Afghan govt ready to share the Govt with 3rd level Taliban leadership

iltaf

Chief Minister (5k+ posts)
Allah kry is dafa Pakistan Afghanistan me proxies na banaye, Afghanistan me aman hmary liye b utna hi important jitna Afghanistan k liye.
 

allahkebande

Minister (2k+ posts)
جہاد برائے اقتدار کے چکر میں طالبان نے لاکھوں افغانوں کی بلی چڑھا دی ہے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
غیر ملکی فوجی کب تک مقبوضہ جمہوریت کا بوجھ اٹھائیں گے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
پاکستان نے وعدہ پورا کر دکھایا

امید کی جا سکتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے بعد افغان صدر اشرف غنی پر سے بھی دباؤ کم ہو گا

پاکستان افغان حکومت سے اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے بالآخر افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مری کے ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس میں آمنے سامنے لے آیا۔

جہاں تجزیہ نگار اسے پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں وہیں اس کے منتظمین کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ اس کے مخالفین ان مذاکرات کو ناکام بنانےکی کوشش کر سکتے ہیں۔

اور کوئی دیکھے نہ دیکھے، پاکستان اسے اپنی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ 1991 میں افغان مجاہدین کو مکہ معظمہ لے جانے والی کامیابی ثابت ہوتی ہے یا نہیں، لیکن اتنی ہی یا اس سے زیادہ اہم ضرور ہے۔

طالبان سے مذاکرات کے لیے افغانستان کو پاکستان کی ضرورت

حکام کو خدشہ ہے کہ نیویارک ٹائمز جیسی خبریں اس عمل کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس اخبار نے قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے کسی اہلکار کا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان مذاکرات میں ان کی جانب سے کوئی نہیں شریک ہوا اور جو لوگ شریک ہیں انھیں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے ’اغوا‘ کر رکھا ہے۔

پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ اگر مذاکرات میں طالبان کا وفد اصل اور بااختیار نہ ہوتا تو افغان حکومت ان کے ساتھ بیٹھنے کو کیوں تیار ہوتی؟ انھیں تو معلوم ہے کہ کون طالبان رہنما کتنے پانی میں ہے۔

پاکستان نے اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے بالآخر افغان طالبان کو کابل سے مذاکرات پر راضی کر لیا

حکام اس خبر کی وجہ وہ ان عناصر کو قرار دیتے ہیں جو ان مذاکرات سے خوش نہیں۔ ’آپ کو تو معلوم ہے کہ افغانوں میں اگر کسی دو کو اہمیت دیں تو باقی سب ان کے خلاف ہو جاتے ہیں۔‘

افغان طالبان نے آج تک اپنے سیاسی دفتر کی موجودگی کی تو تصدیق کی ہے لیکن اس میں کون کون ہے یہ کبھی نہیں بتایا۔ مری مذاکرات میں طالبان کی جانب سے کون شریک تھا یہ مکمل طور پر واضح نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان کے سابق نائب وزیر خارجہ مولوی عباس اور قاری دین محمد نے قطر سے اس میں شرکت کی۔ کیا ان کے پاس اس کا مینڈیٹ تھا یا نہیں یہ طالبان کے بیان سے ہی واضح ہو سکے گا۔

ان مذاکرات سے امید کی جا سکتی ہے کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی پر سے بھی دباؤ کم ہو گا۔ ان پر الزام لگ رہا تھا کہ وہ پاکستان کی جانب ضرورت سے زیادہ جھک رہے ہیں اور بدلے میں اسے کچھ نہیں مل رہا۔ بلکہ حالیہ کچھ عرصے میں طالبان کے حملوں میں مزید شدت دیکھی جا رہی ہے۔

اب ڈاکٹر غنی زیادہ کھل کر پاکستان پر اعتماد کر سکتے ہیں۔

اس سے کابل میں پاکستان مخالف لابی کی سیاست کو بھی شدید دھچکہ لگ سکتا ہے۔ ان مذاکرات سے پاکستان کو افغانستان میں کھوئی ساکھ بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ افغان وزارت خارجہ نے پہلے ہی ان مذاکرات کی میزبانی پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

یہ مذاکرات ماضی کے طالبان کے غیرملکی دوروں سے مختلف ہیں۔ ان کے بارے میں طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ محض رابطے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھنے کی کوشش ہیں۔ لہٰذا طالبان کا اس حوالے سے بیان کافی اہم ثابت ہو گا۔

اس مذاکرات کے کھیل میں سب سے زیادہ خطرہ طالبان مول لے رہے ہیں۔ ان کو اپنی نچلی صفوں میں اس کی تائید حاصل کرنا انتہائی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر وہ بھی ان مذاکرات کو تسلیم کر لیتے ہیں تو اس اعتبار سے مری مذاکرات افغانستان کی سرزمین پر جاری خون ریزی کے خاتمے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔
 

allahkebande

Minister (2k+ posts)
غیر ملکی فوجی کب تک مقبوضہ جمہوریت کا بوجھ اٹھائیں گے

پاکستان نے وعدہ پورا کر دکھایا

امید کی جا سکتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے بعد افغان صدر اشرف غنی پر سے بھی دباؤ کم ہو گا

پاکستان افغان حکومت سے اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے بالآخر افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مری کے ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس میں آمنے سامنے لے آیا۔

جہاں تجزیہ نگار اسے پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں وہیں اس کے منتظمین کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ اس کے مخالفین ان مذاکرات کو ناکام بنانےکی کوشش کر سکتے ہیں۔

اور کوئی دیکھے نہ دیکھے، پاکستان اسے اپنی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ 1991 میں افغان مجاہدین کو مکہ معظمہ لے جانے والی کامیابی ثابت ہوتی ہے یا نہیں، لیکن اتنی ہی یا اس سے زیادہ اہم ضرور ہے۔

طالبان سے مذاکرات کے لیے افغانستان کو پاکستان کی ضرورت

حکام کو خدشہ ہے کہ نیویارک ٹائمز جیسی خبریں اس عمل کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس اخبار نے قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے کسی اہلکار کا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان مذاکرات میں ان کی جانب سے کوئی نہیں شریک ہوا اور جو لوگ شریک ہیں انھیں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے ’اغوا‘ کر رکھا ہے۔

پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ اگر مذاکرات میں طالبان کا وفد اصل اور بااختیار نہ ہوتا تو افغان حکومت ان کے ساتھ بیٹھنے کو کیوں تیار ہوتی؟ انھیں تو معلوم ہے کہ کون طالبان رہنما کتنے پانی میں ہے۔

پاکستان نے اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے بالآخر افغان طالبان کو کابل سے مذاکرات پر راضی کر لیا

حکام اس خبر کی وجہ وہ ان عناصر کو قرار دیتے ہیں جو ان مذاکرات سے خوش نہیں۔ ’آپ کو تو معلوم ہے کہ افغانوں میں اگر کسی دو کو اہمیت دیں تو باقی سب ان کے خلاف ہو جاتے ہیں۔‘

افغان طالبان نے آج تک اپنے سیاسی دفتر کی موجودگی کی تو تصدیق کی ہے لیکن اس میں کون کون ہے یہ کبھی نہیں بتایا۔ مری مذاکرات میں طالبان کی جانب سے کون شریک تھا یہ مکمل طور پر واضح نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان کے سابق نائب وزیر خارجہ مولوی عباس اور قاری دین محمد نے قطر سے اس میں شرکت کی۔ کیا ان کے پاس اس کا مینڈیٹ تھا یا نہیں یہ طالبان کے بیان سے ہی واضح ہو سکے گا۔

ان مذاکرات سے امید کی جا سکتی ہے کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی پر سے بھی دباؤ کم ہو گا۔ ان پر الزام لگ رہا تھا کہ وہ پاکستان کی جانب ضرورت سے زیادہ جھک رہے ہیں اور بدلے میں اسے کچھ نہیں مل رہا۔ بلکہ حالیہ کچھ عرصے میں طالبان کے حملوں میں مزید شدت دیکھی جا رہی ہے۔

اب ڈاکٹر غنی زیادہ کھل کر پاکستان پر اعتماد کر سکتے ہیں۔

اس سے کابل میں پاکستان مخالف لابی کی سیاست کو بھی شدید دھچکہ لگ سکتا ہے۔ ان مذاکرات سے پاکستان کو افغانستان میں کھوئی ساکھ بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ افغان وزارت خارجہ نے پہلے ہی ان مذاکرات کی میزبانی پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

یہ مذاکرات ماضی کے طالبان کے غیرملکی دوروں سے مختلف ہیں۔ ان کے بارے میں طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ محض رابطے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھنے کی کوشش ہیں۔ لہٰذا طالبان کا اس حوالے سے بیان کافی اہم ثابت ہو گا۔

اس مذاکرات کے کھیل میں سب سے زیادہ خطرہ طالبان مول لے رہے ہیں۔ ان کو اپنی نچلی صفوں میں اس کی تائید حاصل کرنا انتہائی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر وہ بھی ان مذاکرات کو تسلیم کر لیتے ہیں تو اس اعتبار سے مری مذاکرات افغانستان کی سرزمین پر جاری خون ریزی کے خاتمے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔

طالبان اکثر وعدے کر کے پھر جاتے ہیں