Mafialeaks
Politcal Worker (100+ posts)
جنرل صاحب آج زرا ہمیں بھی یہ راز بتا دیں کہ دو ڈھائی لاکھ ماہانہ تنخواہ میں آپ اپنے بچوں کو کیسے برطانیہ یا امریکہ کی مہنگی یونیورسٹیوں میں پڑھا لیتے ہیں?
جنرل.جہانگیر کرامت کے بچے دوران سروس امریکہ میں پڑھ رہے تھے اور ریٹائر ہوتے ہے وہ صاحب خود بھی امریکہ سیٹل ہو گئے. اسی طرح جنرل کیانی کے سارے بچے آسٹریلیا میں پڑھ رہے تھے اور ریٹائر ہونے کے فوری بعد موصوف خود بھی آسٹریلیا سدھار گئے. جنرل حمید گل کے صاحبزادے بھی امریکہ میں پڑھے اور اب بھی وہیں رہتے ہیں. جنرل ضیاء کے پوتے اور نواسے بھی امریکہ میں پڑھتے اور رہتے ہیں. مشرف کا بیٹا تو امریکہ میں کافی بڑا کاروبار چلا رہا ہے. اس کے علاوہ ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب اور افغان جہاد کے ماسٹر مائنڈ جنرل اختر عبرالرحمن کے بیٹے ہمایوں اختر امریکہ میں پڑھے اور آجکل ملک میں پیپسی کی فرنچائز اور کئی ٹیکسٹائل اور شوگر ملیں چلا رہے ہیں. یہ وہ ہیں جن کے بارے میں مختلف خبروں کے زریعے پتا چلا. باقی کس جرنیل کے بچے کہاں پڑھتے ہیں اگر کسی کو پتہ ہو تو ہماری معلومات میں اضافہ کر دے.
چلیں زرا حساب لگاتے ہیں کہ ایک بچے کو امریکہ یا برطانیہ میں پڑھا نے کا خرچہ کتنا ہوتا ہے.
امریکہ یا برطانیہ کی عام یونیورسٹیوں کی فیس کم از کم دس سے پندرہ ہزار ڈالر فی سیمسٹر ہوتی ہے جو کہ سالانہ چالیس سے پچاس ہزار ڈالر بنتی ہے. اس کے علاوہ سٹوڈنٹ کی رہائش, کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کا خرچہ کم از کم ڈیڑھ سے دو ہزار ڈالر ماہانہ یعنی چالیس سے پچاس ہزار ڈالر سالانہ بنتا ہے. کل ملا کر وہاں رہنے اور پڑھنے کا خرچہ کم از کم ایک لاکھ ڈالر یعنی ڈیڑھ کروڑ پاکستانی روپے سالانہ اور چار سال کا کل خرچہ چھ کروڑ روپے بنتا ہے. اور یہ عام یونیورسٹیوں کا خرچہ ہے جبکہ ظاہر ہے جنرل صاحب کا بیٹا کسی عام یونیورسٹی میں تو پڑھے گا نہیں. مزید یہ کہ امریکہ یا برطانیہ جانے پر ویزا, ریٹرن ٹکٹ اور رہائش پر کم از کم آٹھ دس لاکھ روپے تو لگتے ہی ہیں. چلیں بچے کو بھیج دیا ٹھیک ہے لیکن یہ دس لاکھ خرچ کر کے وہاں خود جا کر سیلفی بنوانا کچھ فضول خرچی نہیں?
عجیب بات ہے کہ ستر سال ڈائریکٹلی اور انڈائریکٹلی جرنیل اس ملک پر حکومت کرتے رہے ہیں. چلیں مان لیا سیاستدان نا اہل ہیں لیکن کم از کم جرنیل ہی اس ملک میں کوئی ایسی یونیورسٹی بنوا دیتے جو اس قابل ہوتی کہ وہاں دیگر جرنیلوں کے بچے پڑھ سکتے.
ویسے اگر دیکھا جائے تو NDU سمیت فوج کی اپنی کئی یونیورسٹیاں ہیں اور اس کے علاوہ NUST جیسی کئی یونیورسٹیاں ہیں جہاں ریٹائرڈ اور حاضر سروس بریگیڈیئر اور جرنیل ریکٹر لگ جاتے ہیں اور پھر وہاں بوٹ پالشیئوں کی نئی کھیپ تیار کرتے ہیں لیکن شاید وہ تمام یونیورسٹیاں اس قابل نہیں کہ جرنیلوں کے بچے وہاں پڑھ سکیں.
نیب والوں کی اور ججوں کی تو ایجنسیوں نے وڈیوز بنا کر رکھی ہوئی ہیں اس لیئے ان کی جرات نہیں کہ وہ پوچھ سکیں کہ محدود آمدن میں جرنیل صاحب لا محدود خرچے کیسے کر رہے ہیں.
بائیس کروڑ عوام کو بھیڑ بکریوں کا ایسا ریوڑ بنا دیا گیا ہے جس کے ذہن میں ایسے سوالات آ ہی نہیں سکتے. لہذا ہم ہی پوچھ لیتے ہیں.
اگر قومی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو تو کوئی دوست ہماری راہنمائی کردے کہ دو یا تین لاکھ پاکستانی روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے جرنیل کیسے اپنے بچوں کو باہر ان مہنگی یونیورسٹیوں میں پڑھا لیتے ہیں. ?
جنرل.جہانگیر کرامت کے بچے دوران سروس امریکہ میں پڑھ رہے تھے اور ریٹائر ہوتے ہے وہ صاحب خود بھی امریکہ سیٹل ہو گئے. اسی طرح جنرل کیانی کے سارے بچے آسٹریلیا میں پڑھ رہے تھے اور ریٹائر ہونے کے فوری بعد موصوف خود بھی آسٹریلیا سدھار گئے. جنرل حمید گل کے صاحبزادے بھی امریکہ میں پڑھے اور اب بھی وہیں رہتے ہیں. جنرل ضیاء کے پوتے اور نواسے بھی امریکہ میں پڑھتے اور رہتے ہیں. مشرف کا بیٹا تو امریکہ میں کافی بڑا کاروبار چلا رہا ہے. اس کے علاوہ ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب اور افغان جہاد کے ماسٹر مائنڈ جنرل اختر عبرالرحمن کے بیٹے ہمایوں اختر امریکہ میں پڑھے اور آجکل ملک میں پیپسی کی فرنچائز اور کئی ٹیکسٹائل اور شوگر ملیں چلا رہے ہیں. یہ وہ ہیں جن کے بارے میں مختلف خبروں کے زریعے پتا چلا. باقی کس جرنیل کے بچے کہاں پڑھتے ہیں اگر کسی کو پتہ ہو تو ہماری معلومات میں اضافہ کر دے.
چلیں زرا حساب لگاتے ہیں کہ ایک بچے کو امریکہ یا برطانیہ میں پڑھا نے کا خرچہ کتنا ہوتا ہے.
امریکہ یا برطانیہ کی عام یونیورسٹیوں کی فیس کم از کم دس سے پندرہ ہزار ڈالر فی سیمسٹر ہوتی ہے جو کہ سالانہ چالیس سے پچاس ہزار ڈالر بنتی ہے. اس کے علاوہ سٹوڈنٹ کی رہائش, کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کا خرچہ کم از کم ڈیڑھ سے دو ہزار ڈالر ماہانہ یعنی چالیس سے پچاس ہزار ڈالر سالانہ بنتا ہے. کل ملا کر وہاں رہنے اور پڑھنے کا خرچہ کم از کم ایک لاکھ ڈالر یعنی ڈیڑھ کروڑ پاکستانی روپے سالانہ اور چار سال کا کل خرچہ چھ کروڑ روپے بنتا ہے. اور یہ عام یونیورسٹیوں کا خرچہ ہے جبکہ ظاہر ہے جنرل صاحب کا بیٹا کسی عام یونیورسٹی میں تو پڑھے گا نہیں. مزید یہ کہ امریکہ یا برطانیہ جانے پر ویزا, ریٹرن ٹکٹ اور رہائش پر کم از کم آٹھ دس لاکھ روپے تو لگتے ہی ہیں. چلیں بچے کو بھیج دیا ٹھیک ہے لیکن یہ دس لاکھ خرچ کر کے وہاں خود جا کر سیلفی بنوانا کچھ فضول خرچی نہیں?
عجیب بات ہے کہ ستر سال ڈائریکٹلی اور انڈائریکٹلی جرنیل اس ملک پر حکومت کرتے رہے ہیں. چلیں مان لیا سیاستدان نا اہل ہیں لیکن کم از کم جرنیل ہی اس ملک میں کوئی ایسی یونیورسٹی بنوا دیتے جو اس قابل ہوتی کہ وہاں دیگر جرنیلوں کے بچے پڑھ سکتے.
ویسے اگر دیکھا جائے تو NDU سمیت فوج کی اپنی کئی یونیورسٹیاں ہیں اور اس کے علاوہ NUST جیسی کئی یونیورسٹیاں ہیں جہاں ریٹائرڈ اور حاضر سروس بریگیڈیئر اور جرنیل ریکٹر لگ جاتے ہیں اور پھر وہاں بوٹ پالشیئوں کی نئی کھیپ تیار کرتے ہیں لیکن شاید وہ تمام یونیورسٹیاں اس قابل نہیں کہ جرنیلوں کے بچے وہاں پڑھ سکیں.
نیب والوں کی اور ججوں کی تو ایجنسیوں نے وڈیوز بنا کر رکھی ہوئی ہیں اس لیئے ان کی جرات نہیں کہ وہ پوچھ سکیں کہ محدود آمدن میں جرنیل صاحب لا محدود خرچے کیسے کر رہے ہیں.
بائیس کروڑ عوام کو بھیڑ بکریوں کا ایسا ریوڑ بنا دیا گیا ہے جس کے ذہن میں ایسے سوالات آ ہی نہیں سکتے. لہذا ہم ہی پوچھ لیتے ہیں.
اگر قومی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو تو کوئی دوست ہماری راہنمائی کردے کہ دو یا تین لاکھ پاکستانی روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے جرنیل کیسے اپنے بچوں کو باہر ان مہنگی یونیورسٹیوں میں پڑھا لیتے ہیں. ?