سرجی ! میرا تعلق شہر اقبال سے ھے جہاں کے شہری اور دیہی علاقوں کا پس منظر جاگیردارانہ نہیں اور لوگ بھی نسبتا خوشحال اور خواندہ ھیں۔۔ تحت ھزارہ تو سقراط و میکبتھ کا یوٹوپئن ڈیرہ ھے جہاں وہ وادیِ عشق میں بھینسیں چرا کا اپنا رانجھا راضی کرتے ھیں۔۔
تیس اکتوبر کے جلسہ سے قبل شہری علاقہ میں تحریک انصاف کو مضبوطی دینے والا نوجوانوں کا ایک گروپ تھا جس کی قیادت فاروق مائر نامی نوجوان نےبے لوث طریقے سے کی اور میرا ایک دوست بھی اس کا سرگرم حصہ تھا لیکن جب ٹکٹ کی باری آئی تواس لاٹ کو نظر انداز کر کے روائتی گھرانوں کو تر جیح دی گئی۔۔ اور پارٹی الیکشن میں بھی دھاندلی اورغنڈہ گردی کے بل بوتے پرکرپٹ لوگوں کاغلبہ رھا اور نظریاتی لوگوں کا پینل شکست کھا گیا۔۔۔فاروق ڈار، اجمل چیمہ،اختر رضوی، اورمرزا عبدالقیوم جیسے سرمایہ دار اورمشرف لیگ کے بندوں کو ٹکٹ ملااور سو فیصد گسے پٹے لوگ تحریک کا چہرہ بن کرتبدیلی کا
علم بلند کرنے لگے۔۔
میرا یقین ھے کہ عمران کو پڑھی لکھی ینگ لاٹ اور اس سنجیدہ طبقہ نے سیاسی مقبولیت دی جو پچھلے الیکشنز میں لا تعلق رہتا تھا۔۔ اور عمران کو فیصلہ کن مرحلہ پر ان لوگوں کے سیاسی شعور پر بھروسہ کرکےتبدیلی کے نعرہ کو عملی جامہ دینا چاھئے تھا ۔۔۔لیکن وہی روایئتی چہرے اور نعرے۔۔۔ لوگوں نے پھر بھی عمران کی ایمانداری پر بھروسہ کرکے اس جعلی80 فیصد ٹکٹ ھولڈرز کو ووٹ دیئے لیکن پی ٹی ائی اس ووٹ کی بے حرمتی پر اپنا حق بھی نہ چھین سکی اور روائتی سیاستدانوں کے گھیرے
میں خان صاحب اس سسٹم کا حصہ بن کروہ احتجاجی چنگاریاں بھی راکھ کر بیٹھے۔۔
آپ کے انڈیکیٹر ڈرائنگ روم کی کتابوں میں اپنا دلیلی وزن رکھتے ھوں گے لیکن میں عوام الناس میں ان کرپٹ حرامخور حکمرانو کے خلاف لاوا ابلتا دیکھ رھا ھوں۔۔ اور وہ سالوں کا انتظار کرکے جمہوریت کو نتھارنا نہیں چاھتے بلکہ وہ اس جعلی جمہوریت اور غریب مار کرپٹ سسٹم کو لتاڑنا چاھتے ھیں۔۔ سیاسی اور عمرانیاتی موشگافیاں بھوک و ننگ کے سامنے دور کھڑا تماشہ دیکھتی ھیں اور انسان اپنی بقا کیلئےوقت کے دھارے میں اپنا حصہ چھین کرنئے پیمانےسیٹ کرتا ھے۔۔
عمران کو اپنے پیغام کی طاقت کو پہچاننا چاھیئے تھا کہ لوگ کس تبدیلی کی خواہش لیکر اس کاروان میں شامل ھوئے تھے اور لوگ اشرافیہ کے ان کرپٹ ٹٹوؤں سے تنگ آکر اس کی طرف لپکے تھے لیکن وہ خود ان کے سامنے ڈھیر ھو گیا اور رھی سہی کسر پی تی آئی میں گھسے اس جماعتی ٹولے نے پوری کر دی جومنہ پر منافقانہ ماسک چڑھا کر اس کو طالبانی دفتر کھولنے کی
فکری ترغیب دیتا ھے۔۔
عمران میں سیاسی بصیرت اورفیصلہ سازی کی کمی ھے۔۔وہ ایک ھیرو ھے جو اپنی کرشماتی شخصیت اور محب الوطنی سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتا ھے ۔۔ اور نوجوان طبقہ میں پسندیدگی کی وجہ بھی اس کا پرسنل چارم اور ھیروازم کا اظہار ھے۔۔ لیکن سیاسی لیڈرشپ اور وژن میں وہ ناپختہ اور پروکریسسٹینیشن کا شکار ھے۔۔اور اسی وجہ سے آج پارٹی پر روائتی سرمایہ دار اور جاگیردار ذہن کا قبضہ ھو رہا ھے۔۔ اور کئی معاملات دیکھ کر لوگ پارتی سے اپنی وابستگی پر نظر ثانی کر رھے ھین