[h=1]پندرہ اگست: کشمیر میں جشن نہیں ہوگا[/h]
ریاض مسرور بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر
کشمیر میں بھارت کے یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کے مواقع پر مقامی حکومتیں سرکاری تقریبات میں لوگوں کو شامل کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہیں کہ لوگ ان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
پچھلے چونسٹھ برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی مقامی حکومت نے بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر بچوں کے رنگارنگ پروگرام منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس فیصلے پر جہاں علیحدگی پسندوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے وہیں جموں میں حزبِ اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت علیٰحدگی پسندوں کی خوشنودی چاہتی ہے۔
کشمیر کی صوبائی انتظامیہ کے ایک افسر عبدالمجید وانی نے اس سلسلے میں شعبۂ تعلیم کے افسران کو تحریری طور مطلع کیا ہے کہ وہ بچوں کو کسی کلچرل پروگرام کے لئے مشق نہ کروائیں۔
مسٹر وانی نے بی بی سی کو بتایا ’رمضان کا مہینہ ہے اور اکثر بچے روزہ رکھتے ہیں۔ اس گرمی کے دوران کلچرل پروگرام میں بچے آئیں گے تو انہیں تکلیف ہوگی۔ اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے‘۔
بھارت کے یومِ آزادی کے سلسلے میں کشمیر میں سخت سکیورٹی کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال یوم آزادی کی تقریبات کے موقع پر ایک پولیس اہلکار نے وزیراعلیٰ پر جوتا پھینکا تھا جس کے بعد احد جان نامی اس نوجوان پولیس اہلکار کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا۔
ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت کے اس اقدام پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ بی جے پی کی کشمیر شاخ کے سربراہ شمشیر سنگھ منہاس نے کہا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کر کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’لگتا ہے کہ یہ لوگ علیٰحدگی پسندوں کو خوش کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ ہم حکومت سے اس بات کا جواب لیں گے‘۔
دریں اثنا حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کہتے ہیں کہ یہ ایک درست قدم ہے۔ ان کا کہنا ہے ’ہم بہت پہلے سے اس بات پر اعتراض کرتے رہے ہیں کہ بھارت کے یومِ آزادی پر یہاں حکومت عام لوگوں کی زبردستی نمائش کرتی ہے۔ بچوں کو ایک سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے‘۔
میر واعظ نے فوج سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری طالب علموں کو ثقافتی پروگراموں اور دوسری سرگرمیوں میں شامل نہ کریں۔
واضح رہے پچھلی کئی دہائیوں سے کشمیر میں بھارت کے یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کے مواقع پر مقامی حکومتیں سرکاری تقریبات میں لوگوں کو شامل کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہیں کہ لوگ ان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
مرحوم شیخ محمد عبداللہ اور بخشی غلام محمد کے ادوار میں ایسی تقریبات جشن میں تبدیل ہوتی تھیں۔ عمر عبداللہ کے ایک قریبی ساتھی اور سینئر وزیر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ’وجہ جو بھی ہو، اس بار جشن وشن نہیں ہوگا‘۔
اس دوران بھارت کے یومِ آزادی کے سلسلے میں کشمیر میں سخت سکیورٹی کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ سرینگر شہر اور بڑے قصبوں میں فورسز کی اضافی نفری کو تعینات کیا گیا ہے۔ سرینگر کی پرانی بستیوں میں رات کے وقت پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔
سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان پربھاکر ترپاٹھی نے بتایا کہ ’واضح خطرہ تو نہیں ہے، لیکن احتیاطی طور پر سکیورٹی کو چوکس کر دیا گیا ہے۔‘۔
ریاض مسرور بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر

کشمیر میں بھارت کے یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کے مواقع پر مقامی حکومتیں سرکاری تقریبات میں لوگوں کو شامل کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہیں کہ لوگ ان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
پچھلے چونسٹھ برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی مقامی حکومت نے بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر بچوں کے رنگارنگ پروگرام منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس فیصلے پر جہاں علیحدگی پسندوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے وہیں جموں میں حزبِ اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت علیٰحدگی پسندوں کی خوشنودی چاہتی ہے۔
کشمیر کی صوبائی انتظامیہ کے ایک افسر عبدالمجید وانی نے اس سلسلے میں شعبۂ تعلیم کے افسران کو تحریری طور مطلع کیا ہے کہ وہ بچوں کو کسی کلچرل پروگرام کے لئے مشق نہ کروائیں۔
مسٹر وانی نے بی بی سی کو بتایا ’رمضان کا مہینہ ہے اور اکثر بچے روزہ رکھتے ہیں۔ اس گرمی کے دوران کلچرل پروگرام میں بچے آئیں گے تو انہیں تکلیف ہوگی۔ اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے‘۔

بھارت کے یومِ آزادی کے سلسلے میں کشمیر میں سخت سکیورٹی کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال یوم آزادی کی تقریبات کے موقع پر ایک پولیس اہلکار نے وزیراعلیٰ پر جوتا پھینکا تھا جس کے بعد احد جان نامی اس نوجوان پولیس اہلکار کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا۔
ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت کے اس اقدام پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ بی جے پی کی کشمیر شاخ کے سربراہ شمشیر سنگھ منہاس نے کہا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کر کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’لگتا ہے کہ یہ لوگ علیٰحدگی پسندوں کو خوش کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ ہم حکومت سے اس بات کا جواب لیں گے‘۔
دریں اثنا حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کہتے ہیں کہ یہ ایک درست قدم ہے۔ ان کا کہنا ہے ’ہم بہت پہلے سے اس بات پر اعتراض کرتے رہے ہیں کہ بھارت کے یومِ آزادی پر یہاں حکومت عام لوگوں کی زبردستی نمائش کرتی ہے۔ بچوں کو ایک سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے‘۔
میر واعظ نے فوج سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری طالب علموں کو ثقافتی پروگراموں اور دوسری سرگرمیوں میں شامل نہ کریں۔
واضح رہے پچھلی کئی دہائیوں سے کشمیر میں بھارت کے یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کے مواقع پر مقامی حکومتیں سرکاری تقریبات میں لوگوں کو شامل کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہیں کہ لوگ ان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
مرحوم شیخ محمد عبداللہ اور بخشی غلام محمد کے ادوار میں ایسی تقریبات جشن میں تبدیل ہوتی تھیں۔ عمر عبداللہ کے ایک قریبی ساتھی اور سینئر وزیر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ’وجہ جو بھی ہو، اس بار جشن وشن نہیں ہوگا‘۔
اس دوران بھارت کے یومِ آزادی کے سلسلے میں کشمیر میں سخت سکیورٹی کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ سرینگر شہر اور بڑے قصبوں میں فورسز کی اضافی نفری کو تعینات کیا گیا ہے۔ سرینگر کی پرانی بستیوں میں رات کے وقت پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔
سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان پربھاکر ترپاٹھی نے بتایا کہ ’واضح خطرہ تو نہیں ہے، لیکن احتیاطی طور پر سکیورٹی کو چوکس کر دیا گیا ہے۔‘۔