اختلاف کر سکیں
آپ یقیناً ٹھیک فرما رہے ہیں مگر ان تمام باتوں کے علاوہ میرے جیسا منطقی انسان تو یہی سوچے گا نہ کہ حکومت میں موجود ہوتے ہوئے اگر یہ قاتلوں کو نہیں پکڑ سکتے تو ان کو اپنا استعفا دے کر قوم کی جان چھوڑ دینی چاہیے تاکہ وہ حکومت آئے جو ان قاتلوں کو پکڑ سکے۔ یا دوسری صورت میں یہ حکومت کر ہی اسی لیے رہے ہیں کہ یہ قتل و غارت کا بازار گرم کردیں۔ پتہ نہیں کیا سمجھا ہوا ہے انہوں نے کہ جیسے عوام کو پتہ نہیں ہے یا سب کے سب بیوقوف ہیں جو ان کی باتوں بڑے دھیان سے سنتے ہیں۔
میں تو بھول ہی گیا۔ دھیان سے ہی تو سنتے ہیں لوگ جب لنڈن سے اس سانڈ کا فون آجاتا ہے۔ اور سارے کے سارے مکھیوں کی طرح جمع ہوجاتے ہیں۔ اگر اس سانڈ کو ہی لیڈر ماننا ہے تو کاہے کا رونا پیٹنا۔ اسی طرح مرتے رہیں۔
کیسی باتیں کرتے ہیں آپ - کیا کبھی نے اپنا جرم تسلیم کیا ہے
بے وقوف تو نہیں ہیں، کراچی کے لوگ پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں
مگر کیا کریں، ہر انسان کو اپنی عزت اور جان عزیز ہوتی ہے
کس میں ہمت ہے مخالفت کرکے بوری کے کاروبار کو فروغ دے
دھیان سے کون سنتا ہے ، یہ تو طاقت کے زور پر ڈرے سہمے اذیت برداش کر رہے ہوتے ہیں