مملکت خداد کے بہت بڑے ادارے کا سربراہ ۔جس کی کوئی کولی فیکشن تو بہت دور کی بات ،رنگت شکل صورت تو چلو مان لیتے اللہ نے دی ہوئی ہے مگر اس صورت اور شکل کو انسان اپنے عادات و اطوار سے خود بگاڑتا بھی ہے اور سنوارتا بھی ہے ۔مگر اس بندے کو نہ بیٹھنے کا طریقہ اتا ہے نہ بولنے کا طریقہ اور بات ،بات پہ ہاتھوں سے خلا میں دائرے بنانا تو شریف فیملی کی عاداتیں ہے ۔کیونکہ وہ شریفوں کا کوئی اولاد تو نہیں مگر یہاں بھی وہ پٹواریوں کی طرح انکھیں بند کر رکے صرف کاپی کررہا ہے۔نہ ہی اس میں تمیز ہے نہ ہی خیا اور رہی شرم کی بات تو وہ ویسے بھی پٹواریوں کی طرح گھر میں شرم رکھ کر باہر نکلتا ہے۔پھر بھی اتنےبڑے ادارے کا سربراہ بنانا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ پاکستان میں نام کی جمہوریت ہے ۔ورنہ اصل میں تو بادشاہت ہے وہ بھی اخری مغلیہ فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی طرح لیکن یہ بات علیحدہ ہے کہ یہ ظفر کی طرح بد بحت کب بنے نگے