Invisible.Sword
Councller (250+ posts)
بوٹ پالشیا اور بچہ جمہورا
بوٹ پالشئے ضرور ہوتے ہیں- یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی مفاد اور پیسے کی خاطر اپنا ضمیر بیچ کر فوج کی ناجائز وکالت کرتے رہتے ہیں ہر وقت- چاہے فوج غلطی پر ہی کیوں نا ہو- اور سیاستدانوں کے ہر وقت لتے لیتے رہتے ہیں- یہ لوگ فوج کو ہر قسم کی غلطی سے بالاتر سمجھتے ہیں- ان میں ایک گروہ وہ بھی ہے جو دل سے اور بغیر کسی لالچ کے فوج کو واقعی معصوم سمجھتے ہیں
اسی طرح بچے جمہورے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی یا گروہی مفاد کی خاطر "جمہوریت کے وکیل" بنے رہتےہیں- تعصب ان کو اندھا کر دیتا ہے، فوج کی ہر بات کے پیچھے ان کو سازش نظر آتی ہے اور ہر وقت سیاستدانوں کے واری صدقے جاتے ہیں چاہے وہ جتنے بھی کرپٹ ہوں- ان میں مذہب فروش بھی شامل ہیں اور مذہب بیزار بھی، سیکولر بھی اور اپنی طرف سے "خلافت" کے داعی بھی- ان میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو پوری ایمانداری اور خلوص سے فوج کو ہی غلط سمجھتے ہوں گے
پاکستانی معاشرے کا المیہ ہی انتہا پسندی ہے- معروضی حالات اور تجزیاتی نظر سے بہت ہی کم لوگ حالات دیکھتے ہیں- لیکن میانہ روی ہی بہترین راستہ ہے- ایشو ٹو ایشو چل کے راۓ قائم کرنی چاہیے- نا توفوج فرشتہ ہے، نا سیاستدان شیطان اسی طرح نا تو سیاستدان فرشتے ہوتے ہیں نا فوج شیطان- بہت اچھے سیاستدان بھی ہوتے ہیں اور بہت محبت وطن جرنیل بھی- سب سے پہلے مثالی پوزیشن واضح ہو جاۓ
مثالی طور پر سیاستدان سب کے سب ایماندار ہونے چاہییں، سول ادارے اتنے مضبوط ہونے چاہئیں کہ کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب ہو سکے- پولیس غیر سیاسی ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ- اسی طرح فوج کا کام مثالی طور پر محض سرحدوں پر ہونا چاہیے- سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے- وغیرہ وغیرہ-
یہاں تک سب ٹھیک، زیادہ تر لوگ متفق ہی ہوں گے- مگر یہاں سے آگے بات اختلافی ہو جاتی ہے- یہاں ہمارے "جمہوری" دوست کہتے ہیں کہ سیاستدان جو مرضی کر لے، بے شک ملک لوٹ کر کھا جاۓ اسے سزا دینے یا چیک کرنے کا حق صرف اگلے الیکشن میں ملے گا عوام کو، فوج کو کوئی دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں کسی بھی قیمت پر-
یہ مطالبہ بظاہر ٹھیک ہی نظر آتا ہے مگر اس میں کچھ مسائل ہیں- خصوصا پاکستانی پس منظر میں- ان کی لسٹ نیچے دی جا رہی ہے
ایک- الیکشن جیتنے کا مطلب پانچ سال کے لئے "لائسنس ٹو کل" ہرگز نہیں ہوتا- حکومت پھر بھی آئین اور قانون کے تابع رہ کر کام کرنے کی پابند ہوتی ہے
دو- پرامن احتجاج سیاسی جماعتوں کا بنیادی اور آئینی حق ہوتا ہے جو قائم رہتا ہے بلکہ فرض ہوتا ہے اپوزیشن جماعتوں پر جب بھی حکومت اپنی حدود سے تجاوز کرے
تین- اگر حکومت اپنی طاقت اور عددی برتری کا فائدہ اٹھا کر انصاف فراہم کرنے والے ہر چینل اور فورم کو بلاک کر دے تو پھر سول بے چینی پیدا ہوتی ہے
چار- سول بے چینی تک فوج سیاست میں دخل اندازی سے گریز کرتی ہے- البتہ جب اس کے نتیجے میں نوجوانوں کا طالبانی تنظیموں سے متاثر ہونے کاخطرہ پیدا ہو جاۓ یا خانہ جنگی کا احتمال ہو توپھر فوج آگے بڑھ کے اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے
پانچ- پاکستان میں تاریخی طور پر فوج ہمیشہ ایسے ہی حالات میں اقتدار میں آتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جاتی بھی ایسے ہی حالات میں ہے- جب بھی فوج کو لگے کہ نظام کو مزید چلانے کے لئے عوام پر طاقت استعمال کرنی پڑے گی تو وہ بطور ایک ادارہ حاکم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے چاہے حاکم فوجی ہو یا غیر فوجی- حالیہ تاریخ میں مشرف کی رخصتی اس عمل کی واضح منظر تھی
چھ- بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے مگر بدترین آمریت بھی خانہ جنگی سے بہتر ہے، یقین نا آ رہا ہو تو عراق، لیبیا اور شام کو دیکھ لیں- ایسے حالات میں پاک فوج واحد رکاوٹ بن جاتی ہے جو پاکستان کو ایسے فساد سے بچا لے جاتی ہے
منطقی نتیجہ: اس ساری گفتگو کا مختصر سا نچوڑ یہ ہے کہ اگر مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک ادارہ بھی اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کر رہا ہو بنا کسی سیاسی مداخلت کے توفوج کو مارشل لا نا لگانا چاہیے نا ہی لگاتی ہے میری عاجزانہ راۓ میں- مارشل لا سے بچاؤ کے ادارے جن کا سیاسی اثر سے آزاد ہونا ضروری ہے: پولیس، نیب، اعلی عدلیہ، ایف آئی اے
بدقسمتی سے سیاسی قوتیں چاہے وہ مارشل لائی دور کی ہوں یا جمہوری سب سے پہلے انہی اداروں کو مفلوج کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور یہی ان کی تباہی پر منتج ہوتا ہے چاہے وہ مشرف کی حکومت ہو یا نواز شریف کی- امید ہے دوست ان زاویوں پر بھی نگاہ رکھا کریں گے مستقبل میں- شکریہ
اسی طرح بچے جمہورے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی یا گروہی مفاد کی خاطر "جمہوریت کے وکیل" بنے رہتےہیں- تعصب ان کو اندھا کر دیتا ہے، فوج کی ہر بات کے پیچھے ان کو سازش نظر آتی ہے اور ہر وقت سیاستدانوں کے واری صدقے جاتے ہیں چاہے وہ جتنے بھی کرپٹ ہوں- ان میں مذہب فروش بھی شامل ہیں اور مذہب بیزار بھی، سیکولر بھی اور اپنی طرف سے "خلافت" کے داعی بھی- ان میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو پوری ایمانداری اور خلوص سے فوج کو ہی غلط سمجھتے ہوں گے
پاکستانی معاشرے کا المیہ ہی انتہا پسندی ہے- معروضی حالات اور تجزیاتی نظر سے بہت ہی کم لوگ حالات دیکھتے ہیں- لیکن میانہ روی ہی بہترین راستہ ہے- ایشو ٹو ایشو چل کے راۓ قائم کرنی چاہیے- نا توفوج فرشتہ ہے، نا سیاستدان شیطان اسی طرح نا تو سیاستدان فرشتے ہوتے ہیں نا فوج شیطان- بہت اچھے سیاستدان بھی ہوتے ہیں اور بہت محبت وطن جرنیل بھی- سب سے پہلے مثالی پوزیشن واضح ہو جاۓ
مثالی طور پر سیاستدان سب کے سب ایماندار ہونے چاہییں، سول ادارے اتنے مضبوط ہونے چاہئیں کہ کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب ہو سکے- پولیس غیر سیاسی ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ- اسی طرح فوج کا کام مثالی طور پر محض سرحدوں پر ہونا چاہیے- سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے- وغیرہ وغیرہ-
یہاں تک سب ٹھیک، زیادہ تر لوگ متفق ہی ہوں گے- مگر یہاں سے آگے بات اختلافی ہو جاتی ہے- یہاں ہمارے "جمہوری" دوست کہتے ہیں کہ سیاستدان جو مرضی کر لے، بے شک ملک لوٹ کر کھا جاۓ اسے سزا دینے یا چیک کرنے کا حق صرف اگلے الیکشن میں ملے گا عوام کو، فوج کو کوئی دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں کسی بھی قیمت پر-
یہ مطالبہ بظاہر ٹھیک ہی نظر آتا ہے مگر اس میں کچھ مسائل ہیں- خصوصا پاکستانی پس منظر میں- ان کی لسٹ نیچے دی جا رہی ہے
ایک- الیکشن جیتنے کا مطلب پانچ سال کے لئے "لائسنس ٹو کل" ہرگز نہیں ہوتا- حکومت پھر بھی آئین اور قانون کے تابع رہ کر کام کرنے کی پابند ہوتی ہے
دو- پرامن احتجاج سیاسی جماعتوں کا بنیادی اور آئینی حق ہوتا ہے جو قائم رہتا ہے بلکہ فرض ہوتا ہے اپوزیشن جماعتوں پر جب بھی حکومت اپنی حدود سے تجاوز کرے
تین- اگر حکومت اپنی طاقت اور عددی برتری کا فائدہ اٹھا کر انصاف فراہم کرنے والے ہر چینل اور فورم کو بلاک کر دے تو پھر سول بے چینی پیدا ہوتی ہے
چار- سول بے چینی تک فوج سیاست میں دخل اندازی سے گریز کرتی ہے- البتہ جب اس کے نتیجے میں نوجوانوں کا طالبانی تنظیموں سے متاثر ہونے کاخطرہ پیدا ہو جاۓ یا خانہ جنگی کا احتمال ہو توپھر فوج آگے بڑھ کے اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے
پانچ- پاکستان میں تاریخی طور پر فوج ہمیشہ ایسے ہی حالات میں اقتدار میں آتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جاتی بھی ایسے ہی حالات میں ہے- جب بھی فوج کو لگے کہ نظام کو مزید چلانے کے لئے عوام پر طاقت استعمال کرنی پڑے گی تو وہ بطور ایک ادارہ حاکم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے چاہے حاکم فوجی ہو یا غیر فوجی- حالیہ تاریخ میں مشرف کی رخصتی اس عمل کی واضح منظر تھی
چھ- بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے مگر بدترین آمریت بھی خانہ جنگی سے بہتر ہے، یقین نا آ رہا ہو تو عراق، لیبیا اور شام کو دیکھ لیں- ایسے حالات میں پاک فوج واحد رکاوٹ بن جاتی ہے جو پاکستان کو ایسے فساد سے بچا لے جاتی ہے
منطقی نتیجہ: اس ساری گفتگو کا مختصر سا نچوڑ یہ ہے کہ اگر مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک ادارہ بھی اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کر رہا ہو بنا کسی سیاسی مداخلت کے توفوج کو مارشل لا نا لگانا چاہیے نا ہی لگاتی ہے میری عاجزانہ راۓ میں- مارشل لا سے بچاؤ کے ادارے جن کا سیاسی اثر سے آزاد ہونا ضروری ہے: پولیس، نیب، اعلی عدلیہ، ایف آئی اے
بدقسمتی سے سیاسی قوتیں چاہے وہ مارشل لائی دور کی ہوں یا جمہوری سب سے پہلے انہی اداروں کو مفلوج کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور یہی ان کی تباہی پر منتج ہوتا ہے چاہے وہ مشرف کی حکومت ہو یا نواز شریف کی- امید ہے دوست ان زاویوں پر بھی نگاہ رکھا کریں گے مستقبل میں- شکریہ
Last edited by a moderator: