PappuChikna
Chief Minister (5k+ posts)
Dont believe everything you read on internet and desi social media.
Most things said about PIA so far are plain wrong.
پی آئی اے کے بارے میں پانچ غلط فہمیاں
پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں مگر ایسی کیا پانچ باتیں ہیں جنہیں عموماً پی آئی اے سے غلط منسوب کیا جاتا ہے؟
1: پی آئی اے کے عمر رسیدہ طیارے؟
اس وقت پی آئی کے بیڑے میں شامل طیاروں کی تعداد اور ماضی میں رہنے والے طیاروں کے بارے میں معلومات۔ اس وقت پی آئی اے کے پاس 38 طیارے ہیں۔پی آئی اے کے بوڑھے فلیٹ کے بارے میں بات تو ہر اس شخص کی منہ سے سنی ہے جس سے اس کمپنی کے بارے میں بات ہوئی مگر آپ حیران ہوں گے یہ بات بالکل غلط ہے۔
پی آئی اے کے پاس تقریباً ہمیشہ سے ہی اکثر جدید اور تکنیکی لحاظ سے بہترین طیارے رہے ہیں۔
پی آئی اے کے ٹرپل سیون طیاروں کی عمر اور پی آئی اے کو ملنے کی تاریخ جن میں سے بعض اس سے قبل دوسری فضائی کمپنیوں کے زیرِ استعمال رہ چکے ہیں۔پی آئی اے کے بیڑے میں لانگ ہال یا دور کی مسافت کی پروازوں کے لیے بوئنگ کے جدید 777 اور ایئر بس کے قدرے پرانے اے 310 طیارے ہیں۔
پی آئی اے کے ٹرپل سیون طیاروں کا ڈیٹاپی آئی اے کے پاس چھ اے 310 طیارے ہیں جن کی عمریں 22 سال سے 24 سال کے درمیان ہیں اور یہ اس وقت ایئرلائن کے زیرِاستعمال سب سے پرانے طیارے ہیں جو ملک کے اندر اور مشرق بعید کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
بوئنگ 777 طیاروں کی عمر 10 سے 12 سال کے درمیان ہے جس کی ایک قسم لانگ رینج کا سب سے پہلا طیارہ پی آئی اے نے حاصل کیا تھا۔ اس سے قبل پی آئی اے بوئنگ کے 747 طیارے استعمال کرتی تھی جنھیں موجود حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔
درمیانی سے مختصر فاصلے کی پروازوں کے لیے پی آئی اے ان دنوں صرف ایئر بس کے اے 320 طیارے استعمال کرتی ہے۔ اس سے قبل پی آئی اے بوئنگ 300-737 طیارے استعمال کرتی تھی جنھیں موجودہ حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ پی آئی اے اے ٹی آر کے 42 اور 72 طیارے مختصر دورانیے کی پروازوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔
2: پی آئی اے کے طیاروں پر یورپ میں پابندی
پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے جو کم ایندھن اور مختصر فاصلے کی پروازوں کے لیے انتہائی موزوں اور کامیاب طیارے ہیں۔پی آئی اے کے تمام طیارے دنیا میں کہیں بھی پرواز کر سکتے ہیں اور یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔
ان باتوں کی بنیاد میں پی آئی اے کے نو طیاروں کے علاوہ باقی طیاروں پر 2007 میں لگنے والی پابندی ہے تاہم جن طیاروں پر 2007 میں پابندی عائد کی گئی تھی وہ اب ریٹائر کیے جا چکے ہیں۔
2014 میں پی آئی اے کے طیاروں پر یورپی یونین کے ممالک میں کارگو لیجانے کے حوالے سے جو پابندی عائد کی گئی تھی وہ بھی اٹھائی جا چکی ہے۔
3: پی آئی اے کے فی طیارہ ملازمین
پی آئی اے کا اے تھری ٹین طیارہ جس کے ساتھ کے چھ طیارے پی آئی اے استعمال کر رہی ہے جو اس وقت سب سے عمر رسیدہ طیارے ہیںپی آئی اے کے بارے میں یہ بات ہر ایک کرتا ہے اور وزرا سے لے کر عام آدمی تک اس حوالے سے جو غلطی کرتا ہے وہ گوگل کی مدد سے اعدادوشمار تیار کرنے کی ہے۔
اس میں سب سے بنیادی بات طیاروں کی تعداد ہے جو اس حکومت کے دور میں تیزی سے بڑھی ہے جس کی وجہ سے فی طیارہ ملازمین کی تعداد مختلف ہے۔
پی آئی اے کے مطابق اس وقت فضائی کمپنی کے پاس 14771 ملازمین ہیں اور یہ تعداد فی طیارہ 388 ملازم بنتی ہے۔
اس وقت پی آئی اے کے پاس 38 طیارے ہیں جن میں آنے والے چند ہفتوں میں مزید اضافہ ہو گا جس سے یہ تعداد مزید کم ہو جائے گی۔
دنیا میں ملازمین کی فی طیارہ اچھی شرح سو سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے مگر اس کا انحصار کمپنی کی پروازوں اور اس کے براہِ راست اور ذیلی کمپنیوں کے ملازمین کی تعداد اور ملازمین پر خرچ کی جانے والی رقم پر ہوتا ہے جسے عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔
4: پی آئی اے کا بوجھ
پی آئی اے قدیم بوئنگ 300-737 طیاروں کو ریٹائر کر کے موجودہ حکومت نے یورپی طیارہ ساز ایئربس کے A320 طیارہ لیز پر حاصل کیے۔پی آئی اے اپنے 38 طیاروں کی مدد سے روزانہ 120 کے قریب پروازیں چلاتی ہے جو طویل فاصلے سے درمیانے فاصلے کی پروازوں کے ساتھ ایک بہتر رجحان ہے۔
پی آئی اے کے پاس دنیا کے بہترین ہوائی اڈوں پر بہترین لینڈنگ رائٹس کی سہولت ہے۔
اگر پی آئی اے کے پاس اسی طرح کے بہتر طیارے ہوں اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو وہ سب مسافر جنھیں غیر ملکی فضائی کمپنیاں سہولت فراہم کر رہی ہیں پی آئی اے بھی انھیں سفری سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔
پی آئی اے کی سب سے زیادہ پروازیں مشرقِ وسطیٰ خصوصاً دبئی اور پاکستان کے درمیان ہیں جن میں پی آئی اے دو پاکستانی اور درجن بھر مشرق وسطیٰ کی فضائی کمپنیوں سے مقابلہ کرتی ہے۔
جہاں پی آئی اے کے طیاروں اور اس کی وجہ سے پروازوں کی تعداد ماضی میں کم ہوتی گئی وہیں غیر ملکی کمپنیوں کو دھڑا دھڑ پاکستان میں تھوک کے حساب سے لینڈنگ رائٹس دیے گئے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے تعلق رکھنے والی فضائی کمپنیاں اس وقت پاکستان میں کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد، اسلام آباد سیالکوٹ اور پشاور سے پروازیں چلا رہی ہیں۔
ایمریٹس اور قطر جیسی فضائی کمپنیاں اسلام آباد، کراچی، لاہور حتیٰ کہ سیالکوٹ جیسے شہروں کے لیے بوئنگ 777 یا ایئر بس اے 330 جیسے طیارے چلاتی ہیں اور پی آئی اے کا انحصار ان روٹس کے لیے چھوٹے ایئر بس اے 320 طیاروں پر ہے۔
2005 میں بیرونی فضائی کمپنیاں ایک ہفتے میں پاکستان کے لیے سو کے قریب پروازیں چلاتی تھیں اب یہ تعداد 400 کے لگ بھگ ہے۔
مختصر یہ کہ آج جو مسافر فلائی دبئی، فلائی ناس، ایئر عریبیا یا اومان ایئر پر سفر کرتے ہیں وہ پی آئی اے یا پاکستانی فضائی کمپنیوں پر بھی کر سکتے ہیں مگر یہ بات بہت کم کی جاتی ہے کہ مسافروں کی مد میں ہونے والے سارے نقصان کا سارا فائدہ برادر خلیجی ممالک کی فضائی کمپنیوں کو ہوا ہے۔
5: روزویلٹ ہوٹل
روزویلٹ ہوٹل کو 2007 میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا مگر اب بھی بہت سی للچائی نظریں اس ہوٹل پر لگی ہیں۔پی آئی اے کو ایک بیمار کمپنی قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن یہ ادارہ امریکی شہر نیویارک کے مرکزی گرینڈ سینٹرل سٹیشن کے قریب ایک ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے روزویلٹ ہوٹل سمیت دنیا کے اہم شہروں میں متعدد ہوٹلوں کا مالک ہے۔
روزویلٹ ہوٹل 1979 میں پی آئی اے کی ذیلی کمپنی پی آئی اے انوسیٹمنٹس نے خریدا تھا جس میں ابتدائی طور پر سعودی شہزادے فیصل نے سرمایہ کاری کی تھی۔
پی آئی اے نے بعد میں اس ہوٹل کے 99 فیصد حصص خرید لیے تھے۔
جہاں پی آئی اے میں خسارے کا دور دورہ ہے یہ ان چند منافع بخش سرمایہ کاریوں میں سے ہے جن سے پی آئی اے منافع کماتی ہے۔
پی آئی اے نے اس کے علاوہ 1979 میں لیز پر حاصل کیا جانے والا پیرس کا سکرائب ہوٹل بھی سنہ 2002 میں خرید لیا تھا۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/05/160526_5_things_about_pia_tim
and here is the PIA chairman statement who has been misquoted on media. He did not say there was any technical difficulties in the plane before the flight. Plane was A-ok before the flight.
Most things said about PIA so far are plain wrong.
پی آئی اے کے بارے میں پانچ غلط فہمیاں

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں مگر ایسی کیا پانچ باتیں ہیں جنہیں عموماً پی آئی اے سے غلط منسوب کیا جاتا ہے؟
1: پی آئی اے کے عمر رسیدہ طیارے؟

اس وقت پی آئی کے بیڑے میں شامل طیاروں کی تعداد اور ماضی میں رہنے والے طیاروں کے بارے میں معلومات۔ اس وقت پی آئی اے کے پاس 38 طیارے ہیں۔پی آئی اے کے بوڑھے فلیٹ کے بارے میں بات تو ہر اس شخص کی منہ سے سنی ہے جس سے اس کمپنی کے بارے میں بات ہوئی مگر آپ حیران ہوں گے یہ بات بالکل غلط ہے۔
پی آئی اے کے پاس تقریباً ہمیشہ سے ہی اکثر جدید اور تکنیکی لحاظ سے بہترین طیارے رہے ہیں۔

پی آئی اے کے ٹرپل سیون طیاروں کی عمر اور پی آئی اے کو ملنے کی تاریخ جن میں سے بعض اس سے قبل دوسری فضائی کمپنیوں کے زیرِ استعمال رہ چکے ہیں۔پی آئی اے کے بیڑے میں لانگ ہال یا دور کی مسافت کی پروازوں کے لیے بوئنگ کے جدید 777 اور ایئر بس کے قدرے پرانے اے 310 طیارے ہیں۔

پی آئی اے کے ٹرپل سیون طیاروں کا ڈیٹاپی آئی اے کے پاس چھ اے 310 طیارے ہیں جن کی عمریں 22 سال سے 24 سال کے درمیان ہیں اور یہ اس وقت ایئرلائن کے زیرِاستعمال سب سے پرانے طیارے ہیں جو ملک کے اندر اور مشرق بعید کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
بوئنگ 777 طیاروں کی عمر 10 سے 12 سال کے درمیان ہے جس کی ایک قسم لانگ رینج کا سب سے پہلا طیارہ پی آئی اے نے حاصل کیا تھا۔ اس سے قبل پی آئی اے بوئنگ کے 747 طیارے استعمال کرتی تھی جنھیں موجود حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔

درمیانی سے مختصر فاصلے کی پروازوں کے لیے پی آئی اے ان دنوں صرف ایئر بس کے اے 320 طیارے استعمال کرتی ہے۔ اس سے قبل پی آئی اے بوئنگ 300-737 طیارے استعمال کرتی تھی جنھیں موجودہ حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ پی آئی اے اے ٹی آر کے 42 اور 72 طیارے مختصر دورانیے کی پروازوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔
2: پی آئی اے کے طیاروں پر یورپ میں پابندی

پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے جو کم ایندھن اور مختصر فاصلے کی پروازوں کے لیے انتہائی موزوں اور کامیاب طیارے ہیں۔پی آئی اے کے تمام طیارے دنیا میں کہیں بھی پرواز کر سکتے ہیں اور یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔
ان باتوں کی بنیاد میں پی آئی اے کے نو طیاروں کے علاوہ باقی طیاروں پر 2007 میں لگنے والی پابندی ہے تاہم جن طیاروں پر 2007 میں پابندی عائد کی گئی تھی وہ اب ریٹائر کیے جا چکے ہیں۔
2014 میں پی آئی اے کے طیاروں پر یورپی یونین کے ممالک میں کارگو لیجانے کے حوالے سے جو پابندی عائد کی گئی تھی وہ بھی اٹھائی جا چکی ہے۔
3: پی آئی اے کے فی طیارہ ملازمین

پی آئی اے کا اے تھری ٹین طیارہ جس کے ساتھ کے چھ طیارے پی آئی اے استعمال کر رہی ہے جو اس وقت سب سے عمر رسیدہ طیارے ہیںپی آئی اے کے بارے میں یہ بات ہر ایک کرتا ہے اور وزرا سے لے کر عام آدمی تک اس حوالے سے جو غلطی کرتا ہے وہ گوگل کی مدد سے اعدادوشمار تیار کرنے کی ہے۔
اس میں سب سے بنیادی بات طیاروں کی تعداد ہے جو اس حکومت کے دور میں تیزی سے بڑھی ہے جس کی وجہ سے فی طیارہ ملازمین کی تعداد مختلف ہے۔
پی آئی اے کے مطابق اس وقت فضائی کمپنی کے پاس 14771 ملازمین ہیں اور یہ تعداد فی طیارہ 388 ملازم بنتی ہے۔
اس وقت پی آئی اے کے پاس 38 طیارے ہیں جن میں آنے والے چند ہفتوں میں مزید اضافہ ہو گا جس سے یہ تعداد مزید کم ہو جائے گی۔
دنیا میں ملازمین کی فی طیارہ اچھی شرح سو سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے مگر اس کا انحصار کمپنی کی پروازوں اور اس کے براہِ راست اور ذیلی کمپنیوں کے ملازمین کی تعداد اور ملازمین پر خرچ کی جانے والی رقم پر ہوتا ہے جسے عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔
4: پی آئی اے کا بوجھ

پی آئی اے قدیم بوئنگ 300-737 طیاروں کو ریٹائر کر کے موجودہ حکومت نے یورپی طیارہ ساز ایئربس کے A320 طیارہ لیز پر حاصل کیے۔پی آئی اے اپنے 38 طیاروں کی مدد سے روزانہ 120 کے قریب پروازیں چلاتی ہے جو طویل فاصلے سے درمیانے فاصلے کی پروازوں کے ساتھ ایک بہتر رجحان ہے۔
پی آئی اے کے پاس دنیا کے بہترین ہوائی اڈوں پر بہترین لینڈنگ رائٹس کی سہولت ہے۔
اگر پی آئی اے کے پاس اسی طرح کے بہتر طیارے ہوں اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو وہ سب مسافر جنھیں غیر ملکی فضائی کمپنیاں سہولت فراہم کر رہی ہیں پی آئی اے بھی انھیں سفری سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔
پی آئی اے کی سب سے زیادہ پروازیں مشرقِ وسطیٰ خصوصاً دبئی اور پاکستان کے درمیان ہیں جن میں پی آئی اے دو پاکستانی اور درجن بھر مشرق وسطیٰ کی فضائی کمپنیوں سے مقابلہ کرتی ہے۔
جہاں پی آئی اے کے طیاروں اور اس کی وجہ سے پروازوں کی تعداد ماضی میں کم ہوتی گئی وہیں غیر ملکی کمپنیوں کو دھڑا دھڑ پاکستان میں تھوک کے حساب سے لینڈنگ رائٹس دیے گئے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے تعلق رکھنے والی فضائی کمپنیاں اس وقت پاکستان میں کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد، اسلام آباد سیالکوٹ اور پشاور سے پروازیں چلا رہی ہیں۔
ایمریٹس اور قطر جیسی فضائی کمپنیاں اسلام آباد، کراچی، لاہور حتیٰ کہ سیالکوٹ جیسے شہروں کے لیے بوئنگ 777 یا ایئر بس اے 330 جیسے طیارے چلاتی ہیں اور پی آئی اے کا انحصار ان روٹس کے لیے چھوٹے ایئر بس اے 320 طیاروں پر ہے۔
2005 میں بیرونی فضائی کمپنیاں ایک ہفتے میں پاکستان کے لیے سو کے قریب پروازیں چلاتی تھیں اب یہ تعداد 400 کے لگ بھگ ہے۔
مختصر یہ کہ آج جو مسافر فلائی دبئی، فلائی ناس، ایئر عریبیا یا اومان ایئر پر سفر کرتے ہیں وہ پی آئی اے یا پاکستانی فضائی کمپنیوں پر بھی کر سکتے ہیں مگر یہ بات بہت کم کی جاتی ہے کہ مسافروں کی مد میں ہونے والے سارے نقصان کا سارا فائدہ برادر خلیجی ممالک کی فضائی کمپنیوں کو ہوا ہے۔
5: روزویلٹ ہوٹل

روزویلٹ ہوٹل کو 2007 میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا مگر اب بھی بہت سی للچائی نظریں اس ہوٹل پر لگی ہیں۔پی آئی اے کو ایک بیمار کمپنی قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن یہ ادارہ امریکی شہر نیویارک کے مرکزی گرینڈ سینٹرل سٹیشن کے قریب ایک ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے روزویلٹ ہوٹل سمیت دنیا کے اہم شہروں میں متعدد ہوٹلوں کا مالک ہے۔
روزویلٹ ہوٹل 1979 میں پی آئی اے کی ذیلی کمپنی پی آئی اے انوسیٹمنٹس نے خریدا تھا جس میں ابتدائی طور پر سعودی شہزادے فیصل نے سرمایہ کاری کی تھی۔
پی آئی اے نے بعد میں اس ہوٹل کے 99 فیصد حصص خرید لیے تھے۔
جہاں پی آئی اے میں خسارے کا دور دورہ ہے یہ ان چند منافع بخش سرمایہ کاریوں میں سے ہے جن سے پی آئی اے منافع کماتی ہے۔
پی آئی اے نے اس کے علاوہ 1979 میں لیز پر حاصل کیا جانے والا پیرس کا سکرائب ہوٹل بھی سنہ 2002 میں خرید لیا تھا۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/05/160526_5_things_about_pia_tim
and here is the PIA chairman statement who has been misquoted on media. He did not say there was any technical difficulties in the plane before the flight. Plane was A-ok before the flight.
Last edited by a moderator: