Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
یوں تو ہر صحافی کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف چیلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن جیونیوزکے 53سالہ اینکر پرسن، صحافی اور کالم نگار، حامد میر کی تو پوری پیشہ ورانہ زندگی ہی چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے گزر رہی ہے۔ افغانستان کے غاروں میں اُسامہ بن لادن کا انٹرویو ہو یا نیوزی لینڈ میں نیلسن منڈیلا سے خصوصی ملاقات، بیروت میں بم باری کے درمیان رپورٹنگ ہو یا غزہ میں اسرائیلی ٹینکس کی گولا باری کی کوریج، اُنہوں نے جان پر کھیل کر ناظرین اور قارئین کو حالات سے باخبر رکھا۔ کئی بار موت اُنہیں چُھو کر گزری، صرف یہی نہیں اور بھی کئی حوالوں سے وہ میڈیا میں بحث، مباحثے کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کا ایک تقریب کے سلسلے میں لاہور آنا ہوا، تو اُن سے ذاتی و خاندانی حالات، صحافتی سفر، اچیومنٹس، مشکلات اور مُلکی سیاسی و سماجی معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی، جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔
س: میر صاحب یہ تو علم ہے کہ آپ پکّے لاہوری ہیں، مگر پھر بھی اپنے اور خاندان کے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: مَیں لاہور میں 23جولائی1966ء کو پیدا ہوا۔ اُس وقت میرے والد، پروفیسر وارث میر مسلم ٹائون میں مولانا عبدالمجید سالک( مرحوم) کے گھر کے ایک پوریشن میں بہ طور کرائے دار مقیم تھے۔ میری پوری تعلیم لاہور ہی میں مکمل ہوئی۔ پنجاب یونی ورسٹی لیبارٹری اسکول نیوکیمپس سے مڈل، سینٹرل ماڈل اسکول، لوئر مال سے میٹرک، سائنس کالج وحدت روڈ سے انٹر، گورنمنٹ کالج(اب یونی ورسٹی) سے بی اے اور پنجاب یونی ورسٹی سے ابلاغیات میں ایم اے کیا۔ یوں 1972 ء میں شروع ہونے والا تعلیم کا سفر 1989ء میں اختتام کو پہنچا۔ مَیں ایک اوسط درجے کا طالبِ علم تھا، کبھی فرسٹ پوزیشن نہیں لی، لیکن کبھی فیل بھی نہیں ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ تعلیم کے دَوران بھی زندگی خاصی ہنگامہ خیز رہی۔ جہاں تک فیملی بیک گرائونڈ کا تعلق ہے، میرے دادا جان، میر عبدالعزیز اُردو، فارسی اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ قیامِ پاکستان میں ہمارے خاندان نے بھی قربانیاں دیں، جمّوں سے پاکستان آتے وقت ہماری والدہ کی پوری فیملی شہید ہوگئی اور اُن کے بھائی کو تو ہندوئوں نے اُن کی آنکھوں کے سامنے شہید کیا۔ ہماری والدہ کو بھی اغوا کرلیا گیا تھا، مگر اُنہوں نے بڑی مشکل سے بھاگ کر اور لاشوں کے پیچھے چُھپ کر اپنی جان بچائی۔ شاید ان قربانیوں ہی کی وجہ سے وطن کی محبّت لاشعور میں جاگزیں ہے۔
س: آپ کے والد معروف صحافی، دانش وَر اور کالم نویس تھے، ایسے والدین تو بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجّہ دیتے ہیں؟
ج:۔ مَیں اوسط درجے کا طالبِ علم تھا، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ والد صاحب مجھ پر اور دوسرے بھائیوںپر خصوصی توجّہ نہیں دیتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے، 1971ء کی جنگ جاری تھی، جب والد صاحب مجھے اسکول میں داخل کروانے لے گئے، مَیں ضد کررہا تھا کہ اسکول نہیں جانا۔ پہلا دن رونے دھونے میں گزرا، پھر حالات سے سمجھوتا کرلیا کہ کوئی جائے فرار نہیں تھی۔ چوتھی، پانچویں میں تھا کہ مجھے اچانک کتاب لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ گھر میں تو ویسے ہی علمی ماحول تھا، دُنیا بھر کی کتابیں موجود تھیں، لیکن ایک کم سِن بچّے کے دِل میں کتاب لکھنے کا خیال اس طرح آیا کہ والد صاحب مجھے پاکستان نیشنل سینٹر، لاہور میں ہونے والے ایک سیمینار میں لے گئے، جس کا موضوع سرسیّد احمد خان تھے۔ والد صاحب نے سرسیّد کی تعلیمی خدمات کے حق میں، جب کہ ایک اور معروف مقرّر نے اُن کے خلاف تقریر کی۔ مجھے سرسیّد کی شخصیت کے بارے میں اشتیاق پیدا ہوا، یوں اُن کے بارے میں پڑھنا شروع کردیا اور پھر شاید گھر میں موجود کُتب کو دیکھ کر خیال آیا کہ کیوں نہ مَیں بھی اُن کے بارے میں ایک کتاب لکھوں۔ یہ ایک بچگانہ شوق تھا۔ مَیں نے اسکول کی کاپیوں پر ہوم ورک کے ساتھ، سرسیّد پر بھی لکھنا شروع کردیا۔ ظاہر ہے الفاظ اور خیالات ٹیڑھے میڑھے ہی تھے، لیکن مَیں تو اپنی دانست میں کتاب لکھ رہا تھا۔ جب کاپی کے صفحات ختم ہوگئے، تو میرے نزدیک کتاب بھی مکمل ہوگئی۔ ٹیچر، مِس ریحانہ احمد نے دیکھا، تو میری حوصلہ افزائی کی، وہ خود بھی اس پر بے حد حیران تھیں۔
س:والد صاحب کو علم تھا؟
ج:جی نہیں۔ مَیں نے اُن سے چُھپ چُھپا کر یہ سب لکھا تھا۔ مَیں اُس زمانے میں نوائے وقت اور مشرق میں بچّوں کے صفحات کے لیے کہانیاں بھی لکھتا تھا۔ والد صاحب سے یہ سب چُھپانے کی ایک وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ مَیں اُنھیں بتائے بغیر اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا یا یوں سمجھیں، سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ ساتویں، آٹھویں تک تو اچھا طالبِ علم تھا۔ یہی وہ دَور تھا(غالباً مَیں چھٹی جماعت میں تھا) جب مَیں نے پنجاب یونی ورسٹی کے’’ وحید شہید ہال‘‘ میں زندگی کی پہلی تقریر کی، جو والد صاحب نے لکھ کر دی تھی۔ اس سے میرے اندر تقریر کا خوف جاتا رہا۔ اس تقریر میں مولانا محمّد علی جوہر کا یہ شعر بھی تھا’’قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے… اسلام زندہ ہوتا ہے، ہر کربلا کے بعد‘‘ مَیں نے شعر تو پڑھ دیا، لیکن اسے سمجھنے میں کئی دن لگے۔
س:سُنا ہے، ایک زمانے میں کرکٹ کا شوق بھی جنون کی حد تک رہا؟
ج:ہاں۔ ساتویں، آٹھویں میں کرکٹ کھیلنے کا شوق پیدا ہوا، جو دن بہ دن بڑھتا ہی چلا گیا، حتیٰ کہ جب سینٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک کررہا تھا، تو اسکول کی کرکٹ ٹیم کا رُکن تھا۔ ایک کلب بھی جوائن کیا ہوا تھا اور پھر انڈر 19 ٹیم کا رُکن بھی بن گیا۔ ابھی کھیل کے میدان کا یہ سفر جاری ہی تھا کہ 9جولائی 1987ء کو والد صاحب کا 48برس کی عُمر میں اچانک انتقال ہوگیا۔ صدمہ تو تھا ہی، لیکن یہ ایک لحاظ سے میرے کرکٹ کیریئر کا اختتام بھی تھا۔ جس روز اُن کا انتقال ہوا، اُس روز مجھے پشاور میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں شرکت کرنا تھی، لیکن یہ خواب ادھورا رہ گیا، بلکہ زندگی ایک اور ڈگر پر چل نکلی، جس کا خود مجھے اندازہ نہ تھا کہ والد صاحب سے محروم ہونے کے بعد کتابِ زیست کے کیسے کیسے حیرت انگیز چیلنجز سامنے آئیں گے۔
س: کیسے چیلنجز…؟
ج:جن دنوں مُلک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ تھا، مَیں سینٹرل ماڈل اسکول، لاہور میں میٹرک کا طالبِ علم تھا۔ والد صاحب ترقّی پسندانہ نظریات کے حامل اور آمریت کے مخالف تھے۔ یہ گھریلو علمی و ادبی ماحول کا اثر تھا یا گھر میں ہونے والی والد صاحب کی دوسروں سے گفتگو کا نتیجہ، آمریت سے نفرت میرے لاشعور کا حصّہ بن گئی۔ ذہن شروع ہی سے تحریر و تقریر کی آزادی کا رسیا ہوگیا۔ پھر مارشل لاء کے زمانے میں عوام میں جو سیاسی اختلافات پیدا ہوئے، ہم طلبہ بھی اس کا شکار ہوگئے۔ یہ وہ دَور تھا، جب میٹرک کے طلبہ بھی آمریت کے خلاف میدان میں نکل آئے تھے۔ حکومت کے فرمان کے مطابق اسکول میں باقاعدگی سے نماز ادا ہوتی، لیکن بعدازاں بھاٹی گیٹ تھانے کے سامنے حکومت کے خلاف نعرے بھی لگتے۔ سچ پوچھیں، میرے اندر سیاسی شعور اُسی زمانے میں بیدار ہوا۔ مَیں نے دسویں جماعت میں مظاہروں کے دَوران پہلی بار پولیس کی لاٹھی کھائی اور سَر بھی زخمی ہوا۔ اُس زمانے میں جو بھی تنظیم مارشل لاء کی مخالفت کرتی، ہم اُس کے رُکن بن جاتے۔ پھر جب مَیں سائنس کالج، وحدت روڈ میں داخل ہوا، تو ان سرگرمیوں میں تیزی آگئی۔ گورنمنٹ کالج میں گریجویشن کے لیے داخل ہوا، تو زندگی کا ایک نیا دَور شروع ہوگیا۔ وہاں نصابی سرگرمیاں مدہم اور غیر نصابی سرگرمیاں(کرکٹ، سیاسی بحث مباحثے، ڈرامیٹک کلب، مدیحہ گوہر کے اجوکا تھیٹر میں اداکاری) بڑھ گئی اور پڑھائی پیچھے رہ گئی۔ زندگی میں ایک نیا عُنصر، اخبارات میں مضامین لکھنے کی صُورت سامنے آیا۔ مَیں نے اُسی زمانے میں روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کے خلاف ایک مضمون بھیجا، جو میرے نام سے چَھپ گیا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ اُسی ادارتی صفحے پر والد صاحب کا مضمون بھی شائع ہوا تھا۔ والد صاحب نے پوچھا’’ کیا یہ مضمون تم نے لکھا ہے؟‘‘ مَیں نے’’ جی ہاں‘‘ میں جواب دیا، تو اُنہوں نے حسبِ سابق نصیحت شروع کردی’’ تم صحافی بننے کی کوشش نہ کرو، کیوں کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔‘‘اُنہوں نے سیاست سے بھی دُور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کرکٹ پر توجّہ مرتکز رکھنے کا مشورہ دیا۔ اُن کا خیال تھا کہ صحافت میرے بس کی بات نہیں۔ والد صاحب اس بات پر بھی پریشان تھے کہ میرے دوستوں میں ایسے نوجوان شامل ہیں، جو حکومت کے زبردست مخالف ہیں اور کئی تو شاہی قلعے کی’’سیر‘‘ بھی کر آئے تھے۔
س: والد صاحب سیاسی اور صحافتی سرگرمیوں کے خلاف تھے، پھر صحافت کی صحرا نوردی کیسے اور کیوں کر ممکن ہوئی؟
ج:اصل میں والد صاحب کی وفات کے بعد دنیا ہی بدل گئی۔ وہ اپنی جگہ سچّے تھے۔ صحافت اور آزادیٔ صحافت کی تلخیوں سے گزر چُکے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ مَیں بھی مشکلات کا شکار ہوجائوں، کیوں کہ پاکستان میں بہرحال آزادیٔ صحافت کے لیے حالات سازگار نہیں تھے، مگر میرے اندر تو سیاسی شعور بیدار ہوچُکا تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد جب بے نظیر بھٹّو صاحبہ تعزیّت کے لیے ہمارے گھر آئیں، تو اُنہوں نے مجھ سے پوچھا’’ کیا کررہے ہو؟‘‘، مَیں نے کہا’’ کرکٹ کھیل رہا ہوں۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’اسے چھوڑو، اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلو، اُنہوں نے جو کچھ چھوڑا ہے، اُسے آگے بڑھائو۔‘‘ مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ وارث میر کی وراثت کو کیسے آگے بڑھائوں کہ اُنہی دنوں جنگ، لاہور میں سب ایڈیٹرز کی اسامیوں کے لیے اشتہار شایع ہوا، جس کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویشن درکار تھی۔ رزلٹ آچُکا تھا، سو مَیں نے رزلٹ کارڈ کے ساتھ درخواست دے دی۔ ساتھ ہی جنگ میں چَھپنے والے مضامین کے تراشے بھی لگا دئیے۔ تحریری ٹیسٹ ہوا اور پھر مجھے منتخب کرلیا گیا۔ پہلے ٹرینی سب ایڈیٹر رہا، بعدازاں رپورٹنگ اور پھر میگزین کی طرف چلا گیا۔ والد صاحب حیات ہوتے، تو شاید مجھے اس طرف نہ آنے دیتے، لیکن مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ ایک نئی دنیا میری راہ دیکھ رہی ہے۔
س: عام طور پر صحافیوں کو ابتدائی دنوں میں کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، آپ کے ساتھ کیا معاملہ رہا؟
ج:یہ درست ہے، لیکن میرے مراحل کچھ زیادہ ہی دشوار تھے۔ وجہ یہ تھی کہ مَیں نے ایم اے ابلاغیات میں بھی داخلہ لے لیا تھا۔ رات تین بجے دفتر سے گھر جانا، صبح یونی ورسٹی اور پھر دفتر آنا۔ غرض دو سال کوہِ گراں سَر کرنے کے مترادف تھے، لیکن مَیں نے ہمّت نہ ہاری۔ بعدازاں، اس سے بھی زیادہ کٹھن مراحل پیش آئے۔ دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ کئی بار مجھے اغوا کیا گیا۔ 1990ء میں مجھ سے صرف یہ سورس پوچھنے کے لیے اغوا کیا گیا کہ مَیں نے یہ خبر کہاں سے لی کہ’’ صدر اسحاق خان بے نظیر بھٹّو کی حکومت برطرف کرنے والے ہیں۔‘‘ مجھے دو، تین بار سخت کالم لکھنے یا پروگرام کرنے پر ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ ایک کالم میں آبدوزوں کی خریداری کا اسیکنڈل بےنقاب کیا، جس میں آصف زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی ملوّث تھے۔ 1997ء میں روزنامہ’’ پاکستان‘‘ میں نواز شریف کی کرپشن بےنقاب کرنے پر نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ طالبان کی طرف سے سیکوریٹی تھریٹس ملنے پر کچھ عرصہ فیملی کے ساتھ مُلک سے باہر بھی گزارنا پڑا۔ غرض زندگی طرح طرح کے کٹھن مراحل سے گزری، لیکن ابتدا میں جو ریاضت کی، شاید آگے وہی کام آگئی۔
س:صحافت کے میدان میں داخل تو ہوگئے، لیکن کیا یہ واقعی آپ کی منزل تھی یا کچھ اور بننا چاہتے تھے ؟
ج:ہمارے گھر کا ماحول خالصتاً علمی و ادبی تھا۔ والد صاحب کتابوں اور اخبارات کی دنیا میں گِھرے رہتے۔ میرے دادا جان، میر عبدالعزیز فارسی، اُردو اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ہم نے قرآنِ پاک اُن ہی سے پڑھا۔ مَیں قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال سے بہت متاثر تھا اور زندگی کا مقصد اگرچہ واضح نہ تھا، تاہم کچھ کر گزرنے کا شوق ضرور تھا۔ کالج بالخصوص جی سی یونی ورسٹی کے دَورِ طالبِ علمی میں سیاسی شعور پختہ ہوا۔ مَیں اُن دنوں کئی اسٹڈی سرکلز اور طلبہ تنظیموں کا رُکن تھا۔ احمد بشیر، حبیب جالب، شفقت تنویر مرزا، ظفریار احمد جیسی شخصیات نے میرے سیاسی شعور کی آب یاری کی۔ مارکسزم پر کئی کُتب کھنگال ڈالیں۔ کالج کے ابتدائی زمانے میں والد صاحب نے جب یہ دیکھا کہ مَیں بائیں بازو کے نظریات میں گِھرتا چلا جارہا ہوں، تو ایک روز مجھے بُلا کر میرے ہاتھ میں مولانا عبیداللہ سندھی کی کتاب تھما دی اور کہا’’ یہ بھی پڑھو۔‘‘ کتاب پڑھنے کے بعد سمجھ آئی کہ صرف مارکسزم اور سوشلزم ہی نہیں، اسلام بھی غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی بائیں بازو کے حامی تھے اور مسلمان بھی۔ آگے چل کر مجھے مزید سمجھ آئی کہ پاکستان میں نہ بائیں بازو کی انتہا پسندی چل سکتی ہے اور نہ دائیں بازو کی، بلکہ یہاں علّامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی سیاست مناسب ہے، جو میانہ روی کی سیاست تھی۔ وقت کے ساتھ، میرا اِن دونوں بانیانِ پاکستان کے اندازِ فکر اور سیاست پر پختہ یقین ہوتا چلا گیا اور صحافت کا شوق بھی اُسی زمانے میں ہوا۔
س: ہم نے پروفیسر وارث میر کو ہمیشہ مُسکراتے دیکھا، لیکن آپ شاید اُن کے مقابلے میں کچھ ریزرو ہیں، کسی سے جلد گھلتے ملتے نہیں؟
ج:مجھے ریزرو تو نہیں کہہ سکتے، البتہ اسے میری خامی کہہ لیجیے یا خُوبی کہ جب تک کسی سے واقفیت نہ ہو، اُس سے جلد گھلتا ملتا نہیں یا بہت جلد فِری نہیں ہوتا، لیکن مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جس کی اچھی پبلک ریلیشنگ نہ ہو، وہ اچھا صحافی نہیں بن سکتا۔ مَیں ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہوں اور محبّت وخلوص کا جواب بھی دیتا ہوں، لیکن ہم لوگوں کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ بعض اوقات خوش اخلاقی، پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں رکاوٹ بھی بن جاتی ہے، مثلاً آج کل سیلفیوں کا رواج ہے، تو لوگ مجھ سے ملتے ہی سیلفی کا تقاضا شروع کردیتے ہیں۔ اگر کسی ایک شخص کی خواہش پوری کریں، تو پھر لائن لگ جاتی ہے، اس چکر میں کئی بار میری فلائٹ تک نکل گئی۔
س:مُسکرانا تو وارث میر صاحب کی شخصیت کا خاصّہ تھا۔ زوردار قہقہے بھی لگاتے تھے، کبھی اُنھیں غصّے میں بھی دیکھا؟
ج:بہت دفعہ۔ خاص طور پر جب اُن کی نصیحت یا بات نہ مانی جاتی۔ اُن کی خواہش ہوتی تھی کہ ہم بھائی رات ہونے سے پہلے گھر آجائیں۔ وہ مجھے صحافت سے روکتے تھے، لیکن ایک بار بہت دِل چسپ واقعہ ہوگیا۔ غالباً 1983ء میں خواتین نے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی قیادت میں مال روڈ پر جلوس نکالا، جس میں حبیب جالب بھی شریک تھے۔ مجھے علم ہوا، تو مَیں بھی کالج سے بھاگ کر جلوس میں پہنچ گیا۔ پولیس مظاہرین پر لاٹھیاں برسا رہی تھی اور حبیب جالب کو بھی مار پڑ رہی تھی، لیکن مَیں اُس وقت حیران رہ گیا، جب ہجوم میں والد صاحب کو دیکھا۔ وہ بھی لاٹھیوں کی زَد میں تھے۔ مَیں فوراً چُھپ گیا، کچھ ڈنڈے مجھے بھی پڑگئے۔ معلوم نہیں، والد صاحب نے مجھے دیکھا یا نہیں، بہرحال میں والد صاحب سے پہلے گھر پہنچ گیا اور والدہ صاحبہ کو روداد سُنائی کہ آج تو ابّا حضور کو بھی لاٹھیاں پڑگئیں۔ والد صاحب گھر آئے، تو والدہ نے اُنہیں کھری کھری سنا دیں کہ آپ تو برخوردار کو سیاست میں آنے سے منع کرتے ہیں، لیکن آج خود مظاہرے میں شریک تھے اور سُنا ہے کہ کچھ لاٹھیاں بھی پڑگئیں۔ والد صاحب اس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور روایتی مُسکراہٹ بھی غائب ہوگئی، لیکن اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے تھے، ہماری بہتری ہی کے لیے کہتے تھے۔
س:زندگی کی پہلی کمائی کتنی تھی؟
ج: روزنامہ’’جنگ‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے پہلی تن خواہ، مبلغ پندرہ سو روپے، میری پہلی کمائی تھی۔
س: شادی اپنی پسند سے کی، بچّے کیا کر رہے ہیں؟
ج:شادی مرضی کی کہہ سکتے ہیں، لیکن اس میں والدین کی رضامندی بھی شامل تھی۔ میری بیگم، ناہید ایم اے صحافت میں میری کلاس فیلو تھیں۔ بعدازاں، پاکستان ٹی وی اور پرائیویٹ چینلز پر نیوز کاسٹر کے فرائض بھی انجام دیتی رہیں۔ ایک بیٹا، عرفات اور بیٹی، عائشہ ہے۔ بیٹے کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے، جس کا ولیمہ سیاسی اور سماجی شخصیات کا بڑا اجتماع بن گیا کہ اس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف، دونوں کے رہنما شریک تھے۔ بہرحال، خوشی ہے لوگ محبّت کرتے ہیں۔ بیٹی آکسفورڈ یونی ورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کررہی ہیں۔
س: ٹی وی پروگرامز میں سیاست دانوں سے نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ کبھی گھر میں بیگم سے بھی تُو تُو، مَیں مَیں ہوئی؟
ج:بیگم کے ساتھ ہلکی پُھلکی نہیں، باقاعدہ نوک جھونک چلتی رہتی ہے اور پلڑا ہمیشہ اُن ہی کا بھاری رہتا ہے اور وہ وقت ہوتا ہے، جب مَیں’’بریک‘‘ پر چلا جاتا ہوں۔ دیکھیے، ہم جیسے اینکر پرسن باہر کی دنیا پر تو اپنا رُعب ڈال لیتے ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ گھر کی دنیا میں بیگم ہی کا حکم چلتا ہے اور وہی حقیقی’’اینکر پرسن‘‘ ہوتی ہے۔ بعض لوگ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، بعض نہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بیگم کے تعاون کے بغیر کوئی صحافی کام یاب نہیں ہوسکتا۔
س: صحافتی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ؟
ج:بےشمار ہیں۔ یہ 1995ء کا واقعہ ہے، مجھے نیوزی لینڈ میں ہونے والی کامن ویلتھ کانفرنس میں پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔ صدر، فاروق لغاری بھی ہمارے ساتھ تھے۔ کانفرنس میں جنوبی افریقا کے صدر، نیلسن منڈیلا بھی موجود تھے۔ اُس وقت پوری دنیا میں نیلسن منڈیلا کا چرچا تھا، جو 25سال کی قید کے بعد رہا ہوئے تھے۔ اُن سے ملاقات کرنا تقریباً ناممکن تھا کہ کئی سربراہانِ مملکت کو بھی کوشش کے باوجود ملاقات کا وقت نہیں مل رہا تھا۔ چوں کہ ہم پاکستان میں اُن کے حق میں کئی بار مظاہرے کر چُکے تھے، اس لیے اُن سے ملنے کی بھی خواہش تھی۔ بہرحال، مَیں نے اُن کے سیکرٹری کو بار بار کی درخواست کے بعد راضی کرلیا اور یوں مجھے صرف 10منٹ کا وقت ملا۔ نیلسن منڈیلا نے ملتے ہی سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ میرا تعلق کس مُلک سے ہے؟ مَیں نے کہا ’’پاکستان سے۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’وہ کہاں واقع ہے؟‘‘ مَیں نے بہت سمجھایا، لیکن اُن کو پتا نہیں چل رہا تھا۔ پھر مَیں نے جوںہی انڈیا برّ ِصغیر کا نام لیا، وہ حیرت سے بولے’’اوہ واقعی‘‘۔ پھر دوسرا سوال اُنہوں نے کردیا کہ’’ آپ کی یونی ورسٹی’’ڈیورینڈ‘‘ سے انتہا پسند ہمارے مُلک میں انتشار کیوں پھیلا رہے ہیں؟‘‘ دو تین منٹ تو’’ ڈیورینڈ‘‘ کو سمجھنے میں لگ گئے۔ پھر جب اُنہوں نے مدرسے کا لفظ استعمال کیا، تو مَیں سمجھ گیا کہ اُن کی مُراد ’’دیوبند مدرسہ‘‘ ہے۔ مَیں نے اُنھیں سمجھایا کہ یہ مدرسہ انڈیا میں ہے اور ہمارا ان انتہا پسندوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی دَوران سیکرٹری نے کہا’’ 10منٹ کا وقت ختم ہوگیا۔‘‘ مَیں نے نیلسن منڈیلا سے کہا کہ’’ آپ کا انٹرویو تو ہوا نہیں، آپ نے الٹا میرا انٹرویو شروع کردیا۔‘‘ آخر کار بڑی منّت ترلے کے بعد اُنہوں نے مزید 10منٹ دیئے۔ اُس زمانے میں اُن سے اتنا انٹرویو بھی بہت بڑی بات تھی۔ اس انٹرویو میں اُنہوں نے معذرت بھی کی کہ چوں کہ وہ 25سال جیل میں رہے ہیں، اس لیے اُنہیں باہر کی دنیا کا زیادہ علم نہیں۔ بہرکیف، وہ ایک یادگار انٹرویو تھا۔ لیکن ایک احساس یہ بھی دامن گیر تھا کہ جس شخص کے لیے ہم پاکستان میں مظاہرے کر رہے تھے، اُسے علم ہی نہیں تھا کہ پاکستان کہاں واقع ہے۔
س: میر صاحب یہ تو علم ہے کہ آپ پکّے لاہوری ہیں، مگر پھر بھی اپنے اور خاندان کے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: مَیں لاہور میں 23جولائی1966ء کو پیدا ہوا۔ اُس وقت میرے والد، پروفیسر وارث میر مسلم ٹائون میں مولانا عبدالمجید سالک( مرحوم) کے گھر کے ایک پوریشن میں بہ طور کرائے دار مقیم تھے۔ میری پوری تعلیم لاہور ہی میں مکمل ہوئی۔ پنجاب یونی ورسٹی لیبارٹری اسکول نیوکیمپس سے مڈل، سینٹرل ماڈل اسکول، لوئر مال سے میٹرک، سائنس کالج وحدت روڈ سے انٹر، گورنمنٹ کالج(اب یونی ورسٹی) سے بی اے اور پنجاب یونی ورسٹی سے ابلاغیات میں ایم اے کیا۔ یوں 1972 ء میں شروع ہونے والا تعلیم کا سفر 1989ء میں اختتام کو پہنچا۔ مَیں ایک اوسط درجے کا طالبِ علم تھا، کبھی فرسٹ پوزیشن نہیں لی، لیکن کبھی فیل بھی نہیں ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ تعلیم کے دَوران بھی زندگی خاصی ہنگامہ خیز رہی۔ جہاں تک فیملی بیک گرائونڈ کا تعلق ہے، میرے دادا جان، میر عبدالعزیز اُردو، فارسی اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ قیامِ پاکستان میں ہمارے خاندان نے بھی قربانیاں دیں، جمّوں سے پاکستان آتے وقت ہماری والدہ کی پوری فیملی شہید ہوگئی اور اُن کے بھائی کو تو ہندوئوں نے اُن کی آنکھوں کے سامنے شہید کیا۔ ہماری والدہ کو بھی اغوا کرلیا گیا تھا، مگر اُنہوں نے بڑی مشکل سے بھاگ کر اور لاشوں کے پیچھے چُھپ کر اپنی جان بچائی۔ شاید ان قربانیوں ہی کی وجہ سے وطن کی محبّت لاشعور میں جاگزیں ہے۔
س: آپ کے والد معروف صحافی، دانش وَر اور کالم نویس تھے، ایسے والدین تو بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجّہ دیتے ہیں؟
ج:۔ مَیں اوسط درجے کا طالبِ علم تھا، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ والد صاحب مجھ پر اور دوسرے بھائیوںپر خصوصی توجّہ نہیں دیتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے، 1971ء کی جنگ جاری تھی، جب والد صاحب مجھے اسکول میں داخل کروانے لے گئے، مَیں ضد کررہا تھا کہ اسکول نہیں جانا۔ پہلا دن رونے دھونے میں گزرا، پھر حالات سے سمجھوتا کرلیا کہ کوئی جائے فرار نہیں تھی۔ چوتھی، پانچویں میں تھا کہ مجھے اچانک کتاب لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ گھر میں تو ویسے ہی علمی ماحول تھا، دُنیا بھر کی کتابیں موجود تھیں، لیکن ایک کم سِن بچّے کے دِل میں کتاب لکھنے کا خیال اس طرح آیا کہ والد صاحب مجھے پاکستان نیشنل سینٹر، لاہور میں ہونے والے ایک سیمینار میں لے گئے، جس کا موضوع سرسیّد احمد خان تھے۔ والد صاحب نے سرسیّد کی تعلیمی خدمات کے حق میں، جب کہ ایک اور معروف مقرّر نے اُن کے خلاف تقریر کی۔ مجھے سرسیّد کی شخصیت کے بارے میں اشتیاق پیدا ہوا، یوں اُن کے بارے میں پڑھنا شروع کردیا اور پھر شاید گھر میں موجود کُتب کو دیکھ کر خیال آیا کہ کیوں نہ مَیں بھی اُن کے بارے میں ایک کتاب لکھوں۔ یہ ایک بچگانہ شوق تھا۔ مَیں نے اسکول کی کاپیوں پر ہوم ورک کے ساتھ، سرسیّد پر بھی لکھنا شروع کردیا۔ ظاہر ہے الفاظ اور خیالات ٹیڑھے میڑھے ہی تھے، لیکن مَیں تو اپنی دانست میں کتاب لکھ رہا تھا۔ جب کاپی کے صفحات ختم ہوگئے، تو میرے نزدیک کتاب بھی مکمل ہوگئی۔ ٹیچر، مِس ریحانہ احمد نے دیکھا، تو میری حوصلہ افزائی کی، وہ خود بھی اس پر بے حد حیران تھیں۔
س:والد صاحب کو علم تھا؟
ج:جی نہیں۔ مَیں نے اُن سے چُھپ چُھپا کر یہ سب لکھا تھا۔ مَیں اُس زمانے میں نوائے وقت اور مشرق میں بچّوں کے صفحات کے لیے کہانیاں بھی لکھتا تھا۔ والد صاحب سے یہ سب چُھپانے کی ایک وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ مَیں اُنھیں بتائے بغیر اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا یا یوں سمجھیں، سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ ساتویں، آٹھویں تک تو اچھا طالبِ علم تھا۔ یہی وہ دَور تھا(غالباً مَیں چھٹی جماعت میں تھا) جب مَیں نے پنجاب یونی ورسٹی کے’’ وحید شہید ہال‘‘ میں زندگی کی پہلی تقریر کی، جو والد صاحب نے لکھ کر دی تھی۔ اس سے میرے اندر تقریر کا خوف جاتا رہا۔ اس تقریر میں مولانا محمّد علی جوہر کا یہ شعر بھی تھا’’قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے… اسلام زندہ ہوتا ہے، ہر کربلا کے بعد‘‘ مَیں نے شعر تو پڑھ دیا، لیکن اسے سمجھنے میں کئی دن لگے۔
س:سُنا ہے، ایک زمانے میں کرکٹ کا شوق بھی جنون کی حد تک رہا؟
ج:ہاں۔ ساتویں، آٹھویں میں کرکٹ کھیلنے کا شوق پیدا ہوا، جو دن بہ دن بڑھتا ہی چلا گیا، حتیٰ کہ جب سینٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک کررہا تھا، تو اسکول کی کرکٹ ٹیم کا رُکن تھا۔ ایک کلب بھی جوائن کیا ہوا تھا اور پھر انڈر 19 ٹیم کا رُکن بھی بن گیا۔ ابھی کھیل کے میدان کا یہ سفر جاری ہی تھا کہ 9جولائی 1987ء کو والد صاحب کا 48برس کی عُمر میں اچانک انتقال ہوگیا۔ صدمہ تو تھا ہی، لیکن یہ ایک لحاظ سے میرے کرکٹ کیریئر کا اختتام بھی تھا۔ جس روز اُن کا انتقال ہوا، اُس روز مجھے پشاور میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں شرکت کرنا تھی، لیکن یہ خواب ادھورا رہ گیا، بلکہ زندگی ایک اور ڈگر پر چل نکلی، جس کا خود مجھے اندازہ نہ تھا کہ والد صاحب سے محروم ہونے کے بعد کتابِ زیست کے کیسے کیسے حیرت انگیز چیلنجز سامنے آئیں گے۔
س: کیسے چیلنجز…؟
ج:جن دنوں مُلک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ تھا، مَیں سینٹرل ماڈل اسکول، لاہور میں میٹرک کا طالبِ علم تھا۔ والد صاحب ترقّی پسندانہ نظریات کے حامل اور آمریت کے مخالف تھے۔ یہ گھریلو علمی و ادبی ماحول کا اثر تھا یا گھر میں ہونے والی والد صاحب کی دوسروں سے گفتگو کا نتیجہ، آمریت سے نفرت میرے لاشعور کا حصّہ بن گئی۔ ذہن شروع ہی سے تحریر و تقریر کی آزادی کا رسیا ہوگیا۔ پھر مارشل لاء کے زمانے میں عوام میں جو سیاسی اختلافات پیدا ہوئے، ہم طلبہ بھی اس کا شکار ہوگئے۔ یہ وہ دَور تھا، جب میٹرک کے طلبہ بھی آمریت کے خلاف میدان میں نکل آئے تھے۔ حکومت کے فرمان کے مطابق اسکول میں باقاعدگی سے نماز ادا ہوتی، لیکن بعدازاں بھاٹی گیٹ تھانے کے سامنے حکومت کے خلاف نعرے بھی لگتے۔ سچ پوچھیں، میرے اندر سیاسی شعور اُسی زمانے میں بیدار ہوا۔ مَیں نے دسویں جماعت میں مظاہروں کے دَوران پہلی بار پولیس کی لاٹھی کھائی اور سَر بھی زخمی ہوا۔ اُس زمانے میں جو بھی تنظیم مارشل لاء کی مخالفت کرتی، ہم اُس کے رُکن بن جاتے۔ پھر جب مَیں سائنس کالج، وحدت روڈ میں داخل ہوا، تو ان سرگرمیوں میں تیزی آگئی۔ گورنمنٹ کالج میں گریجویشن کے لیے داخل ہوا، تو زندگی کا ایک نیا دَور شروع ہوگیا۔ وہاں نصابی سرگرمیاں مدہم اور غیر نصابی سرگرمیاں(کرکٹ، سیاسی بحث مباحثے، ڈرامیٹک کلب، مدیحہ گوہر کے اجوکا تھیٹر میں اداکاری) بڑھ گئی اور پڑھائی پیچھے رہ گئی۔ زندگی میں ایک نیا عُنصر، اخبارات میں مضامین لکھنے کی صُورت سامنے آیا۔ مَیں نے اُسی زمانے میں روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کے خلاف ایک مضمون بھیجا، جو میرے نام سے چَھپ گیا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ اُسی ادارتی صفحے پر والد صاحب کا مضمون بھی شائع ہوا تھا۔ والد صاحب نے پوچھا’’ کیا یہ مضمون تم نے لکھا ہے؟‘‘ مَیں نے’’ جی ہاں‘‘ میں جواب دیا، تو اُنہوں نے حسبِ سابق نصیحت شروع کردی’’ تم صحافی بننے کی کوشش نہ کرو، کیوں کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔‘‘اُنہوں نے سیاست سے بھی دُور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کرکٹ پر توجّہ مرتکز رکھنے کا مشورہ دیا۔ اُن کا خیال تھا کہ صحافت میرے بس کی بات نہیں۔ والد صاحب اس بات پر بھی پریشان تھے کہ میرے دوستوں میں ایسے نوجوان شامل ہیں، جو حکومت کے زبردست مخالف ہیں اور کئی تو شاہی قلعے کی’’سیر‘‘ بھی کر آئے تھے۔
س: والد صاحب سیاسی اور صحافتی سرگرمیوں کے خلاف تھے، پھر صحافت کی صحرا نوردی کیسے اور کیوں کر ممکن ہوئی؟
ج:اصل میں والد صاحب کی وفات کے بعد دنیا ہی بدل گئی۔ وہ اپنی جگہ سچّے تھے۔ صحافت اور آزادیٔ صحافت کی تلخیوں سے گزر چُکے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ مَیں بھی مشکلات کا شکار ہوجائوں، کیوں کہ پاکستان میں بہرحال آزادیٔ صحافت کے لیے حالات سازگار نہیں تھے، مگر میرے اندر تو سیاسی شعور بیدار ہوچُکا تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد جب بے نظیر بھٹّو صاحبہ تعزیّت کے لیے ہمارے گھر آئیں، تو اُنہوں نے مجھ سے پوچھا’’ کیا کررہے ہو؟‘‘، مَیں نے کہا’’ کرکٹ کھیل رہا ہوں۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’اسے چھوڑو، اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلو، اُنہوں نے جو کچھ چھوڑا ہے، اُسے آگے بڑھائو۔‘‘ مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ وارث میر کی وراثت کو کیسے آگے بڑھائوں کہ اُنہی دنوں جنگ، لاہور میں سب ایڈیٹرز کی اسامیوں کے لیے اشتہار شایع ہوا، جس کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویشن درکار تھی۔ رزلٹ آچُکا تھا، سو مَیں نے رزلٹ کارڈ کے ساتھ درخواست دے دی۔ ساتھ ہی جنگ میں چَھپنے والے مضامین کے تراشے بھی لگا دئیے۔ تحریری ٹیسٹ ہوا اور پھر مجھے منتخب کرلیا گیا۔ پہلے ٹرینی سب ایڈیٹر رہا، بعدازاں رپورٹنگ اور پھر میگزین کی طرف چلا گیا۔ والد صاحب حیات ہوتے، تو شاید مجھے اس طرف نہ آنے دیتے، لیکن مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ ایک نئی دنیا میری راہ دیکھ رہی ہے۔
س: عام طور پر صحافیوں کو ابتدائی دنوں میں کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، آپ کے ساتھ کیا معاملہ رہا؟
ج:یہ درست ہے، لیکن میرے مراحل کچھ زیادہ ہی دشوار تھے۔ وجہ یہ تھی کہ مَیں نے ایم اے ابلاغیات میں بھی داخلہ لے لیا تھا۔ رات تین بجے دفتر سے گھر جانا، صبح یونی ورسٹی اور پھر دفتر آنا۔ غرض دو سال کوہِ گراں سَر کرنے کے مترادف تھے، لیکن مَیں نے ہمّت نہ ہاری۔ بعدازاں، اس سے بھی زیادہ کٹھن مراحل پیش آئے۔ دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ کئی بار مجھے اغوا کیا گیا۔ 1990ء میں مجھ سے صرف یہ سورس پوچھنے کے لیے اغوا کیا گیا کہ مَیں نے یہ خبر کہاں سے لی کہ’’ صدر اسحاق خان بے نظیر بھٹّو کی حکومت برطرف کرنے والے ہیں۔‘‘ مجھے دو، تین بار سخت کالم لکھنے یا پروگرام کرنے پر ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ ایک کالم میں آبدوزوں کی خریداری کا اسیکنڈل بےنقاب کیا، جس میں آصف زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی ملوّث تھے۔ 1997ء میں روزنامہ’’ پاکستان‘‘ میں نواز شریف کی کرپشن بےنقاب کرنے پر نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ طالبان کی طرف سے سیکوریٹی تھریٹس ملنے پر کچھ عرصہ فیملی کے ساتھ مُلک سے باہر بھی گزارنا پڑا۔ غرض زندگی طرح طرح کے کٹھن مراحل سے گزری، لیکن ابتدا میں جو ریاضت کی، شاید آگے وہی کام آگئی۔

س:صحافت کے میدان میں داخل تو ہوگئے، لیکن کیا یہ واقعی آپ کی منزل تھی یا کچھ اور بننا چاہتے تھے ؟
ج:ہمارے گھر کا ماحول خالصتاً علمی و ادبی تھا۔ والد صاحب کتابوں اور اخبارات کی دنیا میں گِھرے رہتے۔ میرے دادا جان، میر عبدالعزیز فارسی، اُردو اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ہم نے قرآنِ پاک اُن ہی سے پڑھا۔ مَیں قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال سے بہت متاثر تھا اور زندگی کا مقصد اگرچہ واضح نہ تھا، تاہم کچھ کر گزرنے کا شوق ضرور تھا۔ کالج بالخصوص جی سی یونی ورسٹی کے دَورِ طالبِ علمی میں سیاسی شعور پختہ ہوا۔ مَیں اُن دنوں کئی اسٹڈی سرکلز اور طلبہ تنظیموں کا رُکن تھا۔ احمد بشیر، حبیب جالب، شفقت تنویر مرزا، ظفریار احمد جیسی شخصیات نے میرے سیاسی شعور کی آب یاری کی۔ مارکسزم پر کئی کُتب کھنگال ڈالیں۔ کالج کے ابتدائی زمانے میں والد صاحب نے جب یہ دیکھا کہ مَیں بائیں بازو کے نظریات میں گِھرتا چلا جارہا ہوں، تو ایک روز مجھے بُلا کر میرے ہاتھ میں مولانا عبیداللہ سندھی کی کتاب تھما دی اور کہا’’ یہ بھی پڑھو۔‘‘ کتاب پڑھنے کے بعد سمجھ آئی کہ صرف مارکسزم اور سوشلزم ہی نہیں، اسلام بھی غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی بائیں بازو کے حامی تھے اور مسلمان بھی۔ آگے چل کر مجھے مزید سمجھ آئی کہ پاکستان میں نہ بائیں بازو کی انتہا پسندی چل سکتی ہے اور نہ دائیں بازو کی، بلکہ یہاں علّامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی سیاست مناسب ہے، جو میانہ روی کی سیاست تھی۔ وقت کے ساتھ، میرا اِن دونوں بانیانِ پاکستان کے اندازِ فکر اور سیاست پر پختہ یقین ہوتا چلا گیا اور صحافت کا شوق بھی اُسی زمانے میں ہوا۔
س: ہم نے پروفیسر وارث میر کو ہمیشہ مُسکراتے دیکھا، لیکن آپ شاید اُن کے مقابلے میں کچھ ریزرو ہیں، کسی سے جلد گھلتے ملتے نہیں؟
ج:مجھے ریزرو تو نہیں کہہ سکتے، البتہ اسے میری خامی کہہ لیجیے یا خُوبی کہ جب تک کسی سے واقفیت نہ ہو، اُس سے جلد گھلتا ملتا نہیں یا بہت جلد فِری نہیں ہوتا، لیکن مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جس کی اچھی پبلک ریلیشنگ نہ ہو، وہ اچھا صحافی نہیں بن سکتا۔ مَیں ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہوں اور محبّت وخلوص کا جواب بھی دیتا ہوں، لیکن ہم لوگوں کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ بعض اوقات خوش اخلاقی، پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں رکاوٹ بھی بن جاتی ہے، مثلاً آج کل سیلفیوں کا رواج ہے، تو لوگ مجھ سے ملتے ہی سیلفی کا تقاضا شروع کردیتے ہیں۔ اگر کسی ایک شخص کی خواہش پوری کریں، تو پھر لائن لگ جاتی ہے، اس چکر میں کئی بار میری فلائٹ تک نکل گئی۔

س:مُسکرانا تو وارث میر صاحب کی شخصیت کا خاصّہ تھا۔ زوردار قہقہے بھی لگاتے تھے، کبھی اُنھیں غصّے میں بھی دیکھا؟
ج:بہت دفعہ۔ خاص طور پر جب اُن کی نصیحت یا بات نہ مانی جاتی۔ اُن کی خواہش ہوتی تھی کہ ہم بھائی رات ہونے سے پہلے گھر آجائیں۔ وہ مجھے صحافت سے روکتے تھے، لیکن ایک بار بہت دِل چسپ واقعہ ہوگیا۔ غالباً 1983ء میں خواتین نے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی قیادت میں مال روڈ پر جلوس نکالا، جس میں حبیب جالب بھی شریک تھے۔ مجھے علم ہوا، تو مَیں بھی کالج سے بھاگ کر جلوس میں پہنچ گیا۔ پولیس مظاہرین پر لاٹھیاں برسا رہی تھی اور حبیب جالب کو بھی مار پڑ رہی تھی، لیکن مَیں اُس وقت حیران رہ گیا، جب ہجوم میں والد صاحب کو دیکھا۔ وہ بھی لاٹھیوں کی زَد میں تھے۔ مَیں فوراً چُھپ گیا، کچھ ڈنڈے مجھے بھی پڑگئے۔ معلوم نہیں، والد صاحب نے مجھے دیکھا یا نہیں، بہرحال میں والد صاحب سے پہلے گھر پہنچ گیا اور والدہ صاحبہ کو روداد سُنائی کہ آج تو ابّا حضور کو بھی لاٹھیاں پڑگئیں۔ والد صاحب گھر آئے، تو والدہ نے اُنہیں کھری کھری سنا دیں کہ آپ تو برخوردار کو سیاست میں آنے سے منع کرتے ہیں، لیکن آج خود مظاہرے میں شریک تھے اور سُنا ہے کہ کچھ لاٹھیاں بھی پڑگئیں۔ والد صاحب اس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور روایتی مُسکراہٹ بھی غائب ہوگئی، لیکن اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے تھے، ہماری بہتری ہی کے لیے کہتے تھے۔
س:زندگی کی پہلی کمائی کتنی تھی؟
ج: روزنامہ’’جنگ‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے پہلی تن خواہ، مبلغ پندرہ سو روپے، میری پہلی کمائی تھی۔
س: شادی اپنی پسند سے کی، بچّے کیا کر رہے ہیں؟
ج:شادی مرضی کی کہہ سکتے ہیں، لیکن اس میں والدین کی رضامندی بھی شامل تھی۔ میری بیگم، ناہید ایم اے صحافت میں میری کلاس فیلو تھیں۔ بعدازاں، پاکستان ٹی وی اور پرائیویٹ چینلز پر نیوز کاسٹر کے فرائض بھی انجام دیتی رہیں۔ ایک بیٹا، عرفات اور بیٹی، عائشہ ہے۔ بیٹے کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے، جس کا ولیمہ سیاسی اور سماجی شخصیات کا بڑا اجتماع بن گیا کہ اس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف، دونوں کے رہنما شریک تھے۔ بہرحال، خوشی ہے لوگ محبّت کرتے ہیں۔ بیٹی آکسفورڈ یونی ورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کررہی ہیں۔
س: ٹی وی پروگرامز میں سیاست دانوں سے نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ کبھی گھر میں بیگم سے بھی تُو تُو، مَیں مَیں ہوئی؟
ج:بیگم کے ساتھ ہلکی پُھلکی نہیں، باقاعدہ نوک جھونک چلتی رہتی ہے اور پلڑا ہمیشہ اُن ہی کا بھاری رہتا ہے اور وہ وقت ہوتا ہے، جب مَیں’’بریک‘‘ پر چلا جاتا ہوں۔ دیکھیے، ہم جیسے اینکر پرسن باہر کی دنیا پر تو اپنا رُعب ڈال لیتے ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ گھر کی دنیا میں بیگم ہی کا حکم چلتا ہے اور وہی حقیقی’’اینکر پرسن‘‘ ہوتی ہے۔ بعض لوگ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، بعض نہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بیگم کے تعاون کے بغیر کوئی صحافی کام یاب نہیں ہوسکتا۔
س: صحافتی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ؟
ج:بےشمار ہیں۔ یہ 1995ء کا واقعہ ہے، مجھے نیوزی لینڈ میں ہونے والی کامن ویلتھ کانفرنس میں پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔ صدر، فاروق لغاری بھی ہمارے ساتھ تھے۔ کانفرنس میں جنوبی افریقا کے صدر، نیلسن منڈیلا بھی موجود تھے۔ اُس وقت پوری دنیا میں نیلسن منڈیلا کا چرچا تھا، جو 25سال کی قید کے بعد رہا ہوئے تھے۔ اُن سے ملاقات کرنا تقریباً ناممکن تھا کہ کئی سربراہانِ مملکت کو بھی کوشش کے باوجود ملاقات کا وقت نہیں مل رہا تھا۔ چوں کہ ہم پاکستان میں اُن کے حق میں کئی بار مظاہرے کر چُکے تھے، اس لیے اُن سے ملنے کی بھی خواہش تھی۔ بہرحال، مَیں نے اُن کے سیکرٹری کو بار بار کی درخواست کے بعد راضی کرلیا اور یوں مجھے صرف 10منٹ کا وقت ملا۔ نیلسن منڈیلا نے ملتے ہی سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ میرا تعلق کس مُلک سے ہے؟ مَیں نے کہا ’’پاکستان سے۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’وہ کہاں واقع ہے؟‘‘ مَیں نے بہت سمجھایا، لیکن اُن کو پتا نہیں چل رہا تھا۔ پھر مَیں نے جوںہی انڈیا برّ ِصغیر کا نام لیا، وہ حیرت سے بولے’’اوہ واقعی‘‘۔ پھر دوسرا سوال اُنہوں نے کردیا کہ’’ آپ کی یونی ورسٹی’’ڈیورینڈ‘‘ سے انتہا پسند ہمارے مُلک میں انتشار کیوں پھیلا رہے ہیں؟‘‘ دو تین منٹ تو’’ ڈیورینڈ‘‘ کو سمجھنے میں لگ گئے۔ پھر جب اُنہوں نے مدرسے کا لفظ استعمال کیا، تو مَیں سمجھ گیا کہ اُن کی مُراد ’’دیوبند مدرسہ‘‘ ہے۔ مَیں نے اُنھیں سمجھایا کہ یہ مدرسہ انڈیا میں ہے اور ہمارا ان انتہا پسندوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی دَوران سیکرٹری نے کہا’’ 10منٹ کا وقت ختم ہوگیا۔‘‘ مَیں نے نیلسن منڈیلا سے کہا کہ’’ آپ کا انٹرویو تو ہوا نہیں، آپ نے الٹا میرا انٹرویو شروع کردیا۔‘‘ آخر کار بڑی منّت ترلے کے بعد اُنہوں نے مزید 10منٹ دیئے۔ اُس زمانے میں اُن سے اتنا انٹرویو بھی بہت بڑی بات تھی۔ اس انٹرویو میں اُنہوں نے معذرت بھی کی کہ چوں کہ وہ 25سال جیل میں رہے ہیں، اس لیے اُنہیں باہر کی دنیا کا زیادہ علم نہیں۔ بہرکیف، وہ ایک یادگار انٹرویو تھا۔ لیکن ایک احساس یہ بھی دامن گیر تھا کہ جس شخص کے لیے ہم پاکستان میں مظاہرے کر رہے تھے، اُسے علم ہی نہیں تھا کہ پاکستان کہاں واقع ہے۔
والد کی خواہش تھی کرکٹر بنوں، دسویں جماعت میں پہلی بار پولیس کی لاٹھیاں کھائیں،’’ جنگ‘‘ لاہور سے بطور ٹرینی سب ایڈیٹر کیرئیر کا آغاز کیا
س: آپ 2006ء میں غزہ میں بھی تو پھنس گئے تھے۔ وہ کیا قصّہ ہے؟
ج: وہ واقعہ اب بھی میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دَوڑا دیتا ہے۔ مَیں فوٹو گرافر، احمد کے ساتھ مِصر تو پہنچ گیا، لیکن آگے مِصری حکومت، فلسطین کے لیے ویزا جاری نہیں کر رہی تھی۔ بارڈر پر فلسطینیوں نے آگے جانے کے لیے سرنگیں کھودی ہوئی تھیں، تو مَیں بھی ایک ایسی ہی سرنگ کے ذریعے فلسطین پہنچ گیا، لیکن فوٹو گرافر سرنگ پار نہ کر سکا۔ مَیں نے غزہ کے ہوٹل،’’ القدس‘‘ میں قیام کیا اور اُسی رات اسرائیل نے اُس پر شدید بم باری کر دی، جس پر ہوٹل چھوڑنا پڑا۔ مجھے اپنی ڈیوٹی ادا کرنی تھی اور بار بار کوریج کے لیے فون بھی آ رہے تھے۔ بالآخر مَیں نے ایک فلسطینی کیمرا مین کو ہائر کیا اور اُسے کہا’’ مجھے تباہ شدہ گھروں والے فلسطینیوں سے بات کرنی ہے۔‘‘ اُس نے کہا’’ اُنہیں چھوڑیں۔ اُن کے گھر تو مسمار ہو چُکے۔ ہم وہاں چلتے ہیں، جہاں فلسطینی بچّے اسرائیلی ٹینکس کو پتھر مار رہے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا’’ جنگی صحافت کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ وہاں جانا مناسب نہیں۔‘‘ مگر وہ اپنی بات پر ڈٹا رہا اور کہا’’ آپ دیکھیے گا، کیا شوٹ ہوگا۔ آپ کے دفتر والے خوش ہو جائیں گے۔ مَیں وہاں شوٹ کروں گا، جہاں گولا ہمارے پاس گرے گا۔‘‘ مَیں نے کہا ’’اس طرح تو ہم مارے جائیں گے۔‘‘ کہنے لگا’’ یہی تو مَیں چاہتا ہوں کہ ہم شہید ہو جائیں۔ دنیا واہ، واہ کرے گی۔‘‘ بڑی مشکل سے اُسے سمجھایا۔ بہرحال، مجھے وہاں جا کر احساس ہوا کہ بے چارے فلسطینی کس قدر کسم پُرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے پاکستان یاد آنے لگا۔ بے شک مسائل بے پناہ ہیں، لیکن اپنا وطن بے شمار مُمالک سے پھر بھی اچھا ہے، لیکن ہمیں اس کی قدر نہیں۔
jang.com.pk
ج: وہ واقعہ اب بھی میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دَوڑا دیتا ہے۔ مَیں فوٹو گرافر، احمد کے ساتھ مِصر تو پہنچ گیا، لیکن آگے مِصری حکومت، فلسطین کے لیے ویزا جاری نہیں کر رہی تھی۔ بارڈر پر فلسطینیوں نے آگے جانے کے لیے سرنگیں کھودی ہوئی تھیں، تو مَیں بھی ایک ایسی ہی سرنگ کے ذریعے فلسطین پہنچ گیا، لیکن فوٹو گرافر سرنگ پار نہ کر سکا۔ مَیں نے غزہ کے ہوٹل،’’ القدس‘‘ میں قیام کیا اور اُسی رات اسرائیل نے اُس پر شدید بم باری کر دی، جس پر ہوٹل چھوڑنا پڑا۔ مجھے اپنی ڈیوٹی ادا کرنی تھی اور بار بار کوریج کے لیے فون بھی آ رہے تھے۔ بالآخر مَیں نے ایک فلسطینی کیمرا مین کو ہائر کیا اور اُسے کہا’’ مجھے تباہ شدہ گھروں والے فلسطینیوں سے بات کرنی ہے۔‘‘ اُس نے کہا’’ اُنہیں چھوڑیں۔ اُن کے گھر تو مسمار ہو چُکے۔ ہم وہاں چلتے ہیں، جہاں فلسطینی بچّے اسرائیلی ٹینکس کو پتھر مار رہے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا’’ جنگی صحافت کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ وہاں جانا مناسب نہیں۔‘‘ مگر وہ اپنی بات پر ڈٹا رہا اور کہا’’ آپ دیکھیے گا، کیا شوٹ ہوگا۔ آپ کے دفتر والے خوش ہو جائیں گے۔ مَیں وہاں شوٹ کروں گا، جہاں گولا ہمارے پاس گرے گا۔‘‘ مَیں نے کہا ’’اس طرح تو ہم مارے جائیں گے۔‘‘ کہنے لگا’’ یہی تو مَیں چاہتا ہوں کہ ہم شہید ہو جائیں۔ دنیا واہ، واہ کرے گی۔‘‘ بڑی مشکل سے اُسے سمجھایا۔ بہرحال، مجھے وہاں جا کر احساس ہوا کہ بے چارے فلسطینی کس قدر کسم پُرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے پاکستان یاد آنے لگا۔ بے شک مسائل بے پناہ ہیں، لیکن اپنا وطن بے شمار مُمالک سے پھر بھی اچھا ہے، لیکن ہمیں اس کی قدر نہیں۔

ایوب آمریت نے مُلک کو غلط رُخ پر ڈالا
(عکّاسی: عرفان نجمی)یوں تو ہر صحافی کو اپنی پیشہ...

- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/vtyTZFW.jpg