[h=1]لڑکی سے دست درازی کرنے پر فوجی گرفتار[/h]
اکیس جولائی کو جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں ایک خاتون کو دو وردی پوش فوجیوں نے اغوا کیا تھا
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ایک طالبہ کے ساتھ دست درازی کرنے کے الزام میں پولیس نے ایک فوجی اہلکار کو گرفتار کرلیا ہے۔
پندرہ سالہ طالبہ کا تعاقب کرنے اور اس کے ساتھ دست درازی کرنے کے الزام میں شمالی کشمیر کے پٹن قصبہ میں ایک فوجی اہلکار کو مقامی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ یہ واقعہ جنوبی کشمیر میں ایک خاتون کے ساتھ فوجیوں کی مبینہ جنسی زیادتی کے چند روز بعد پیش آیا ہے۔
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم فوج کی2 راشٹریہ رائفلز کے ساتھ وابستہ ہے اور فی الوقت پٹن کے ایک تربیتی مرکز میں زیرتربیت ہے۔
پیر کی شام پٹن کے یدی پورہ حیدر بیگ علاقہ کی رہنے والی ایک پندرہ سالہ طالبہ، جس کا نام خفیہ رکھا جارہا ہے، سکول سے واپس آ رہی تھی کہ مذکورہ فوجی نے اس کا تعاقب کیا۔ فوجی نے فقرے کسے اور بعد میں اس کے ساتھ دست درازی کرنے لگا۔ جب لڑکی نے شور مچایا تو مقامی لوگوں نے فوجی کو دبوچ کر پولیس کو اطلاع کردی جس کے بعد پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔
مقامی لوگوں نے اس واقعہ کے خلاف سرینگر مظفرآباد شاہراہ پر دھرنا دیا تاہم مقامی پولیس اور سول انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے۔
پولیس نے فوری طور پر ملزم اور لڑکی کو چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جہاں دونوں کا بیان ریکارڑ کیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ اکیس جولائی کو جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں بھی یہ انکشاف ہوا تھا کہ ایک خاتون کو دو وردی پوش فوجیوں نے اغواء کر کے رات بھر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
اس واردات کے خلاف کولگام میں تین روز تک پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ فوج اور حکومت نے الگ الگ سطحوں پر تفتیش شروع کی اور متاثرہ خاتون کی طبی جانچ کروائی گئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت، پولیس اور فوج مشترکہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی واردات کشمیر میں پھر ایک بار کسی ہمہ گیر ہند مخالف احتجاج کی وجہ نہ بنے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ کولگام اور پٹن جیسے واقعات ان کوششوں پر پانی پھیر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ سرینگر میں تعینات بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل ایس اے حسنین پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کشمیر میں امن کی بحالی کے لیے کرکٹ مقابلے منعقد کرتی ہے۔ لوگوں کو روزگار دیتی ہے، پل تعمیر کرتی ہے اور بہبود کے کاموں میں آگے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج بھی نہیں چاہتی کہ ایسی کسی واردات سے کشمیر میں پھر ایک بار احتجاجی لہر بھڑک اُٹھے۔ لیکن حکومت اور فوج کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ اگر کسی فوجی کو کسی جرم کی پاداش میں گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف سِول عدالت میں کارروائی کی جائے۔
سیاسی مبصر ڈاکٹر مبارک احمد کا کہنا ہے اگر ایسے کسی واقعہ میں کسی فوجی کو سزا ملے گی تو ایسے واقعات نہیں ہونگے۔ لیکن یہاں جب بھی حکومت چاہتی ہے کہ قصور وار کو سزا ملے تو آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ یا افسپا کا قانون اس مقصد کو فوت کر دیتا ہے۔
اس کی تازہ مثال کولگام واقع سے ملتی ہے۔ کولگام کی ستائیس سالہ رقعیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان فوجیوں کو پہچان سکتی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ اس پر حکومت نے رقعیہ کے سامنے فوجیوں کی شناختی پریڈ کروانے کا حکم تو دیا لیکن کور کمانڈر ایس اے حسنین نے کہا اس معاملے میں قانونی ضابطوں پر عمل کیا جائے گا۔
ان کا اشارہ افسپا قانون کی طرف تھا جس کی رو سے حکومت آئینی اختیارات کے تحت کسی بھی ملزم فوجی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ایک طالبہ کے ساتھ دست درازی کرنے کے الزام میں پولیس نے ایک فوجی اہلکار کو گرفتار کرلیا ہے۔
پندرہ سالہ طالبہ کا تعاقب کرنے اور اس کے ساتھ دست درازی کرنے کے الزام میں شمالی کشمیر کے پٹن قصبہ میں ایک فوجی اہلکار کو مقامی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ یہ واقعہ جنوبی کشمیر میں ایک خاتون کے ساتھ فوجیوں کی مبینہ جنسی زیادتی کے چند روز بعد پیش آیا ہے۔
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم فوج کی2 راشٹریہ رائفلز کے ساتھ وابستہ ہے اور فی الوقت پٹن کے ایک تربیتی مرکز میں زیرتربیت ہے۔
پیر کی شام پٹن کے یدی پورہ حیدر بیگ علاقہ کی رہنے والی ایک پندرہ سالہ طالبہ، جس کا نام خفیہ رکھا جارہا ہے، سکول سے واپس آ رہی تھی کہ مذکورہ فوجی نے اس کا تعاقب کیا۔ فوجی نے فقرے کسے اور بعد میں اس کے ساتھ دست درازی کرنے لگا۔ جب لڑکی نے شور مچایا تو مقامی لوگوں نے فوجی کو دبوچ کر پولیس کو اطلاع کردی جس کے بعد پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔
مقامی لوگوں نے اس واقعہ کے خلاف سرینگر مظفرآباد شاہراہ پر دھرنا دیا تاہم مقامی پولیس اور سول انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے۔
پولیس نے فوری طور پر ملزم اور لڑکی کو چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جہاں دونوں کا بیان ریکارڑ کیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ اکیس جولائی کو جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں بھی یہ انکشاف ہوا تھا کہ ایک خاتون کو دو وردی پوش فوجیوں نے اغواء کر کے رات بھر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
اس واردات کے خلاف کولگام میں تین روز تک پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ فوج اور حکومت نے الگ الگ سطحوں پر تفتیش شروع کی اور متاثرہ خاتون کی طبی جانچ کروائی گئی۔
اگر ایسے کسی واقعہ میں کسی فوجی کو سزا ملے گی تو ایسے واقعات نہیں ہونگے۔ لیکن یہاں جب بھی حکومت چاہتی ہے کہ قصور وار کو سزا ملے تو آرمڈ فورسز سپیشل پاورس ایکٹ یا افسپا کا قانون اس مقصد کو فوت کر دیتا ہے
ڈاکٹر مبارک احمد
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت، پولیس اور فوج مشترکہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی واردات کشمیر میں پھر ایک بار کسی ہمہ گیر ہند مخالف احتجاج کی وجہ نہ بنے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ کولگام اور پٹن جیسے واقعات ان کوششوں پر پانی پھیر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ سرینگر میں تعینات بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل ایس اے حسنین پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کشمیر میں امن کی بحالی کے لیے کرکٹ مقابلے منعقد کرتی ہے۔ لوگوں کو روزگار دیتی ہے، پل تعمیر کرتی ہے اور بہبود کے کاموں میں آگے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج بھی نہیں چاہتی کہ ایسی کسی واردات سے کشمیر میں پھر ایک بار احتجاجی لہر بھڑک اُٹھے۔ لیکن حکومت اور فوج کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ اگر کسی فوجی کو کسی جرم کی پاداش میں گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف سِول عدالت میں کارروائی کی جائے۔
سیاسی مبصر ڈاکٹر مبارک احمد کا کہنا ہے اگر ایسے کسی واقعہ میں کسی فوجی کو سزا ملے گی تو ایسے واقعات نہیں ہونگے۔ لیکن یہاں جب بھی حکومت چاہتی ہے کہ قصور وار کو سزا ملے تو آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ یا افسپا کا قانون اس مقصد کو فوت کر دیتا ہے۔
اس کی تازہ مثال کولگام واقع سے ملتی ہے۔ کولگام کی ستائیس سالہ رقعیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان فوجیوں کو پہچان سکتی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ اس پر حکومت نے رقعیہ کے سامنے فوجیوں کی شناختی پریڈ کروانے کا حکم تو دیا لیکن کور کمانڈر ایس اے حسنین نے کہا اس معاملے میں قانونی ضابطوں پر عمل کیا جائے گا۔
ان کا اشارہ افسپا قانون کی طرف تھا جس کی رو سے حکومت آئینی اختیارات کے تحت کسی بھی ملزم فوجی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔