Farishton ki Hukoomat

ali.munir

New Member
http://urdu.dawn.com/2013/01/25/farishton-ki-hukumat-ali-munir-aq/

Dawn Urdu


ڈان اردو


فرشتوں کی حکومت

January 25, 2013علی منیر
فائل فوٹو .

پاکستان کے تیسرے امیر المومنین، مسیح الملک جناب قبلہ جنرل ضیاءالحق صاحب نے جہاں قوم پر کئی نوازشات کیں وہیں آئین پاکستان جو کہ اگرچہ انکے مطابق تو کاغذ کے پرزے تھے پر پھر بھی انہوں نے احسان عظیم کرتے ہوۓ اسے اسلام کا تڑکا لگا دیا.ویسے تو اس کارخیر میں بھٹو صاحب نے بھی اپنا کردار خوب ہی ادا کیا لیکن انھیں پھر بھی اقتدار کے مزے لوٹنے کا وہ موقعہ میسر نہیں آیا جو جنرل صاحب نے اسلام کا نام لے کر حاصل کر لیا تھا.جنرل صاحب نے 1985 میں اپنے صدارتی حکمنامہ نمبر 14 کے زریعے آئین میں وہ ترمیم کی جس کی اندھی کرپان آج جمہوری نظام کے پیٹ میں اتارنے کی تیاری کی جا رہی ہے اس اندھی کرپان کو آئین کے آرٹیکل 62 میں نیام کیا گیا ہے.اس ترمیم سے کچھ ثابت ہو یا نہ ہو ایک بات پر یقین ضرور آ جاتا ہے کہ جنرل ضیاء اور کچھ نہیں تو کم از کم دور اندیش ضرور تھے ہم انکی b(2)58 کی تلوار کو روتے رہے اور 63/62 کی کرپان نظرانداز ہو گئی! جب ذرا یہ خطرہ پیدا ہو کہ جمہوری نظام طاقتور ہو رہا ہے، یا عوامی نمائندوں کے پر پرزے نکلنے لگیں ہیں جھٹ اس کرپان کو نکالئے (اس صورت میں کہ اگر صدر کا پارلیمنٹ ختم کرنے والی تلوار موجود نہ ہو) اور اس نظام کا وزن حدود میں لے آئیے!اگرچہ ان میں پیش کی گئی شرائط پارلیمنٹ کے ممبران کے لئے ہے لیکن پھر بھی ان شقوں میں جو شرائط پیش کی گئی ہیں اس پر صرف ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ یہ عوامی نمائندوں پر تو لاگو ہوں پر 35 سال اقتدار کے خوشے سے طاقت کا جام تیار کرنے والے غاصب آمر اس سے مبرا رہیں؟کیا جنرل ضیاء اور قبلہ مشرف ان شرائط پر پورا اترتے ہیں؟ ویسے تو ان شرائط کی فہرست طویل ہے اور اکثر حضرات ان سے واقف بھی ہیں پھر بھی اس جانچ کے لئے ان میں سے دو شرائط کا ذکر کر کے فیصلہ آپ پر چھوڑے دیتا ہوں، صادق اور امین!!کون فیصلہ کرے گا کہ ان شرائط پر کون اترتا ہے اور کون نہیں؟اب کیا نیک اور بد ہونے کے بھی سرٹیفکیٹ جاری کئے جائیں گے؟ جس ملک میں فرقہ کی بنیاد پر خون کی ندیاں بہہ رہی ہوں وہاں دین کے مناسب علم کی تعریف کون کرے گا؟ ایسے پیمانے جن کی تعریف پر ہر دو اشخاص کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو انھیں آپ قانون کے شکنجے میں جکڑ کر کیوں بھانت بھانت کی بولیاں سننا چاہتے ہیں؟ویسے تو قوم اس تلوار اور اس کی دھار سے بے خبر تھی لیکن بھلا ہو شیخ السلام علامہ طاہرالقادری صاحب کا جنہوں نے خواب خرگوش کے مزے لیتی ہوئی قوم کو جھنجھوڑا اور انکے عوامی نمائندوں کو اس آرٹیکل کی چھلنی سے گزروانے کا مشن عظیم یاد دلا دیا اگرچہ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ علامہ صاحب کیا خود بھی اس پیمانے پر پورا اترتے ہیں؟شائد انکا الیکشن میں حصہ نہ لینے کے اعلان کے پیچھے بھی لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس میں انکی صداقت کے بارے میں اس آرٹیکل کی شرائط کے برعکس باتیں کی گئی ہیں.خیر یہ تو ماضی ہے، 23 دسمبر سے لے کر سترہ جنوری تک انکے بیانات، قسمیں، الزامات اور خیالات قوم کے سامنے ہیں جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ بخوبی کیا جا سکتا ہے. یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے جیسا مقولہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی پر پورا اتر رہا ہے! ملک کے کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ اسی عربی مقولے کا سہارا لے کر ابوجہل کی باتیں تو استعمال نہیں کی جاتیں!!خیر علامہ صاحب نے جس کھیل کی بنیاد رکھ دی ہے اس کا ابھی صرف پہلا راونڈ ہی کھیلا گیا ہے جس کی جانب اشارہ رضا ربانی صاحب نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوۓ کر دیا ہے.پتہ نہیں کیوں مقتدر قوتیں اس ملک کو اسکے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتیں. سیاست اور سیاستدانوں سے اس خوف کی وجہ نجانے کیا ہے؟ جس طرح کی یہ شرائط ہیں کیا کوئی بھی لایا جانے والا انتظام اس پر پورا اتر پائے گا؟ انسانی معاشرے کے حکمرانوں کے طور پر فرشتوں کی تلاش ایک دیوانگی ہی ہے!ہاں ہمارے نمائندوں پر کڑی شرائط عائد ہونی چاہییں جن سے گزر کر ہی وہ پارلیمنٹ میں گدی حاصل کر سکیں، ٹیکس چوری اور دیگر جرائم کی جانچ پڑتال کے لئے بہترین نظام بنانا ہی صرف اسکی روک تھام کر سکتا ہے. ایسی مبہم آئینی شقیں جمہوریت کا گلا گھونٹنے یا پھر ریڈی میڈ عوامی نمائندوں کی تیاری کا چور دروازہ ہی ثابت ہوں گی.آپ کتنے چور اور جعلی ڈگری والے باہر نکالیں گے؟؟ یہ پھر ووٹ لے کر آ جائیں گے وہ بھی پہلے سے زیادہ. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ نظام میں نہیں معاشرے میں ہے جس کا سدھار کم از کم آئینی شقیں تو نہیں کر سکتیں! اگر تو مقصود فرشتے ہیں تو پھر اسکے لئے انتظار فرمایے!

علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔