یہ سیکولر لبرلز کا مسئلہ نہیں ہےthis is not Pak problem (thumbsdown)
نیٹو سپلائی بند کراؤ، نو دو گیارہ پاکستان کا مسئلہ نہیں تھاPak ko kisy k maslo me pengy nhe leny chahiye, ye miser ka androoni maamlaa hy
شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ ہم يقينی طور پر جمہوريت کو بہترين نظام حکومت سمجھتے ہيں اور دنيا بھر ميں اس کا پرچار بھی کرتے ہيں کيونکہ ہم اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ دنيا بھر ميں عام انسانوں کے خوابوں کو حقيقت بنانے کے ليے يہی بہترين لائحہ عمل ہے۔ ليکن يہ ہر قوم پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے نظام حکومت اور قائدين کو ترجيح ديتے ہيں۔ امريکی حکومت پوری دنيا پر اپنی قدريں مسلط نہيں کر سکتی۔ اس قسم کی مہم جوئ کے ليے نا تو ہمارے پاس وسائل ہيں اور نا ہی ہماری ايسی کوئ خواہش ہے۔
يہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امريکہ اور دنيا کے کسی بھی ملک کے درميان تعلقات کا انحصار بہت سارے عوامل پر ہوتا ہے جس ميں باہمی دلچسپی کے امور اور مخصوص معاملات پر پاليسی ساز فيصلے بھی ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ جمہوريت يا آمريت سميت کسی مخصوص نظام حکومت کی موجودگی سفارتی تعلقات کی نوعيت پر اثرانداز ضرور ہوتی ہے ليکن يہ فيصلہ کن يا حتمی کردار ادا نہيں کرتی۔
جہاں امريکہ کے ايسے ممالک سے روابط رہے ہيں جہاں آمريت ہے، وہاں ايسے بھی بہت سے ممالک ہيں جہاں جمہوريت يا اور کوئ اور نظام حکومت ہے۔
کچھ تجزيہ نگاروں اور راۓ دہندگان کے ليے يہ بہت سہل ہے کہ مصر ميں ہونے والی سياسی تبديليوں کے ليے سارا الزام امريکہ پر ڈال ديں اور پھر ايک "آمر" کی طرف داری کرنے پر ہميں ہدف تنقيد بنائيں۔ تاہم کچھ حقائق کو مدنظر رکھيں۔
مصر کے موجودہ صدر سسی کو اس وقت سرکاری طور پر مصر کا نيا صدر تسليم کيا گيا جب ملک کے انتخابی کميشن نے يہ اعلان کيا کہ ملک ميں ہونے والے صدارتی انتخابات ميں انھوں نے 1۔96 فيصد ووٹوں سے کاميابی حاصل کی ہے۔
مصر ميں افسران بالا نے تصديق کی کہ مصر ميں 53 ملين ممکنہ ووٹرز ميں سے 5۔47 فيصد نے اپنا حق راۓ دہی استعمال کيا جو سال 2012 ميں ہونے والی صدارتی انتخابات کی شرح 52 فيصد سے خاصا قريب تھا۔
ان حقائق کی روشنی ميں کيا امريکی حکومت کے ليے يہ دانشمندانہ فيصلہ ہوتا کہ مصر سے اپنے طويل سفارتی تعلقات يکسر منقطع کر ليے جائيں؟ پاکستان سميت دنيا کے کتنے ممالک نے مورسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد مصر سے تعلقات منقطع کيے؟ امريکی حکومت کو ہی کيونکر ہدف تنقيد بنايا جاۓ اور پھر مصر ميں واقعات کے اس تسلسل کے ليے قصوروار سمجھا جاۓ جو سياسی تبديلی کا باعث بنے؟
مصر ميں سياسی تنازعے کے آغاز ہی سے امريکی حکومت اور صدر اوبامہ نے بذات خود مصر ميں ايسے پرامن انتقال کے حق ميں آواز بلند کی ہے جو مصريوں کی امنگوں کی ترجمانی کرے۔ صدر نے بارہا تشدد کی روک تھام پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور ديا ہے اور برداشت، عالمی حقوق بشمول پرامن اجتماع، وابستگی ، تقرير اور ايک ايسی جمہوری حکومت کی جانب پرامن انتقال کی حمايت پر زور ديا ہے جو مصر کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرے۔
تاہم اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ امريکی حکومت مصر کے اندرونی معاملات کا تعین نہیں کرتی۔ اس بات کا فيصلہ مصرکی عوام نے کرنا ہے کسے اور کس طرز کی حکومت کو وہ اپنے ليے موزوں سمجھتے ہيں۔
امريکہ کے پاس نہ تو يہ اختيار ہے اور نہ ہی ايسی کوئ خواہش ہے کہ وہ مصر ميں اپنی مرضی کے سیاسی حکمرانوں کا انتخاب کرے۔ ان معاملات کا فيصلہ مصر کی عوام نے خود کرنا ہے۔
شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
[email protected]
www.state.gov
https://twitter.com/usdosdot_urdu
http://www.facebook.com/usdoturdu
Pak ko kisy k maslo me pengy nhe leny chahiye, ye miser ka androoni maamlaa hy
مصر کے سفیر ہی کو نکال دو، نا رہے گا بانس نا بجے کی بانسری. تعلق رکھنا ہے تو ایک دوسرے کے مسائل میں جھانکنا ہو گاNATO supply band krny ka matlb World vs Pakistan ..... smjh aye ??
شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|