میری عقل ناقص کے حساب سے ان عالمی مالیاتی اداروں نے جو قرض ہمیں بجلی کے منصوبوں کے لیئے دینے ہیں، انکا مسئلہ ہے۔ یہ نہیں کہ باقی کے جو قرضے ملنے ہیں وہ بھی بند ہوجائیں گے۔
سی پیک پر کام کی رفتار کم ہونے کی وجہ بھی آئی ایم ایف ہی ہے، جس نے پچھلی مرتبہ قرضہ دیتے ہوئے شرط رکھی تھی کہ پاکستان کو سی پیک کی مد میں مزید قرضے لینے سے اجتناب کرنا چاہیئے، ورنہ حکومت پر اتنے قرضے ہوجائیں گے کہ اتارنے مشکل ہونگے۔
پھر یہ بات درست ہے کہ عمر ایوّب صاحب اتنے عرصے اس وزارت میں بیٹھے شائد مکھیاں مارتے رہے ہیں۔ حفیظ شیخ نے سونے پر سہاگہ چڑھایا، مطلب کہ گردشی قرضے بڑھاتے گئے مگر آئی ایم ایف کے قرض کی واپسی کے لیئے پاکستان کی ہڈیوں میں سے گودا بھی نکال لیا۔
بہرحال، صورتحال ابھی بھی قابو سے باہر نہیں ہوئی۔ حکومت کو ایک مرتبہ کڑوا گھونٹ بھر کر گردشی قرضے کو کم از کم پچیس سے چالیس فیصد تک کم کرنا ہوگا اور ساتھ ہی پاور سیکٹر کے پراجیکٹس کے شئیر مارکیٹ میں دے دیں، تاکہ پرائیویٹ سیکٹر سے قرض نہیں، بلکہ شراکت داری کی بنیاد پر انویسٹمنٹ آجائے۔ پھر آپکو ان پراجیکٹس کے لیئے نہ تو اتنے قرضے درکار ہونگے اور گردشی قرضہ کم ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بڑھے گا۔
وگرنہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت اب دوبارہ بجلی کے نرخ اس طرح بڑھائے گی تو مہنگائی کا وہ طوفان کھڑا ہوگا کہ یہ اپنی حکومت کے چوتھے سال ہی گھر بھیج دیئے جائینگے۔