Hunain Khalid
Chief Minister (5k+ posts)
کچھ انھے واہ قسم کے دیسی لبرل دوست پختونخواہ حکومت پر تنقید کررہے ہیں کہ مدارس کے لیے تین سو ملین کی رقم بجٹ میں کیوں مختص کی گئی ہے۔ کئی تو اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ یہ طالبان پالنے کا نسخہ ہے۔
بظاہر ہمارے دیسی لبرل دوست کافی پڑھے لکھے اور صاحب مطالعہ ہوتے ہیں۔ لیکن جب تجزیہ کرتے ہیں تو کسی چیتھڑا اخبار کے اداریہ نویس کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
بات بالکل سیدھی سی ہے۔ جو شخص ریاست کا شہری ہے اور کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس دیتا ہے، اس کا بجٹ پر بھی حق ہے۔ دینی مدارس کے طلبا اور اساتذہ کیا وہی ان ڈائریکٹ ٹیکسز ادا نہیں کرتے جو باقی پاکستانی دیتے ہیں؟ پھر بجٹ پر ان کا حق کیوں نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے لیے بجٹ مختص کرنا انتہا پسندی میں کمی کا باعث بنے گا۔ مدارس اور مساجد جب تک ریاستی نظم کے ماتحت نہیں ہوں گے، وہاں کچھ اور ہی طرح کی کھچڑی پکتی رہے گی۔ اگر ان لوگوں کو مرکزی دھارے کا حصہ بنانا ہے تو ان کے ساتھ شودروں والا سلوک روکنا ہوگا۔ دنیا کی تمام متمدن ریاستیں مذہبی اداروں پر کسی نہ کسی شکل میں پیسے لگاتی ہیں کہ یہ ریگولیشن کی بنیاد ہوتی ہے۔
جرمنی کی قریب قریب تمام یونیورسٹیوں میں آج بھی کیتھولک اور پروٹسنٹ تھیالوجی کی فیکلٹیز قائم ہیں۔ یورپ کے بیشتر ممالک چرچ کی مالی سرپرستی کرتے ہیں۔ چین کی ملحد حکومت بھی مذہبی اداروں کی ذمہ داری سے عاری نہیں۔
لیکن ہمارے دیسی لبرلز کا باوا آدم نرالا ہے۔ اگر پہلی دفعہ مذہبی اداروں کے لیے بجٹ رکھا گیا ہے تو اس میں انہوں نے نقائص نکال لیے ہیں اور بغیر سانس لیے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ صرف مدارس ہی نہیں، غیر مسلموں کے مذہبی ادارے بھی ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ اگلے بجٹ میں پختونخواہ حکومت کو مسیحی، سکھ ، ہندو، بدھ اور دیگر مذاہب کے اداروں کے لیے بھی بقدر استطاعت بجٹ رکھنا چاہیے۔ اس سے نفرتیں پھیلیں گی نہیں، بلکہ کم ہوں گی۔
(yapping)