Sohraab
Prime Minister (20k+ posts)

اسلام آباد میں جاری عمران خان کے دھرنے کو ایک عشرہ ہو چلا ہے۔ابھی تک انہوں نے پایا تو کچھ نہیں البتہ کھو بہت کچھ دیا ہے۔اگرچہ ریڈ زون میں واقع ڈی چوک پر عمران خان اب بھی وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کی دھمکیاں دینے اور اپنے کارکنوں کو ہر روز نت نئی خوشخبریاں دے کر انکا حوصلہ بڑھانے کی بھر پور کوششیں کر رہے ہیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اب گیم انکے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور اس وقت انکی حالت ایک لٹے ہوئے جواری سے کم نہیںجو اپنی ساری جمع پونجی لٹا چکا ہے اور اب تقدیر کا ماتم کر رہاہے۔
بد قسمتی سے عمران کو اس حال تک پہنچانے میں چوہدری برادران اور شیخ رشید کے علاوہ انکے کچھ دوست اور بہی خواہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اسکو باور کرایا کہ چونکہ حکومت اور فوج کے مابین دوریاں پیدا ہو چکی ہیںاس لئے اس موقع کو غنیمت جان کر لانگ مارچ کے ذریعے حکومت پر کاری ضرب لگائی جائے ۔انہوں نے عمران خان کو دن رات سبز باغ دکھائے کہ جونہی اسکا مارچ ریڈ زون میں داخل ہو گا تو نہ صرف فوج امن و امان کا بہانہ بنا کر جلد حکومت کی بساط لپیٹ دے گی بلکہ پیپلز پارٹی سمیت کچھ سیاسی جماعتیں بھی تحریک انصاف کا ساتھ دیں گی ۔یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے نہایت وثوق سے اعلان کر ڈالا کہ اسکے لانگ مارچ میں دس لاکھ افراد شریک ہونگے جبکہ موٹر سائیکلوں کی تعداد ایک لاکھ ہو گی مگر جب لانگ مارچ زمان پارک سے روانہ ہوا تو کارکنوں کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ نہ تھی جبکہ موٹر سائیکل صرف 272شریک تھے۔اسی وجہ سے لانگ مارچ ساری رات صرف لاہور شہر کا ہی طواف کرتا رہا شاید لوگوں کا انتظار کیا جاتا رہا۔
جب مارچ گوجرانوالہ پہنچا تو وہاں بھی شہر میں آٹھ گھنٹے صرف کر دیئے گئے کہ شاید لانگ مارچ کا حجم بڑا ہو جائے۔اسلام آباد پہنچ کر کپتان نے نواز شریف کو دھمکی دی کہ وہ فوراً اپنے استعفی اور اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کریں ورنہ اسکا سونامی حکومت کو بہا کر لے جائے گا۔عمران خان کو اسلام آباد بھیجنے والی قوتوں نے طاہر القادری کو بھی ایک ہی تاریخ اور ایک ہی وقت پر لاہور سے روانہ کیااور اسلام آباد میں دونوں کا پڑاؤ بھی ساتھ ساتھ کرایاتاکہ حکومت پر دو طرفہ دباؤ ڈالا جا سکے مگر حکومت چونکہ ان سازشی قوتوں سے پوری طرح خبردار ہو چکی تھی جو ملک میں انتشار و افتراق کی کیفیت پیدا کر کے فوج کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے اس لئے حکومت نے نہات فراست اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لانگ مارچ کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا اوردونوں جماعتوں کو کھلی آزادی دے دی۔ چنانچہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے خو ب گرجنے برسنے کے باوجود بھی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور نہ ہی فوج نے کوئی نوٹس لیا تو عمران خان انتہائی اقدام پر اتر آئے اور سول نا فرمانی کا اعلان کر ڈالا مگر انکے اس فیصلے کو تاجروں،پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی رہنماؤں،وکلاء اور سول سوسائٹی نے یکسر مسترد کر دیا تو عمران خان اور طاہرالقادری کو مشورہ دیا گیا کہ اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے اب وہ ریڈ زون کی طرف کوچ کریں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ حکومت انکو روکنے کیلئے بھر پور طاقت کا استعمال کرے گی اور اس طرح فوج کو مداخلت کا موقع مل جائے گا۔یوں نواز حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
چنانچہ رات کی تاریکی میں ایک ہی وقت پر دونوں جماعتوں کی طرف سے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ ریڈ زون پر دھاوا بولا گیا اور عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ اسکی اگلی منزل وزیراعظم ہاؤس ہو گی مگر اس اعلان کو ابھی چند لمحے ہی گذرے تھے کہ فوج کے ادارے محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے بیان آ گیا کہ ریڈ زون میں واقع تمام سرکاری عمارات اسٹیٹ کی علامت ہیں جنکی نگرانی فوج کر رہی ہے اس لئے ان سرکاری عمارات کا احترام کیا جائے۔فوج کی طرف سے کپتان اور علامہ کو واضح وارننگ تھی کہ اگر کسی نے وزیراعظم ہاؤس یا پارلیمنٹ ہاؤس کا رخ کیا تو پھر فوج خاموش نہیں رہے گی۔یہی وجہ تھی کہ اگلے دن کپتان نے وزیراعظم ہاؤس جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور علامہ نے بھی اپنے کارکنوں کو پالیمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کرنے سے روک دیا۔ریڈ زون پہنچنے کے باوجود بھی جب نہ فوج آئی اور نہ ہی حکومت رخصت ہوئی تو کارکنوں میں مایوسی بڑھنے لگی تو عمران خان نے انکی دلجوئی کیلئے اسٹیج پر ایک اور خوشخبری سنا دی کہ 23اگست کی شام کو ایمپائر نواز شریف کو آؤٹ قرار دے دے گا۔عمران کی اس خوش فہمی کی وجہ آصف زرداری کی پاکستان آمد تھی جنکے متعلق انکو پورا یقین تھا کہ آصف زرداری انکے مطالبے کی حمایت کریں گے جس سے فوج پر پریشر بڑھے گا اور وہ نوازشریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کرے گی مگر عمران خان کی یہ خوش فہمی حقیقت کا روپ نہ دھار سکی اور پوری دنیا نے دیکھا کہ زرداری نے رائیونڈ جا کر نہ صرف نوازشریف کی حمایت کی بلکہ انکو استعفیٰ دینے سے بھی منع کیا۔عمران خان کو لانگ مارچ سے پہلے جو سپنے دکھائے گئے تھے وہ ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں ۔
وہ حکومت کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکے البتہ انکا اپنا بہت کچھ بگڑ چکا ہے ۔پارلیمنٹ میں انکے خلاف تمام جماعتیں متحد ہو چکی ہیں۔وکلاء اور سول سوسائٹی انکے مطالبے کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے ۔استعفوں کے مسئلے پر انکی اپنی جماعت میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور اس وقت 11اراکین پر مشتمل ایک فارورڈ گروپ وجود میں آچکا ہے جو انکی جماعت کا شیرازہ بکھیرنے کیلئے کافی ہے۔انکی خیبر پختونخواہ حکومت کو عدم اعتماد کا سامنا ہے ۔یوں عمران خان کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی ،انکی نا عاقبت اندیشی اور کچھ اپنوں کی سازشوں کی وجہ سے انکی جماعت کو شدید خطرات لا حق ہو گئے ہیں اور عمران نے اب بھی کوئی عزت کا راستہ تلاش نہ کیا تو انکی لڑکھڑاتی سیاست جلد ہی دم توڑ جائے گی۔
Last edited by a moderator: