پاکستان کا قانون یہ کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کے خلاف ایک جرم پر دو مختلف فورم پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
اگر ایف آئی آر درج ہے اور مقامی سطح پر اس کے خلاف تحقیقات شروع ہیں تو پھر اگر الیکشن کمیشن چاہے بھی تو پٹیشن نہیں سن سکتا۔ یا پھر الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ایف آئی آر کو ختم کرنے کا حکم دے اور خود مقدمہ سُنے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کسی پاکستان کے قانون میں ویڈیو فوٹیج کو بطور شہادت یا ثبوت نہیں مانا جاتا۔اگر آپ کو یاد ہو تو کراچی میں رینجرز نے ایک شہری کو گولی ماری جس کی فوٹیج ٹی وی پر نشر ہوئی۔وی شہری تڑپ تڑپ کر مرتا رہا جسے پوری قوم نے دیکھا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس پر سوموٹو لیا۔ رینجرز نے جواب داخل کیا کہ اسے غلطی سے گولی لگی۔اسے فوراً ایمولنس میں ڈال کر ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ لیکن راستے میں ہی اس کی موت ہوگئی۔اور عدالت نے کیس خارج کر دیا۔
جسٹس سردار رضا خود سپریم کورٹ کا جج رہا ہے اسے تو معلوم ہی ہوگا کہ قانون کسی بھی شہری کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ عدالت میں دائر کردہ کوئی بھی مقدمہ واپس لے سکتا ہے۔یہاں تک کہ قتل کے مقدمات صلح کر نے کی وجہ سے واپس لے لیتا ہے۔ وہاں عدالت یہ تو نہیں کہتی کہ نہیں ہم نے ضرور ملزم کو پھانسی دینی ہے۔