Raaz
(50k+ posts) بابائے فورم
[HI]This is the right person but no one is listening......[/HI](clap)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ پاکستان کو بچانے کے لیے سرائیکی، بہاولپور اور ہزارہ سمیت مزید صوبے بنائیں اور میاں نواز شریف کو ضیاءالحق سے تعاون اور پرویز مشرف سے معافی مانگ کر ملک سے باہر جانے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
یہ بات انہوں نے جمعرات کو قومی اسمبلی میں صدر آصف علی زرداری کے پارلیمان سے خطاب پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی آبادی دس کروڑ ہوگئی ہے اور انتظامی طور پر ممکن ہی نہیں کہ ایک انسپیکٹر جنرل پولیس اور چیف سیکریٹری عوام کو سہولت دے سکیں۔
مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ ‘صوبے بنانا کوئی گناہ نہیں ۔۔ہمیں پنجاب سے زیادہ پاکستان پیارا ہے۔۔ سرائیکی، بہاولپور اور پوٹوہار صوبے بننے چاہیے۔ ’پنجاب کے بڑے صوبے ہونے کی وجہ سے ہی مارشل لا لگتے ہیں کیونکہ فوج میں اکثریت پنجاب کی ہے اور وہ ان کے خلاف نہیں اٹھتے۔ ان کے بقول صوبہ خیبر پختونخواہ کا بھی فوج میں حصہ ہے لیکن بلوچستان اور سندھ بھگتے ہیں۔
’ہم نے ملک توڑ دیا لیکن بنگالیوں کا مطالبہ نہیں مانا۔۔ بلوچستان میں بھی حالات خراب ہیں اور چند برسوں میں وہاں خون کی ندیاں بہیں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ضیاءالحق کی کابینہ میں شمولیت پر وہ آج تک شرمندہ ہیں اور وہ اس غلطی پر پوری قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کے قائد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے بھی کہتے ہیں کہ وہ ضیاءالحق سے سیاسی تعاون اور پرویز مشرف سے سزا معاف کرواکر دس برس کے لیے باہر چلے جانے پر قوم سے معافی مانگیں۔
جاوید ہاشمی کے اس مطالبے پر اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان جو اپنے چیمبر میں بیٹھے تھے وہ تیز تیز چلتے ہوئے ایوان میں آئے اور اپنی جماعت کے خواجہ آصف اور سردار مہتاب عباسی سے کھسر پسر کی اور ایوان سے باہر چلے گئے۔ بظاہر ایسا لگا کہ وہ شہباز شریف کو رپورٹ دینے گئے ہیں۔
جاوید ہاشمی نے میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران پارٹی کو سنبھالا اور پرویز مشرف پر کڑی تنقید کی وجہ سے بغاوت کے مقدمے میں جیل چلے گئے۔ اس دوران چوہدری نثار علی خان اپنے گھر میں نظر بند رہے۔ جب سنہ دو ہزار آٹھ میں انتخابات ہوئے تو جاوید ہاشمی کے بجائے پارٹی میں چوہدری نثار کی اہمیت بڑھ گئی اور ہاشمی پیچھے چلے گئے۔ ان کے بعض ساتھیوں کے بقول پارٹی میں نظر انداز کیے جانے پر انہیں گزشتہ برس برین ہیمرج ہوگیا۔
جاوید ہاشمی جو آج کل بھی کافی کمزور ہیں انہوں نے اپنی لرزتی آواز میں چوہدری نثار اور خواجہ آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے اپنی پارٹی نے کہا کہ مشرف سے حلف لیں اور وزیر بنیں، میں نے انکار کیا اور کہا کہ میں مر جاؤں گا مشرف سے حلف نہیں لوں گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سرائیکی علاقے میں لوگ کہتے ہیں کہ جب رائےونڈ (شریف برادران کی رہائش گاہ) کی ایک سڑک پر دس دس ارب روپے خرچ ہوں گے تو دوسرے علاقوں کا کیا بنے گا؟۔
انہوں نے کہا کہ وہ والدین کے بعد اگر کسی کی موت پر زیادہ روئے ہیں تو وہ بینظیر بھٹو کے قتل پر روئے اور آج تک وہ انہیں یاد کرکے رو پڑتے ہیں۔ ’میں بھٹو کو شہید مانتا ہوں اور بینظیر بھٹو بھی شہید ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں صدر آصف علی زرداری کی سیاست سمجھ نہیں آتی اور اس کے لیے انہیں پی ایچ ڈی کرنی پڑے گی۔ ’میں اپنی جماعت کی قیادت سے بھی یہی کہتا رہا اور آج دیکھیں کون کہاں ہیں۔‘
ملتان کے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ جس بھی سیاسی جماعت کے رہنما کی بیرون ملک ملکیت اور بینک اکاؤنٹ ہیں وہ پاکستان میں لائیں یا پھر پاکستان کی قیادت چھوڑ دیں۔ ان کی تقریر کے دوران ایوان کی دونوں جانب تمام جماعتوں کے ارکان ڈیسک بجاتے رہے۔
اپنی جماعت کی قیادت پر ہلکی پھلکی تنقید کے بعد انہوں نے کہا کہ پہلے کبھی پارٹی کو ٹکٹ کے لیے کہا اور نہ اب کہیں گے۔ ’ بھلا ہوا میری گھگری پھوٹی میں پانیہ بھرن سے چھوٹی۔‘
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پر بحث کے دوران جاوید ہاشمی کی تقریر کا جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن نے کہا کہ ان کی دعا ہے کہ جاوید ہاشمی کی سوچ ان کی جماعت کی بھی ہوجائے۔ انہوں نے جاوید ہاشمی کو اپنی قیادت پر تنقید کے حوالے سے مشورہ دیتے ہوئے کہا‘ زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لیے۔۔ عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں’۔
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو رائےونڈ میں قید کیا گیا ہے اور انہیں اسمبلی میں آنے نہیں دیا جاتا۔’ہم پر تنقید ہوتی ہے کہ امریکہ سے ڈکٹیشن لیتے ہیں لیکن کوئی سعودی عرب کی معرفت امریکی ڈکٹیشن لیتا ہے۔۔ کاش کوئی سعودی عرب سے کہے کہ پیغام رسانی بند کرو۔‘
[HI]انہوں نے پنجاب حکومت پر سستی روٹی کے تندور قائم کرنے پر کافی تنقید کی اور طنز کیا کہ لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کا انتخابی نشان بھی تندور ہوگا۔ ‘انہوں نے تین سال تندور پر لگادیے، گڈ گورننس، احستاب، پی سی او جج، میثاق جمہوریت سمیت ان کا سب کچھ تندور ہے۔جس پر ایوان میں قہقہہ پڑ گیا اور خود مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی ہنستے رہے۔[/HI]
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/04/110421_javed_tirade_fz.shtmlیہ بات انہوں نے جمعرات کو قومی اسمبلی میں صدر آصف علی زرداری کے پارلیمان سے خطاب پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی آبادی دس کروڑ ہوگئی ہے اور انتظامی طور پر ممکن ہی نہیں کہ ایک انسپیکٹر جنرل پولیس اور چیف سیکریٹری عوام کو سہولت دے سکیں۔
مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ ‘صوبے بنانا کوئی گناہ نہیں ۔۔ہمیں پنجاب سے زیادہ پاکستان پیارا ہے۔۔ سرائیکی، بہاولپور اور پوٹوہار صوبے بننے چاہیے۔ ’پنجاب کے بڑے صوبے ہونے کی وجہ سے ہی مارشل لا لگتے ہیں کیونکہ فوج میں اکثریت پنجاب کی ہے اور وہ ان کے خلاف نہیں اٹھتے۔ ان کے بقول صوبہ خیبر پختونخواہ کا بھی فوج میں حصہ ہے لیکن بلوچستان اور سندھ بھگتے ہیں۔
’ہم نے ملک توڑ دیا لیکن بنگالیوں کا مطالبہ نہیں مانا۔۔ بلوچستان میں بھی حالات خراب ہیں اور چند برسوں میں وہاں خون کی ندیاں بہیں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ضیاءالحق کی کابینہ میں شمولیت پر وہ آج تک شرمندہ ہیں اور وہ اس غلطی پر پوری قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کے قائد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے بھی کہتے ہیں کہ وہ ضیاءالحق سے سیاسی تعاون اور پرویز مشرف سے سزا معاف کرواکر دس برس کے لیے باہر چلے جانے پر قوم سے معافی مانگیں۔
جاوید ہاشمی کے اس مطالبے پر اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان جو اپنے چیمبر میں بیٹھے تھے وہ تیز تیز چلتے ہوئے ایوان میں آئے اور اپنی جماعت کے خواجہ آصف اور سردار مہتاب عباسی سے کھسر پسر کی اور ایوان سے باہر چلے گئے۔ بظاہر ایسا لگا کہ وہ شہباز شریف کو رپورٹ دینے گئے ہیں۔
جاوید ہاشمی نے میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران پارٹی کو سنبھالا اور پرویز مشرف پر کڑی تنقید کی وجہ سے بغاوت کے مقدمے میں جیل چلے گئے۔ اس دوران چوہدری نثار علی خان اپنے گھر میں نظر بند رہے۔ جب سنہ دو ہزار آٹھ میں انتخابات ہوئے تو جاوید ہاشمی کے بجائے پارٹی میں چوہدری نثار کی اہمیت بڑھ گئی اور ہاشمی پیچھے چلے گئے۔ ان کے بعض ساتھیوں کے بقول پارٹی میں نظر انداز کیے جانے پر انہیں گزشتہ برس برین ہیمرج ہوگیا۔
جاوید ہاشمی جو آج کل بھی کافی کمزور ہیں انہوں نے اپنی لرزتی آواز میں چوہدری نثار اور خواجہ آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے اپنی پارٹی نے کہا کہ مشرف سے حلف لیں اور وزیر بنیں، میں نے انکار کیا اور کہا کہ میں مر جاؤں گا مشرف سے حلف نہیں لوں گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سرائیکی علاقے میں لوگ کہتے ہیں کہ جب رائےونڈ (شریف برادران کی رہائش گاہ) کی ایک سڑک پر دس دس ارب روپے خرچ ہوں گے تو دوسرے علاقوں کا کیا بنے گا؟۔
انہوں نے کہا کہ وہ والدین کے بعد اگر کسی کی موت پر زیادہ روئے ہیں تو وہ بینظیر بھٹو کے قتل پر روئے اور آج تک وہ انہیں یاد کرکے رو پڑتے ہیں۔ ’میں بھٹو کو شہید مانتا ہوں اور بینظیر بھٹو بھی شہید ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں صدر آصف علی زرداری کی سیاست سمجھ نہیں آتی اور اس کے لیے انہیں پی ایچ ڈی کرنی پڑے گی۔ ’میں اپنی جماعت کی قیادت سے بھی یہی کہتا رہا اور آج دیکھیں کون کہاں ہیں۔‘
ملتان کے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ جس بھی سیاسی جماعت کے رہنما کی بیرون ملک ملکیت اور بینک اکاؤنٹ ہیں وہ پاکستان میں لائیں یا پھر پاکستان کی قیادت چھوڑ دیں۔ ان کی تقریر کے دوران ایوان کی دونوں جانب تمام جماعتوں کے ارکان ڈیسک بجاتے رہے۔
اپنی جماعت کی قیادت پر ہلکی پھلکی تنقید کے بعد انہوں نے کہا کہ پہلے کبھی پارٹی کو ٹکٹ کے لیے کہا اور نہ اب کہیں گے۔ ’ بھلا ہوا میری گھگری پھوٹی میں پانیہ بھرن سے چھوٹی۔‘
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پر بحث کے دوران جاوید ہاشمی کی تقریر کا جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن نے کہا کہ ان کی دعا ہے کہ جاوید ہاشمی کی سوچ ان کی جماعت کی بھی ہوجائے۔ انہوں نے جاوید ہاشمی کو اپنی قیادت پر تنقید کے حوالے سے مشورہ دیتے ہوئے کہا‘ زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لیے۔۔ عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں’۔
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو رائےونڈ میں قید کیا گیا ہے اور انہیں اسمبلی میں آنے نہیں دیا جاتا۔’ہم پر تنقید ہوتی ہے کہ امریکہ سے ڈکٹیشن لیتے ہیں لیکن کوئی سعودی عرب کی معرفت امریکی ڈکٹیشن لیتا ہے۔۔ کاش کوئی سعودی عرب سے کہے کہ پیغام رسانی بند کرو۔‘
[HI]انہوں نے پنجاب حکومت پر سستی روٹی کے تندور قائم کرنے پر کافی تنقید کی اور طنز کیا کہ لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کا انتخابی نشان بھی تندور ہوگا۔ ‘انہوں نے تین سال تندور پر لگادیے، گڈ گورننس، احستاب، پی سی او جج، میثاق جمہوریت سمیت ان کا سب کچھ تندور ہے۔جس پر ایوان میں قہقہہ پڑ گیا اور خود مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی ہنستے رہے۔[/HI]
Last edited: