عائشہ چاھتی تھیں کہ عثمان جلد از جلد قتل ہوں تاکہ وہ اپنے رشتہ دار طلحہ کو ان کی جگہ مسند خلافت پر بٹھا سکیں۔ سنی مورخ طبری لکھتا ہے کہ جب عثمان محاصرے میں تھے اور ابن عباس کی ملاقات عائشہ سے ہوئی جبکہ وہ مکہ کی طرف عازم حج تھیں۔ عائشہ نے ابن عباس سے اپیل کی کہ وہ عثمان کے خلاف حرکت میں آئیں۔
ابن جریر طبری نے واقدی سے، انہوں نے ابن ابی سبرہ سے، انہوں نے عبدل المجید بن سہیل سے، انہوں نے عکرمہ سے روایت کی ہے:
"اے ابن عباس! میں اللہ کے نام پر تم سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اس (عثمان) کو ترک کر دو اور اس کے متعلق لوگوں میں شبہات پیدا کرو کیونکہ اللہ نے تمہیں تیز زبان عطا کی ہے (اور تم یہ کام کر سکتے ہو)۔ ان لوگوں پر صورتحال واضح ہو چکی ہے اور روشنی کے مینارے بلند ہو چکے ہیں جو ان کی رہنمائی کریں گے۔ انہیں پتا ہے کہ عثمان کے ساتھیوں نے ان تمام زمینوں کو چوس لیا ہے جو کہ کبھی اچھی چیزوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ بیت المال کی چابیاں لے رہا ہے۔ (بیشک) اگر وہ خلیفہ بنتا ہے تو وہ اپنے چچا زاد بھائی ابو بکر کی پیروی کرے گا۔"
اس پر ابن عباس نے جواب دیا: "اے ام المومنین! اگر عثمان پر کوئی برا وقت آ گیا تو یقیناً لوگ صرف ہمارے ساتھی (مولاعلی علیہ السلام) کی پناہ ڈھونڈیں گے۔" اس پر عائشہ نے کہا، "خاموش رہو! میری کوئی خواہش نہیں ہے کہ تمہاری تکذیب کروں یا تم سے لڑوں۔"
جب عثمان کے قتل کی خبر پہنچی تو عائشہ حج کے سفر میں تھیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ ان کا خیمہ گاڑھا جائے اور پھر آپ نے کہا:
"مجھے یقین ہے کہ عثمان اپنے لوگوں (بنی امیہ) پر برا وقت لائے گا جیسا کہ ابو سفیان اپنے لوگوں پر جنگ بدر میں لایا تھا۔"
[*=right]البلاذری، انساب الاشراف، ج 5، ص 91
صحابہ کی گواہیاں کہ عائشہ نے عثمان کے قتل کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کر لی
جب عائشہ کے منصوبے کے مطابق، عثمان کے قتل کے بعد طلحہ خلیفہ نہ بن سکا اور لوگوں نے مولا علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو عائشہ نے عثمان کی مخالفت ترک کر کے فورا" اسے مظلوم ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ اور لوگوں کو اس پر ابھارنا شروع کر دیا کہ وہ خون عثمان کے قصاص کے نام پر مولا علی (ع) کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
مولا علی (ع) نے کھلے عام عائشہ کے اس دہرے رویہ پر تنقید کی۔ صحابہ بھی اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف تھے کہ عائشہ نے عثمان کے خلاف لوگوں کو کیسے بھڑکایا تھا (یعنی حضرت عائشہ خود نعثل کہہ کر لوگوں کو عثمان کے قتل پر اکساتی تھیں)۔
سنی مؤرخ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ کامل، ج 3، ص 100 پر لکھتا ہے:
"عبید بن ابی سلمہ، جو کہ عائشہ کا رشتہ دار تھا، عائشہ سے ملا جبکہ وہ مدینے کی طرف واپس جا رہی تھیں۔ عبید نے کہا، " عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور مدینہ آٹھ دن تک بغیر امام کے رہا۔" عائشہ نے پوچھا، " انہوں نے اگلا قدم کیا اٹھایا؟" عبید نے جواب دیا، "لوگوں نے علی (ع) کی طرف رجوع کیا اور ان کی بیعت کر لی۔" عائشہ نے پھر کہا، " مجھے مکہ واپس لے چلو۔" پھر عائشہ نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا اور بولنا شروع کیا، "بیشک! عثمان معصوم قتل ہوئے، اور بخدا، میں ان کے قتل کا انتقام لوں گی۔"
اس پر عبید نے کہا، "تم کیا اب عثمان کو معصوم بول رہی ہو، جبکہ یہ تم ہی تھیں جو لوگوں کو اکسایا کرتی تھی کہ اس نعثل کو قتل کر دو کہ یہ یہودی ہے۔"
قارئین، ملاحظہ فرمائیں کہ لوگ حضرت عائشہ کو عثمان کو نعثل کہنا نہیں بھولے اور انہیں عثمان کے مرنے کے بعد انکے نعثل کے یہ الفاظ یاد دلوا رہے ہیں۔
مولا علی (ع) نے عائشہ کو ایک خط لکھا، جیسا کہ سیرت حلبیہ، ج 3، ص 356 پر لکھا ہے:
"تم نے اللہ اور اس کے رسول (ص) کی مخالفت میں اپنے گھر سے قدم باہر نکالا۔ اور تم نے ان چیزوں کا مطالبہ کیا جن پر تمہارا کوئی حق نہ تھا۔ تمہارا دعوی ہے کہ تم یہ سب امت کی بہتری کے لیے کر رہی ہو، لیکن مجھے بتاؤ، عورت کا اس میں کیا کردار ہے کہ وہ امت کی بہتری کے لیے (گھر) سے نکلے اور جنگوں میں حصہ لے؟ تم کہتی ہو کہ تم عثمان کے خون کا قصاص چاھتی ہو، جبکہ وہ قبیلہ بنی امیہ سے تھا اور تم قبیلہ تیم کی عورت ہو۔ اگر اس مسئلے پر نظر ڈالی جائے تو یہ کل کی ہی بات ہے جب تم کہا کرتی تھی کہ اس (عثمان) نعثل کو قتل کر دو۔ اللہ اس کو قتل کرے کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔"
چنانچہ حضرت عائشہ سے عثمان کو نعثل کہنے کے یہ الفاظ تاریخ میں 3 مرتبہ ملتے ہیں (یعنی 3 مختلف موقعوں پر تین مختلف صحابہ نے حضرت عائشہ کا عثمان کو نعثل کہنا نقل کیا ہے) ۔ اس لیے ہمارے مخالفین کے پاس اب کوئی بہانہ نہیں ہے کہ وہ اس بات کا انکار کر دیں۔
[نوٹ: حضرت عائشہ کا عثمان کو نعثل کہنا اتنا مشہور تھا کہ حضرت عائشہ کے ساتھ ساتھ ( یا پھر شاید دیکھا دیکھی) دوسرے لوگ بھی عثمان کو کھلم کھلا نعثل کی گالی دیتے تھے۔
ابن کثیر دمشقی اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتا ہے:
واقدی نے بیان کیا ہے کہ اسامہ بن زید نے یحیی بن عبدالرحمٰن بن حاطب سے، ابن کے باپ کے حوالے سے مجھ سے بیان کیا ہے کہ عثمان کے پاس نبی (ص) کا عصا تھا۔۔۔۔ جھجاہ غفاری نے عثمان سے کہا کہ اے نعثل اٹھ اور اس منبر سے اتر جا۔۔۔۔
[*=right]حوالہ: البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، صفحہ 346
اور اگلے صفحہ پر ابن کثیر الدمشقی نے نعثل کے متعلق ایک اور روایت نقل کی ہے:
واقدی کا بیان ہے کہ محمد بن صالح نے عبید اللہ بن رافع بن نقاط سے بحوالہ عثمان بن شرید مجھ سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ عثمان جبلہ بن عمرو الساعدی کے پاس سے گذرے جب کہ وہ اپنی حویلی کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا، اور اُس کے پاس ایک طوق بھی تھا۔ اس نے کہا اے نعثل، خدا کی قسم میں آپ کو قتل کر دوں گا اور ایک خارش زدہ اونٹنی پر سوار کرا دوں گا اور ایک سیاہ سنگ آتشی زمین کی طرف نکال دوں گا۔
[*=right]حوالہ: البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، صفحہ 347
[نوٹ:
[*=right]اوپر کے یہ دونوں واقعات (جس میں جھجاہ غفاری اور جبلہ بن عمرو الساعدی نے عثمان کو نعثل کی گالی دی) اُس وقت پیش آئے جبکہ اہلِ مصر پہلی دفعہ مولا علی(ع) کے کہنے پر محاصرہ اٹھا کر واپس چلے گئے تھے۔ (یعنی اہلِ مدینہ اکیلے تھے)
[*=right]اور ان دونوں کا تعلق اہلِ مدینہ سے تھا۔
[*=right]اور ان دونوں نے دیگر اہلِ مدینہ کے سامنے کھل کر عثمان کو نعثل کی گالیاں دیں، مگر اہلِ مدینہ میں سے کسی نے بھی انہیں روکا اور نہ عثمان کی طرفداری کی۔
ابن جریر طبری نے عثمان کی تدفین کے حوالے سے نعثل کی گالی کا ایک اور واقعہ بھی نقل کیا ہے:
جعفر نے عمرو اور علی سے، انہوں حسین سے، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے المجالد سے، انہوں نے یسار بن ابی کریب سے، اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ّ(جو کہ عثمان کی خزانچی تھے):
عثمان کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔ اُس کے ساتھ صرف مروان بن حکم تھا اور اُس کے تین غلام اور پانچویں بیٹی تھی۔ اُس کی بیٹی نے اونچی آواز میں واویلا اور ماتم شروع کر دیا۔
لوگوں نے ہاتھوں میں پتھر اٹھا لئے اور آوازیں لگانا شروع کر دیں:
نعثل۔۔۔ نعثل۔۔۔ اور انہوں نے اُس کو تقریباً سنگسار ہی کر دیا تھا۔
نوٹ: عثمان کے جنازے میں اہلِ مدینہ میں سے کوئی ایک بھی شخص شریک نہیں ہوا (سوائے بنی امیہ کے سات آٹھ لوگوں کے)۔ یعنی نہ مولا علی(ع) شریک ہوئے نہ حسن (ع) اور نہ حسین(ع)۔ اور نہ ہی طلحہ و زبیر و سعد بن ابی وقاص و ابو ہریرہ وغیرہ وغیرہ۔
مگر ناصبی حضرات ہیں کہ ابھی تک سیف کذاب کی روایات کے بل پر رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ اہلِ مدینہ تو عثمان کے مکمل جانثار تھے اور یہ صرف اور صرف یہ کچھ سبائی تھے جنہوں نے عثمان کی مخالفت کر کے اُسے قتل کر دیا۔
اور عثمان کو قتل کیے جانے کے تین دن کے بعد دفنایا گیا۔ (حصہ دوم میں آپ اس سلسلے کو ، یعنی اہلِ مدینہ کے کردار کو، بہت تفصیل کے ساتھ پڑھیں گے۔ انشاء اللہ۔)
امام اہلسنت ابن عبدالبر نے اپنی کتاب الاستیعاب، ج3، ص213 پر مولا علی (ع) کی یہ تقریر نقل کی ہے:
"طلحہ، *زبیر اور عائشہ مجھ سے اس چیز کا حق مانگ رہے ہیں جو انہوں نے خود ترک کر دی تھی۔ اور یہ اس خون کا قصاص مانگتے ہیں، جو انہوں نے خود بہایا ہے۔ یہ خود عثمان کے قتل کے ذمہ دار ہیں، اور میں ہرگز اس میں شامل نہ تھا۔ لیکن یہ اب اس کا انکار کرتے ہیں۔ میں ہرگز عثمان کے قتل میں شامل نہیں۔ اور عثمان کے قتل کے واحد مجرم یہ باغی گروہ خود ہے۔ انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر اسے توڑ دیا۔"
ابن جریر طبری نے زیاد بن ایوب سے، انہوں نے معصب بن سلمان التمیمی سے، انہوں نے محمد سے، انہوں نے عاصم بن کلیب سے، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے:
کلیب کہتے ہیں کہ جب وہ جہاد سے واپس آئے تو کچھ دنوں کے بعد یہ مشہور ہو گیا کہ طلحہ و زبیر آ رہے ہیں اور اُن کے ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ بھی ہیں۔ یہ سن کر لوگوں کو بہت حیرت ہوئی کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ ان لوگوں نے ہی عثمان سے ناراض ہو کر لوگوں کو اُس کے خلاف کیا تھا۔ اور اب بدنامی سے بچنے کے لئے قصاص کا نام لے کر نکلے ہیں۔
حضرت عائشہ نے کہا کہ ہم تو تمہاری خاطر ہی عثمان کی تین حرکتوں پر ناراض ہوئے تھے: پہلا یہ کہ اُس نے ناعمر لوگوں کو حاکم مقرر کیا، دوسرا یہ کہ اُس نے عامہ کی زمینوں پر قبضہ کیا اور تیسرا یہ کہ اُس نے لوگوں کو دروں اور چھڑی سے مارا۔
العقد الفرید، ص 218 پر درج ہے کہ مروان نے عائشہ کو کہا،
"عثمان تمہارے خطوط کی وجہ سے مارا گیا ہے۔"
اور ابن سعد نے نقل کیا ہے:
قال أخبرنا أبو معاوية الضرير قال أخبرنا الأعمش عن خيثمة عن مسروق عن عائشة قالت حين قتل عثمان تركتموه كالثوب النقي من الدنس ثم قربتموه تذبحوه كما يذبح الكبش هلا كان هذا قبل هذا فقال لها مسروق هذا عملك أنت كتبت إلى الناس تأمرهم بالخروج إليه قال فقالت عائشة لا والذي آمن به المؤمنون وكفر به الكافرون ما كتبت إليهم بسوداء في بيضاء حتى جلست مجلسي هذا قال الأعمش فكانوا يرون أنه كتب على لسانها
عائشہ سے مروی ہے کہ جس وقت عثمان قتل ہوئے تو انہوں نے کہا کہ تم لوگ انہیں میل کچیل سے پاک صاف کپڑے کی طرح کر دیا (یعنی پہلے اپنی بدعتوں کی وجہ سے گندے تھے اور اب پاک صاف ہو گئے تھے) پہر ان کو مینڈھے کی طرح ذبح کر دیا۔ مسروق نے کہا کہ یہ آپ ہی کا تو عمل ہے۔ آپ ہی نے تو لوگوں کو خط لکھ کر اُن پر خروج کرنے کا حکم دیا تھا۔ عائشہ نے قسم کھائی کہ میں نے ایک لفظ نہیں لکھا۔ اعمش نے کہا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ خط عائشہ کے حکم سے لکھے گئے تھے۔
[*=right]سنی حوالہ: طبقات ابن سعد (اردو، نفیس اکیڈمی) جلد دوم، صفحہ 177
اور متعدد سنی مورخین نے جناب عمار یاسر کا یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے:
جب عثمان کے قتل کی اطلاع عائشہ کو ملی تو انہوں نے روتے ہوئے کہا عثمان پر اللہ رحم کرے وہ قتل ہو گئے۔ حضرت عمار بن یاسر(ر) نے کہا تم ہی لوگوں کو اُن کے (عثمان) کے خلاف ورغلاتی تھیں اور آج رو رہی ہو۔ (فقال لھا عمار یاسر: انت بالامس تحرضین علیہ ثم انت الیوم تبکینہ)
[*=right]سنی حوالے:
1) طبقات ابن سعد، طبع لیدن، ج 5، صفحہ 25
2) طبری، جلد 5، صفحہ 140، 166، 172 اور 176
3) انساب الاشراف، البلاذری، جلد 5، صفحہ 70، 75 اور 91
ابن اثیر نے ابن زبیر کا عائشہ کو بہکانا بھی نقل کیا ہے:
کان الذی ازام المومنین علی الخروج ابن زبیر
یعنی عائشہ کو خروج کے لئے ابن زبیر نے بھڑکایا تھا۔
[*=right]النہایۃ فی غیرب الحدیث، جلد 1، صفحہ 8
[*=right]غریب الحدیث الحربی، جلد 3، صفحہ 980 اور 38
اور العقد الفرید، ج 2، ص 210 پر لکھا ہے:
"مغیرہ بن شعبہ عائشہ کے پاس آیا۔ عائشہ نے اس سے کہا، "جنگ جمل میں جو تیر پھینکے گئے، ان میں سے کچھ تو مجھے چھوتے ہوئے گذرے۔" مغیرہ نے جواب دیا، "اگر ایک تیر بھی تمہیں لگ کر قتل کر دیتا تو یہ اس بات کی توبہ ہوتی کہ تم نے لوگوں کو عثمان کے قتل پر اکسایا کرتی تھیں۔"
ابن قیتبہ اپنی کتاب "الامامہ و السیاسہ" کی صفحہ 55 پر تحریر کرتے ہیں:
جب مقام اوطاس میں حضرت عائشہ سے مغیرہ ابن شعبہ کی ملاقات ہوئی تو اس نے آپ سے دریافت کیا کہ:
اے ام المومنین کہاں کا ارادہ ہے؟ فرمایا بصرے کا کہا کہ وہاں کیا کام ہے ؟فرمایا خون عثمان کاقصاص لینا ہے اس نے کہا کہ عثما ن کے قاتل تو آپ کے ہمراہ ہیں .پھر مروان کی طرف متوجہ ہوا ,اور پوچھا کہ تمہارا کہا ں کا ارادہ ہے؟اس نے کہا کہ میں بھی بصرہ جارہا ہوں کہا کس مقصد کے لیے؟ کہا کہ عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لینا ہے اس نے کہا کہ عثمان کے قاتل تو تمہارے ساتھ ہی ہیں اور انہی طلحہ و زبیر نے تو انہیں قتل کیا تھا .
حضرت عائشہ کی دو رخی پالیسی کا ایک اور ثبوت
اللہ کی پناہ، حضرت عائشہ کا کردار بخدا بہت خطرناک تھا۔ ذیل میں ہم دو واقعات نقل کر رہے ہیں، اس کے بعد پڑھنے والوں سے استدعا ہے کہ وہ اللہ کے نام پر خود انصاف کریں۔
حضرت عائشہ کا عثمان کی مخالفت میں اہلِ مصر کو مظلوم قوم ماننا
خدا کی قدرت دیکھئے کہ سب سے پہلے حضرت عائشہ کو غلط اطلاع ملی کہ عثمان قتل نہیں ہوئے ہیں، بلکہ عثمان نے اہلِ مصر کو قتل کر دیا ہے۔ اس خبر پر حضرت عائشہ کا ردِ عمل قابلِ غور ہے:
ابن جریر طبری نے عمر بن شعبہ سے، انہوں نے ابوالحسن المدنی سے، انہوں نے صحیم سے، انہوں نے عبید بن عمر القراشی کا یہ بیان ذکر کیا ہے کہ:
حضرت عائشہ جب حج کے ارادہ سے مدینہ سے چلیں تو اُس وقت حضرت عثمان محصور تھے۔ مکہ میں اُن (حضرت عائشہ) کے پاس ایک شخص اخضر نامی پہنچا۔ حضرت عائشہ نے اُن سے دریافت کیا کہ مدینہ میں لوگوں نے کیا کیا؟ اخضر نے کہا کہ عثمان نے سب مصریوں کو قتل کر دیا ہے۔ حضرت عائشہ نے یہ سنتے ہی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور پھر فرمایا کیا اس قوم (اہلِ مصر) کو قتل کیا جا سکتا ہے جو حق طلب کرنے آئی ہو، اور ظلم کی منکر ہو؟ خدا کی قسم! ہم عثمان کے اس فعل پر ہرگز خوش نہیں ہیں۔
اس کے بعد مدینہ سے ایک اور شخص آیا۔ حضرت عائشہ نے اس سے سوال کیا کہ مدینہ میں لوگوں نے کیا کیا۔ اس شخص نے بتایا کہ مصریوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا ہے۔ اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اخضر پر تعجب ہے کہ اس نےقاتل کو مقتول اور مقتول کو قاتل بنا دیا ہے۔ اس کے بعد سے یہ ضرب المثل مشہور ہو گئی کہ یہ شخص تو اخضر سے بھی زیادہ جھوٹا ہے۔
حضرت عائشہ کا مولا علی(ع) کی مخالفت میں اہلِ مصر کو حق طلب قوم سے فتنہ گر و باغی بنا دینا
اگلی روایت پیش کرنے سے پہلے محترم پڑھنے والوں سے استدعا ہے کہ یہ بات ذہنوں میں رکھیں:
[*=center]حضرت عائشہ نے ابھی اوپر والی روایت میں حضرت عثمان کی مخالفت میں اہلِ مصر کو حق طلب قوم اور ظلم کی منکر قوم قرار دیا ہے۔
[*=center]پھر حضرت عائشہ کی ملاقات ابن عباس سے ہوتی ہے اور وہ اُن سے طلحہ بن عبید اللہ کی خلافت کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔
[*=center]ابن عباس(ر) انہیں بتاتے ہیں کہ لوگ حضرت علی(ع) کی بیعت کر کے انہیں خلیفہ بنانے والے ہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ کا کا موڈ بگڑ جاتا ہے۔
[*=center]پھر ام کلاب (عبد بن ابی سلمہ) آ کر حضرت عائشہ کو اس کی تصدیق کرتا ہے کہ اہلِ مدینہ نے مولا علی(ع) کو خلیفہ چن لیا ہے۔
مولاعلی(ع) کی خلافت کا سنتے ہی حضرت عائشہ غصے کے عالم میں فوراً مکہ پلٹتی ہیں اور وہاں جا کر یہ خطبہ دیتی ہیں کہ اہلِ مصر حق طلب قوم اور ظلم کی منکر قوم نہیں، بلکہ فتنہ گر اور باغی قوم ہیں۔ ابن جریر طبری روایت کرتے ہیں:
(مقامِ سرف پر حضرت عائشہ کی ملاقات ام کلاب سے ہوئی تو اُس نے حضرت عائشہ کو بتایا) کیا آپ جانتی ہیں کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور مدینہ آٹھ دن تک بغیر امیر کے رہا ہے؟ اس پر حضرت عائشہ نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے کیا کیا؟ (ام کلاب) نے بتایا کہ اہلِ مدینہ نے مل کر علی(ع) کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ یہ سن کر حضرت عائشہ مکہ واپس لوٹ آئیں اور کسی سے اس دوران کوئی بات نہیں کی۔ ۔۔۔ (جب حضرت عائشہ حطیم میں پہنچیں تو بہت سے لوگ وہاں جمع ہو گئے)۔ حضرت عائشہ نے اُن سے خطاب کیا:
اے لوگو، دوسرے شہروں سے آنے والے فتنہ گروں اور اہلِ مدینہ نے مل کر شہید عثمان پر الزام لگایا تھا کہ وہ فتنہ پھیلا رہا ہے اور اُس نے ایسے نوعمر لوگوں کو حاکم بنا دیا ہے جن کی ابھی دانت بھی نہیں نکلے ہیں۔ مگر ان نوجوانوں نے پہلے بھی اپنے آپ کو ثابت کیا ہے اور اُنکی حفاظت کی۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جو کہ پہلے ہو چکی ہیں اور ان کو ان نوجوانوں کے علاوہ کسی نے صحیح نہیں کیا۔ مگر یہ فتنہ گر حضرت عثمان کے خلاف ہو گئے اور اُن سے اُنکی خلافت چھیننا چاہتے تھے۔ مگر ظاہر یہ کرتے تھے کہ وہ صرف اصلاح کی غرض سے آئے ہیں۔ مگر جب انہیں فتنہ پھیلانے کا کوئی بہانہ نہ ملا اور وہ عثمان میں کوئی برائی نہ ڈھونڈ سکے تو سرکشی اور بغاوت شروع کر دی۔ اس طرح لوگوں پر اُن کے قول و فعل کا تضاد واضح ہو گیا۔ [کاش کہ لوگوں پر حضرت عائشہ کے اقوال و افعال میں تضاد بھی عیاں ہو جاتا تو جمل میں ہزاروں مسلمانوں کا خون نہ بہتا]
۔۔۔(حضرت عائشہ آگے فرماتی ہیں) بخدا ان قاتلینِ عثمان کو قتل کر کے زمین بھر دی جائے تو بھی اس کے مقابلے میں عثمان کی ایک انگلی بہتر ہے۔ اس لئے میں آپ لوگوں کے اس اجتماع سے ان شر پسندوں کے خلاف مدد مانگتی ہوں اور انہیں سزا دینا چاہتی ہوں۔ [ یہ تھی حضرت عائشہ کی چال لوگوں کو مولا علی(ع) کے خلاف جنگ پر ابھارنے کی]
[*=center]تاریخِ طبری، اردو ایڈیشن، جلد سوم، صفحہ 457 تا 458
ہم اللہ کے نام پر انصاف کرنے والے اصحاب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ حضرت عائشہ کی پالیسی میں یہ تبدیلی دیکھیں کہ:
[*=center]حق طلب کرنے والی قوم (اہلِ مصر) کسقدر جلد فتنہ گر اور شر پسندوں میں تبدیل ہو گئے۔
[*=center]اور ظلم کی منکر یہ قوم (اہلِ مصر) کسقدر جلد بغاوت کرنے والی قوم بن گئے۔
[*=center]اور یہ تبدیلی کتنی دیر میں پیش آئی؟؟؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ سرف کے مقام سے واپس مکہ میں داخل ہونے تک جتنی دیر لگتی ہے، اتنی دیر میں یہ تبدیلی پیش آ چکی تھی۔ (سرف کا مقام اُس زمانے میں مکہ سے 6 سے 12 میل کے فاصلے پر ہے)
[*=center]اور اس تبدیلی کی وجہ کیا تھی؟؟؟ جی ہاں، صرف اور صرف یہ خبر کہ لوگوں نے طلحہ بن عبید اللہ کی بجائے مولا علی(ع) کے ہاتھ پر بیعت کر کے انہیں خلیفہ بنا دیا ہے۔