carne
Chief Minister (5k+ posts)
غزوہ اُحد مسلمانوں کی جیتی ہوئ جنگ تھی۔ لیکن باوجود اس کے کہ آنحضرت (ص) کی واضح تاکید تھی کہ نظر اپنی منزل پر رکھنی ہے، مسلمانوں کی توجہ مالِ غنیمت پر مبذول ہونے نے انہیں شکست کی دہلیز پر پہنچا دیا تھا۔ پیغمبرِ خدا میدان جنگ میں تھا، اللہ کی قدرت میں تھا کہ اُس کی فوج کہ جو صحابہ (رض) پر مشتمل تھی اُن کی غفلت کو نظرانداز کردیتا لیکن اللہ نے اُن کی زندگیوں کو رہتی دنیا کے لیے مثال بنانا تھا اور سو انہیں اپنی اس غفلت کا نقصان بھی اٹھانا پڑا، ہم کیا نعوذباللہ اُن سے معتبر ہیں جو ہماری غفلتیں بنا خمیازے کے درگزر ہونگی؟
سالوں پہلے جب ہم سے کافی عمر اور تجربے والے اونچے قد کھاٹ کے لوگ فیصلہ سازی کی محفلوں میں بیٹھے ہوتے تو عمران خان ہماری حوصلہ افزائی کرتے کہ ہم اپنا مؤقف بیان کریں اور ہمیں موقع دیتے کہ ہم ایک دوسرے کو قائل کریں۔ پارٹی میٹنگز میں گرما گرم بحثیں ہوتیں، مونہوں سے جھاگ نکلنے لگتی، آنکھیں ابل پڑتیں، یوں لگتا تھا سامنے والا ابھی دوسرے پر جھپٹ پڑے گا۔ خدا گواہ ہے کہ یہ نوبت کئی کئی بار آئی۔ اور یہی جمہوریت ہے۔ یہ تحریکِ انصاف کا ہی خاصا رہا ہے کہ ہر شخص اپنا مؤقف کھل کر بیان کرتا ہے، جوش سے بیان کرتا ہے اُس پر ڈٹا رہتا ہے، اُس کے لیے لڑتا ہے۔ مگر ہمیشہ اُس مرحلے سے گزرنے کے بعد ایک بار جب فیصلہ ہوجاتا تو اُس پر ایک ٹیم کیطرح عملدرآمد ہوتا۔ کئی بار درونِ خانہ ہم جن فیصلوں سے اختلاف رکھتے تھے باہر آکر اُن کا دفاع کیا کیونکہ وہ تمام تر بحث مباحثے کے بعد سب کا مؤقف سننے کے بعد اکثریت کا اور مشاورت سے منظور کیا فیصلہ ہوتا تھا۔ ڈسپلن اسی کو کہتے ہیں۔
اندر خانے ہونے والا بحث مباحثہ، اختلاف شازو نادر ہی آپ کو “میرے ذاتی رائے کے مطابق” کے لبادے میں میڈیا پر سننے کو ملتا۔ اور جو اشخاص “میری ذاتی رائے” کے خبط میں مبتلا دکھتیں ان کے بارے میں خان صاحب کی رائے بھی بہت واضح تھی۔ ان کا ہمیشہ سے ہی موقف ہے کہ میں بڑے پلئیر پر ٹیم پلئیر کو ترجیح دونگا۔ کرکٹ کے زمانے سے وہ اِس بات کے قائل تھے کہ بہت بڑے قابل کھلاڑی بھی اپنی ٹیم کے لیے ضائع ہوتے ہیں کہ جب وہ ذات کے لیے کھیلتے ہیں، جن کی پرواز اپنے آپ تک محدود ہوجاتی ہے۔ جب آپ کے سامنے مقصد بڑا ہوتا ہے تو آپ “میں” کو تیاگ دیتے ہیں، ٹیم بن کر کھیلتے ہیں۔
آپ کی خصوصیات، ایک کا اچھا بولنا، دوسرے کی معاملہ فہمی، تیسرے کا کراؤڈ پُلر ہونا آپ کے مقصد کے لیے تب ہی فائدہ مند ہے اگر آپ مل کر کھیلیں۔ ایک دوسرے کی خامیوں اور کمیوں کو نہیں ایک دوسرے کی strengths کو اجاگر کریں۔ ہمیں بحیثیت کارکن یہ سمجھنے کے ضرورت ہے کہ ہم اِس وقت افراد نہیں اس قوم کی امید ہیں۔ ہم جیتے ہوئے معرکوں میں مالِ غنیمت کی تقسیم پر دست و گریباں ہوکر اُس جنگ کو ہارنے کا سبب نہیں بن سکتے جس جنگ میں ارشد شریف اور ظلِ شاہ جیسے لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ جس جنگ میں عمران خان اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اترا ہے۔ جو جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ اُس کی آزادی اور حمیت کی جنگ ہے۔
میرا اپنے پارٹی لیڈران کو بھی برادرانہ مشورہ ہے کہ گذشتہ دو سال کے حالات اور واقعات سے سبق حاصل کریں۔ بہت بڑے بڑے نام تھے کسی نے عمران خان کی حکومت بنائی تھی۔ کسی نے چلائی تھی۔ کوئی خود کو اُس کا سیاسی گرو سمجھتا تھا، تو کوئی اُس کی کامیابی کا ضامن تھا۔ آج کہاں ہیں وہ؟ آپ اپنے تئیں بہت بھی بڑے لیڈر ہوں، مجھ سمیت ہر شخص یہاں relevant تب تک ہے جب تک وہ عمران خان کے نظریے پر کاربند ہے۔ ہمارا مقصد عمران خان، بشری بی بی اور اپنے کارکنان کی رہائی اور اپنے مینڈیٹ کی واپسی ہے۔ ہمارے لیے ہر وہ آواز معتبر ہے جو ہمارے مقصد سے مطابقت رکھتی ہے۔
ہر جنگ میں مالِ غنیمت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ہماری جنگ میں اس وقت مال غنیمت کے طور پر عزت، شہرت اور عہدے پھیلے پڑے ہیں۔ فیصلہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم نے وقتی فائدے سمیٹنے ہیں یا بروقت سبق حاصل کرکے اپنی جنگ انجام کو پہنچانی ہے
سالوں پہلے جب ہم سے کافی عمر اور تجربے والے اونچے قد کھاٹ کے لوگ فیصلہ سازی کی محفلوں میں بیٹھے ہوتے تو عمران خان ہماری حوصلہ افزائی کرتے کہ ہم اپنا مؤقف بیان کریں اور ہمیں موقع دیتے کہ ہم ایک دوسرے کو قائل کریں۔ پارٹی میٹنگز میں گرما گرم بحثیں ہوتیں، مونہوں سے جھاگ نکلنے لگتی، آنکھیں ابل پڑتیں، یوں لگتا تھا سامنے والا ابھی دوسرے پر جھپٹ پڑے گا۔ خدا گواہ ہے کہ یہ نوبت کئی کئی بار آئی۔ اور یہی جمہوریت ہے۔ یہ تحریکِ انصاف کا ہی خاصا رہا ہے کہ ہر شخص اپنا مؤقف کھل کر بیان کرتا ہے، جوش سے بیان کرتا ہے اُس پر ڈٹا رہتا ہے، اُس کے لیے لڑتا ہے۔ مگر ہمیشہ اُس مرحلے سے گزرنے کے بعد ایک بار جب فیصلہ ہوجاتا تو اُس پر ایک ٹیم کیطرح عملدرآمد ہوتا۔ کئی بار درونِ خانہ ہم جن فیصلوں سے اختلاف رکھتے تھے باہر آکر اُن کا دفاع کیا کیونکہ وہ تمام تر بحث مباحثے کے بعد سب کا مؤقف سننے کے بعد اکثریت کا اور مشاورت سے منظور کیا فیصلہ ہوتا تھا۔ ڈسپلن اسی کو کہتے ہیں۔
اندر خانے ہونے والا بحث مباحثہ، اختلاف شازو نادر ہی آپ کو “میرے ذاتی رائے کے مطابق” کے لبادے میں میڈیا پر سننے کو ملتا۔ اور جو اشخاص “میری ذاتی رائے” کے خبط میں مبتلا دکھتیں ان کے بارے میں خان صاحب کی رائے بھی بہت واضح تھی۔ ان کا ہمیشہ سے ہی موقف ہے کہ میں بڑے پلئیر پر ٹیم پلئیر کو ترجیح دونگا۔ کرکٹ کے زمانے سے وہ اِس بات کے قائل تھے کہ بہت بڑے قابل کھلاڑی بھی اپنی ٹیم کے لیے ضائع ہوتے ہیں کہ جب وہ ذات کے لیے کھیلتے ہیں، جن کی پرواز اپنے آپ تک محدود ہوجاتی ہے۔ جب آپ کے سامنے مقصد بڑا ہوتا ہے تو آپ “میں” کو تیاگ دیتے ہیں، ٹیم بن کر کھیلتے ہیں۔
آپ کی خصوصیات، ایک کا اچھا بولنا، دوسرے کی معاملہ فہمی، تیسرے کا کراؤڈ پُلر ہونا آپ کے مقصد کے لیے تب ہی فائدہ مند ہے اگر آپ مل کر کھیلیں۔ ایک دوسرے کی خامیوں اور کمیوں کو نہیں ایک دوسرے کی strengths کو اجاگر کریں۔ ہمیں بحیثیت کارکن یہ سمجھنے کے ضرورت ہے کہ ہم اِس وقت افراد نہیں اس قوم کی امید ہیں۔ ہم جیتے ہوئے معرکوں میں مالِ غنیمت کی تقسیم پر دست و گریباں ہوکر اُس جنگ کو ہارنے کا سبب نہیں بن سکتے جس جنگ میں ارشد شریف اور ظلِ شاہ جیسے لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ جس جنگ میں عمران خان اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اترا ہے۔ جو جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ اُس کی آزادی اور حمیت کی جنگ ہے۔
میرا اپنے پارٹی لیڈران کو بھی برادرانہ مشورہ ہے کہ گذشتہ دو سال کے حالات اور واقعات سے سبق حاصل کریں۔ بہت بڑے بڑے نام تھے کسی نے عمران خان کی حکومت بنائی تھی۔ کسی نے چلائی تھی۔ کوئی خود کو اُس کا سیاسی گرو سمجھتا تھا، تو کوئی اُس کی کامیابی کا ضامن تھا۔ آج کہاں ہیں وہ؟ آپ اپنے تئیں بہت بھی بڑے لیڈر ہوں، مجھ سمیت ہر شخص یہاں relevant تب تک ہے جب تک وہ عمران خان کے نظریے پر کاربند ہے۔ ہمارا مقصد عمران خان، بشری بی بی اور اپنے کارکنان کی رہائی اور اپنے مینڈیٹ کی واپسی ہے۔ ہمارے لیے ہر وہ آواز معتبر ہے جو ہمارے مقصد سے مطابقت رکھتی ہے۔
ہر جنگ میں مالِ غنیمت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ہماری جنگ میں اس وقت مال غنیمت کے طور پر عزت، شہرت اور عہدے پھیلے پڑے ہیں۔ فیصلہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم نے وقتی فائدے سمیٹنے ہیں یا بروقت سبق حاصل کرکے اپنی جنگ انجام کو پہنچانی ہے
https://twitter.com/x/status/1764693935077683422