Can anyone explain Rehman Malik's frequent trips to iran? Whats behind them?

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
Re: can anyone explain rehman maliks frequent trips to iran?whats behind them?



درست کہا آپ نے میں بھی اہل تشیع کے خلاف اس طرح کی ہرزہ سرائی کی پر زور مذمّت کرتا ہوں بدقسمتی سے ہم اسلام کے آفاقی نظام کو سمجھنے کی بجاۓ فروعی مسائل میں الجھ کے رہ گئے ہیں


نہایت ادب اور احترام کے ساتھ عرض کروں گا کہ اس ضمن میں بے شمار شکوک و شبھات موجود ہیں اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ایک صفحے پر نہیں ہیں -- مرے خیال میں ایران کا گوادر کو سو میگا وات بجلی فراہم کرنا ایسا ہی ہے جیسے امریکا ہمیں امداد فراہم کرتا ہے -- بظاھر دوستی کے روپ میں پشت پر وار بھی کیا جاتا ہے -- ایسا نہیں کہ ہم دودھ کے دھلے ہوے ہیں لیکن ایسی کئی رپورٹس موجود ہیں کہ ایران پاکستانی بلوچستان میں لسانی گڑ بڑ کو سپورٹ کرتا رہا ہے اور باقی ماندہ ملک میں مسلکی لڑائیوں میں بھی پیسہ اور مدد فراہم کرتا رہا ہے


ایک گھر میں دو بھائیوں میں بھی اختلافات ہو جاتے ہیں۔ افسوس کہ ہر چیز پرفیکٹ نہیں ہو سکتی۔

بلوچستان کا مسئلہ صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ ایران کے لیے بھی دردِ سر بنا ہوا ہے۔ آپکے مطابق رپورٹس کہہ رہی ہیں کہ ایران بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند دہشتگردوں کو سپورٹ کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی یہ بات درست ہو، مگر مجھے ابھی تک اس کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں مل سکے ہیں اور آئی ایس آئی کے کسی چیف یا چیف آف آرمی سٹاف نے اس بات کی کبھی تصدیق نہیں کی ہے کہ ایران بلوچ علیحدگی پسند دہشتگردوں کی مدد کر رہا ہے۔ (میرے نزدیک ان دو عہدوں پر فائز لوگوں کی اہیمیت بہت زیادہ ہے)۔

دوسرا آرگومینٹ اس سلسلے میں یہ بھی آتا ہے کہ ایران کو بلوچ علیحدگی پسند دہشتگردوں سے بذاتِ خود بہت خطرہ ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اگر پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک کامیاب ہوتی ہے تو اسکا اگلا حدف ایران میں سیستان بلوچستان صوبے کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ اس کی حقیقت ان دو فیکٹ سے واضح ہوتی ہے کہ::۔

پہلا یہ کہ ایران میں پہلے سے بلوچ دلیحدگی پسند تحریک موجود ہے اور اسکے پاکستانی بلوچ علیحدگی پسندوں سے رابطے بھی ہیں۔

دوسرا اہم فیکٹر یہ ہے کہ جب جند اللہ کے سربراہ ریگی کو سزائے موت دی گئی تو پاکستانی بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے بھی اسکے خلاف مظاہرہ کیا اور ریگی انکے نزدیک دہشتگرد نہیں بلکہ ہیرو ہے۔

ان حقائق کو اگر میں مد نظر رکھوں تو میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ یقین کر سکوں کہ ایران واقعی پاکستانی بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔

اب تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔

جہاں تک ایرانیوں کی سوچ کو میں سمجھ پائی ہوں تو انہیں بھی پاکستان سے شکوہ ہے کہ امریکی کھل کر پاکستانی بلوچستان کو ایران کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور امریکی سی آئی اے بلوچستان میں جنداللہ کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ ایران نے بلوچستان کی حکومت میں موجود چند بلوچ قوم پرست سیاستدانوں پر بھی جنداللہ کی مدد کرنے کا الزام لگایا ہے۔

بہرحال ہمیں یہ تلخ حقیقت ماننی پڑے گی کہ دنیا میں کوئی چیز پرفیکٹ نہیں ہے۔ اگرچہ کہ ایران کشمیر اور دیگر بہت سے مواقعوں پر پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے مگر سیاست، مفادات اور طالبان جیسے مسائل پر اختلافات بھی ہیں۔ اگر دونوں ممالک عقلمند ہوئے تو یہ مسائل وہ گفت وشنید کے ذریعے بہتر طریقے سے حل کر لیں گے، ورنہ دونوں طرف کے انتہا پسند نفرتیں پھیلانے میں کامیاب ہونے لگیں گے (پاکستان میں تو ایک مذہبی فرقہ وارانہ طبقہ پہلے سے ہی ایران کے خلاف ہر وقت الزام بازی کرتا رہتا ہے، مگر میرے لیے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے جب میں دیکھتی ہوں کہ ایران کی نئی نسل کا ایک قابل ذکر حصہ بھی پاکستان سے کافی حد تک متنفر ہوتی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ طالبان کے نام پر ہو رہا ہے۔ یہ چیز اچھی نہیں ہے کہ مثبت قوتیں جو دونوں ممالک میں پیار و امن چاہتی ہیں، وہ کمزور پڑیں۔

میری ناقص معلومات کے مطابق گوادر پورٹ کے معاملے میں کوئی طالبانی فتنہ موجود نہیں ' بلوچ علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکا حقیقت پسندی سے تجزیہ کرنا چاہئیے
ہ

آپ کی بات درست ہے اور بلوچ علیحدگی پسند تحریک بھی گوادر پورٹ میں ملوث ہے۔ مگر وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ طالبان کی وجہ سے شمالی افغانستان اور نو آزاد مسلم ریاستوں سے پاکستان کے تعلقات مکمل طور پر کٹ گئے ہیں اور وہاں طالبان کی وجہ سے پاکستان سے بہت نفرت پائی جاتی ہے۔

اگر یہ طالبانی اثرات پاکستان اور ان ممالک کے درمیان اثر انداز نہ ہوتے تو گوادر ہی نہیں بلکہ کراچی پورٹ سے ہی ان ممالک کو سامان کی ترسیل شروع ہو چکی ہوتی۔ چنانچہ یہاں مسئلہ صرف گوادر پورٹ کا نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر مسئلہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات اور اعتماد کی بحالی کا ہے اور اسکے بغیر ان سے تجارت شروع ہی نہیں ہو سکے گی۔


افغانستان کی حد تک آپ کی بات سے میں متفق ہوں لیکن اس میں زبان سے زیادہ جغرافیائی صورت حال اہم ہے مشرقی افغانستان چونکہ پاکستان سے زیادہ قریب ہے اسی لیے ان کی تجارت کراچی پورٹ سے ہوتی ہے -- پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں تقریبا مفت ٹرانزٹ فراہم کرتا ہے --- ایران سے متصلہ علاقوں کی افغان تجارت کو ایران نے راستہ ٢٠٠١ کے بعد دیا ہے جب امریکا 'ایران اور بھارت کی حکومتوں میں طالبانی مسلے پر مکمّل تعاون دیکھنے میں آیا --- لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی افغانستان کی ٹریڈ کا موزوں راستہ ایران ہی کا بنتا ہے

انڈیا کے متعلق تو رپورٹ ہیں کہ وہ چاہ بہار بندرگاہ میں انویسٹمنت کر رہا ہے، مگر امریکا کے متعلق مجھے کوئی ٹھوس رپورٹ نہیں ملی ہے۔ افغانستان کے فارسی بولنے والے علاقوں اور ایران میں بہت گہرے رشتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ امریکا ان رشتوں کو ختم نہیں کر سکتا اور نہ انہیں ایران سے تجارت کرنے سے روک سکتا ہے۔ ابھی تک کئی ملین افغان مہاجریں پاکستان کی طرح ایران میں مقیم ہیں۔ طالبان کے خلاف نفرت ابھی تک ان میں مشترک ہے۔ امریکا کے لیے بہت مشکل ہے کہ انہیں ایران سے دور رکھ سکے۔ افغانستان میں حامد کرزئی ہو یا پھر کوئی بھی طالبان مخالف حکومت بنے، یہ بہرحال حقیقت رہے گی کہ اسکا جھکاؤ پاکستان سے زیادہ ایران کی جانب رہے گا کیونکہ پاکستان کو پتا نہین کتنا اور عرصہ طالبانی گناہ کا پرائسچت کرنا پڑے۔ یہ چیز ہمیں پسند آئے یا نہ آئے مگر یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمارے ماضی کی کچھ غلطیاں اتنی آسانی سے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ پائیں گی اور اسکے اثرات ہماری معشیت اور کاروبار پر بھی نظر آتے رہیں گے ۔

ایران کی گوادر پورٹ کے قریب مشہور بندر گاہ بندر عباس تھی لیکن وسط ایشیائی ریاستوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے اور خاص طور پر پاکستان کے گوادر پلان کا مقابلہ کرنے کے لیے چاہ بہار کی بندر گاہ کو ڈویلوپ کیا گیا اس سلسلے میں ہندوستان نے ایران کے ساتھ خوب تعاون کیا اور ایران کو چاہ بہار سے ترکمانستان کی سرحد تک ریلوے بچھانے میں بھرپور مدد فراہم کی -- ہندوستان کی دلچسپی کی وجہ وسط ایشیائی ریاستوں تک اپنی اشیا پہنچانا تھا اور ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے وہ ایرانی راستے استعمال کرے گا اور دوسری وجہ گوادر کو کامیاب ہونے سے روکنا بھی تھا اور اس ضمن میں ہندوستان اور ایران میں اتفاق تھا


بات یہ ہے کہ پاکستان اور ایران دونوں کو حق ہے کہ وہ وسطی ایشائی ریاستوں کو سپلائی لائن مہیا کریں۔ افسوسناک بات ہے کہ جب مفادات کے نام پر سیاست انوالو ہو جاتی ہے۔ ایران کے ساتھ صرف بھارت ہی اس سلسلے میں تعاون نہیں کر رہا بلکہ وسطی ایشیائی ریاستیں بذاتِ خود ایران سے تعاون کر رہی ہیں اور ایران کو ملک کے اندر تک ٹرین لائنیں مہیا کر رہی ہیں۔ پاکستان اس ضمن میں بہت بہت پیچھے رہ گیا ہے اور اسکی وجہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی کمی ہے۔

مثبت مسابقت ایک اچھی چیز ہے اور اسکی مثال جرمنی کی ہمبرک کی بندرگاہ اور ہالینڈ کی بندرگاہ ہے۔ یہ دونوں پورے یورپ کو سامان مہیا کرتی ہیں اور ان میں مسابقت ہے مگر یہ ایک مثبت مسابقت ہے۔ کاش کہ ایران اور پاکستان بھی اس چیز کو اس مثبت رویے تک رکھ پائیں اور ایران بھارت کو زیادہ لفٹ نہ کروائے اور پاکستان امریکا کو لفٹ نہ کروائے کہ جس طرح ان دونوں نے ایران کو وسطی ایشیائی ریاستوں سے آئل پائپ لائن سے محروم کرنے کے لیے افغانستان میں طالبان کی بنیاد ڈال دی تھی۔

زبان اور ثقافت کے معاملے پر بھی میں آپ سے مکمّل اتفاق نہیں کرتا اگرچہ کئی وسط ایشیائی ممالک دور قدیم کے خراسان کا حصہ رہے ہیں لیکن ایرانی اور تورانی تعصب ہمیشہ موجود رہا ہے ایران کی سرحد صرف ترکمانستان سے ملتی ہے وہاں کی زبان ترکی کی ایک شاخ ضرور ہے لیکن ایرانی آزری سے کافی مختلف ہے یہی حال ازبک زبان کا بھی ہے تاجکستان کی زبان اگرچہ فارسی ہے لیکن جغرافیائی طور پر ایران سے کافی دور ہے اور پاکستان سے کافی قریب ہے کیرغیستان اور قزاقستان کی ترک زبانیں بھی آزری سے مختلف ہیں -- بلکہ کیرغیستان بھی جغرافیائی لحاظ سے براہ چین ' پاکستان سے قریب تر ہے ---- مقصد کہنے کا یہ ہے کہ لسانی اور ثقافتی رشتے اگر ہوں بھی تو باہمی تجارت پہ کوئی خاص اثر انداز نہیں ہوتے محل وقوع زیادہ اہم ہوتا ہے

آپکی معلومات بہت ٹھوس ہیں اور آپ سے بات کرنے کا مزہ آتا ہے۔ محل و وقوع کے متعلق آپ کی بات بہت صحیح ہے۔ مگر اگر آج کی صورتحال کا صحیح تجزیہ کریں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ فیکٹرز زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

پہلا فیکٹر ہے وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلقات۔ افسوس کہ پاکستان کے تعلقات ان وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہرگز اچھے نہیں ہیں اور وہان طالبان کے نام پر پاکستان سے نفرت اور ڈر پایا جا رہا ہے۔ اسی خوف کی وجہ سے انکے درمیان اقتصادی معاہدے نہٰیں ہو پا رہے ہیں جیسا کہ یہ وسطی ایشیائی ریاستیں آئے دن ایران اور ترکی کے ساتھ اقتصادی معاہدے کر رہی ہوتی ہیں۔ انہی معاہدوں کی وجہ سے ان ممالک نے ایران سے سامان کی ترسیل کا پورا ٹرین نیٹ ورک تک قائم کر لیا ہے۔

چنانچہ مجھے لگتا ہے کہ جغرافیائی حدود کی حقیقت کی باوجود اس معاملے میں سیاسی تعلقات زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ انڈیا کے ساتھ ہماری جغرافیائی حدود تو ہیں مگر سیاسی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے اقتصادی رابطے بھی نہیں ہیں۔

میں کبھی کبھار ان پاکستانی افسران کی ذہانت پر تنقید کرتی ہوں کہ جنہوں نے طالبان کو اس مقصد کے لیے بنایا کہ وسطی ایشیائی رساتوں سے تجارت کر سکیں۔ تو وہ ان ریاستوں کو اپنا دشمن بنا کر ان سے کون سی تجارت کرنا چاہ رہے تھے

گوادر پورٹ کا اصل مقصد چین نہیں تھا نواز شریف نے جب "ٹرانسپاک موٹر وے پراجیکٹ" کی بنیاد رکھی تو اسکا مقصد طور خم کو گوادر سے ملانا تھا اور پھر افغانستان کے شمال میں افغانوں کی مدد سے تاجکستان اور ازبکستان کو لنک فراہم کرنا تھا بعد میں جب افغانستان میں استحکام نا ہو سکا تو اس منصوبے کو معطل کرنا پڑا چین کو توخود بخد لنک مل ہی جانا تھا کیونکہ شاہراہ ریشم نے ایم ون موٹر وے سے مل جانا تھا ---- جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ گوادر تک رسائی میں طالبان کے زیر کونٹرول کوئی علاقہ نہیں آتا اس لیے میری خواہش یه ہے کہ آپ کھل کے "اصل مجرمان" کی نشاندہی کریں
اللہ پاکستان کو ہر قسم کے انتہا پسندوں سے محفوظ رکھے خواہ وہ مذہب کی لبادے میں ہوں یا زبان رنگ و نسل کے لبادے میں --- آمین

گوادر پورٹ ایک ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہے اور اصل مسئلہ پاکستان میں امن و امان اور دہشتگردی کا ہے۔ چین کا مال کراچی کی بندرگاہ سے بھی عرب ممالک میں جا سکتا ہے مگر امن و امان کی وجہ سے یہ تجارت شروع ہی نہیں ہو پا رہی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شاہراہ ریشم تو موجود ہے مگر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا پا رہا ہے۔ چین کو بہرحال پاکستانی سوسائٹی میں موجود طالبانی عناصر پر تشویش ہے۔ ہم اس تشویش کا ذکر نہیں کرتے ہیں مگر بہرحال بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک فیکٹر موجود ہے۔ چین نے صوبہ سنکیانگ میں طالبان کی موجودگی کے بعد انفراسٹرکچر بنانا کم کیا ہوا ہے اور اس پراجیکٹ میں ان میں اب زیادہ گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔

جبتک پاکستان میں امن امان کا مسئلہ ہے اُس وقت تک یہ براہ راست نہ بھی ہو تب بھی بالواسطہ طور پر ہر ہر اقتصادی سرگرمی پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔ چین جیسا دوست ملک بھی پاکستان میں فارن انویسٹمنٹ کرتے ہوئے گھبرائے گا۔ باقی ممالک تو پہلے سے ہی بھاگے ہوئے ہیں۔

 

samar

Minister (2k+ posts)
aaj phir abbottabad se reports hain k jets ne kafi dair faazaoon me parvaaz ki.................situation is really tense...........Allah se dua krain
 

Back
Top