لٹکے ہوئے چہروں سے وابستہ امیدیں،ایازامیر

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
ayazmah1i1hs.jpg

پی ٹی آئی ضرور مشکل میں ہوگی لیکن (ن) لیگ کو تومکمل عذاب میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ ان کے چہرے تو دیکھئے ‘ خوشی تو دور کی بات ہے‘ لٹکے ہوئے ہیں‘ پریشانی کے آثار نمایاں نظرآتے ہیں۔ اوپر کے حلقوں کو چھوڑیے‘ ہمارے ضلع چکوال میں جن کو سندِ کامیابی عطا کی گئی وہ بیچارے لٹکے ہوئے چہرے لے کے پھر رہے ہیں۔

عجیب الیکشن ہوئے کہ جو مبینہ طور پہ ہارے وہ ہشاش بشاش ‘ چہروں پر مسکراہٹ‘ آنکھوں میں چمک اورجومبینہ طور پہ فاتح قرار پائے ہیں وہ بیچارے ڈپریشن کے دائمی مریض لگتے ہیں۔جوتیوں میں دال تو خوب بٹ رہی تھی مگر اس سے تو بہتر تھا کہ دال کے بجائے باقاعدہ جوتیاں ہی کھا لی جاتیں۔

وزیراعظم صاحب کو بھی دیکھ لیجئے۔ کل ہی اُنہوں نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا ‘ ٹیلی ویژن کی کوریج تو میں نے دیکھی نہیں کیونکہ ٹیلی ویژن سے اکثر پرہیز ہی رہتا ہے لیکن اخبارات میں جو اُن کی تصویریں چھپی ہیں اُن میں ایک پوری داستان لکھی ہوئی نظرآتی ہے۔عجیب ٹینشن کی کیفیت چہرۂ مبارک پرعیاں ہے۔ انوکھے الیکشن کے بعد یہ پہلا دورہ تھا‘ چہرے سے پُراعتمادی جھلکنی چاہئے تھی لیکن یہاں تو بات ہی اُلٹ نظرآتی ہے۔

جس چودھراہٹ میں ذرا سا مزابھی نہ ہو اُس کا کیا فائدہ؟ لیکن اس سوال کا جواب ہم کیا پوری قوم جان چکی ہے‘ جو بھی ان کے ساتھ ہوا ‘(ن) لیگیوں کو جو کچھ ملا اُسی پر راضی ہیں۔ سنا تو میں نے یہ ہے کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی آسانی سے نہ ملی۔ کیا ترلے کرنے پڑے ‘یہ تو میں نہیں کہوں گا اگلے برا منا جائیں گے لیکن سنا یہی ہے کہ کافی تردد کرنا پڑا اورپھرجاکے معاملہ سلجھا۔ ڈارصاحب کا بھی یہی سنا ہے کہ وہاں بھی خاصا تردد کرنا پڑا اور پھر جاکے کہیں بات بنی۔

وہ اشتہار توآپ نے دیکھے ہی ہوں گے‘ آٹے کی بوریوں والے‘ جن پر عزت مآب نوازشریف کی تصویر چسپاں ہے۔ نیچے وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان کی 77سالہ تاریخ میں پہلی بار تیس ارب کا رمضان راشن کا تحفہ‘ ان کی دہلیز پر۔یہ تیس ار ب کی سبسڈی بھی دیوالیہ کے قریب پہنچے ہوئے پبلک خزانے سے۔ ان بٹھائے گئے حکمرانوں کی عقل پر کیا تبصرہ کیا جائے؟ پچھلے ہفتے ہی میں نے ان راشن کی بوریوں پر تصویر کا ذکر کیا تھااور گو بات کو دہرانا اچھا نہیں‘ قوم کے ساتھ یہ اتنا بھونڈا مذاق ہے کہ اس پر کچھ کہے بغیر رہا بھی نہیں جاتا۔

ان عقل کے ماروں سے کوئی پوچھے کہ یہ آپ کے ذاتی پیسے ہیں جن کی آپ اس انداز سے رونمائی کررہے ہو؟ جاتی عمرہ کے کسی حصے کو بیچ کر آپ نے یہ پیسے مہیا کیے ہیں؟پیسے پبلک خزانے کے اور خودنمائی اپنی اوراُس پر پھر ڈھول پیٹنا اور یہ تاثر دینا کہ یہ ہمار ا حق ہے اور ہم جو کرنا چاہیں کریں گے‘ ہمیں روکنے والا کون سا مائی کا لال پیدا ہوا ہے۔ یہ لوگ کس دنیا میں رہ رہے ہیں اور گو بطورِ قوم ہمارے گناہ بہت ہوں گے لیکن پھر بھی ایسی بھونڈی سزا ہمارے گناہوں سے کہیں زیادہ بھاری ہے۔

پی ٹی آئی کی طرفداری کی بات نہیں ‘ یہاں تو ہرچیز طرفداری کی عینکوں سے دیکھی جاتی ہے۔پارٹی وفاداری جس کی جو بھی ہو‘ کچھ چیزیں جچتی اورکچھ بالکل ہی فضول لگتی ہیں۔جس ملک میں ایسے ڈرامے رچائے جاسکتے ہیں اورکوئی پوچھنے والا نہ ہو اورزبان بندی بھی ایک قومی پالیسی ہو تواُس ملک کے بارے میں خدا سے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔برطانیہ میں شہزادی کیتھرین مشکل میں پھنسی ہوئی ہے کہ اُس نے اپنی ایک فوٹو جوکہ بکنگھم پیلس نے ریلیز کی تھی اُسے شہزادی نے تھوڑا سا ایڈٹ کیا جیسا کہ سوشل میڈیا میں اکثر چلتا ہے۔ لیکن برطانیہ میں ایک چھوٹا سا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ شہزادی نے اپنی صحت اور بیماری کے بعد اپنی شکل کے بارے میں پبلک کو گمراہ کرنے کی کیوں کوشش کی۔

بتائیے کہ وہاں کوئی ایسی جسارت کرے کہ عوام کے پیسوں سے لی گئی کسی چیز پر اپنے باپ کا فوٹوچسپاں کردے تو پھر کیا ردِعمل ہوگا؟سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو صرف اس لیے گھر جانا پڑا کہ دورانِ کووِڈ کی پابندیوں کے‘ جب اجتماعات پر پابندی تھی‘ 10 ڈائوننگ سٹریٹ جوکہ برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش ہے ‘میں پارٹیاں منعقد کی گئیں۔اُن پارٹیوں میں بورس جانسن خود موجود نہ تھے لیکن کہنے والوں نے کہا کہ ملک میں اجتماعات پر پابندی ہو اورتمہاری سرکاری رہائش گاہ میں پارٹیاں منعقد کی جارہی ہوں ‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟اور اُس ملک میں کوئی اسلام نافذ نہیں ہے ‘ وہ تو ایک کرسچین ملک ہے۔

ہم اپنے آپ پر فخر کرتے ہیں کہ ایک اسلامی معاشرے کے باشندے ہیں۔ مذہب کی بات آئے توپتا نہیں کیا کچھ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیا سرکاری طور پر اور کیا نجی زندگیوں میں‘ ہمارے کردارکو تو دیکھا جائے ‘ کہیں دور سے بھی شائبہ ہوتا ہے کہ اسلام کا کچھ ہم پر اثر ہو؟ کسی اسلامی معاشرے میں یہ ممکن ہے کہ آٹا خریدا ہوا ہوسرکاری پیسوں سے اور بوریوں پر چسپاں ہو تصویر پاپا جان کی؟ اور یہ لوگ ایسے ہیں جو پارسائی کی باتیں کرتے تھکتے نہیں۔

ہماری قومی زندگی میں اورہماری نجی زندگیوں میں منافقت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ دعوے ہمارے کیا اور ہمارے اعمال کیا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اچھے لوگ نہیں۔ بہت ہیں ا وررمضان میں ہی دیکھ لیجئے جہاں منافقت بہت ہے وہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دل کھول کر خیرات دیتے ہیں‘ لوگوں کیلئے خوراک مہیا کرتے ہیں اور جو ہوسکے کرتے ہیں۔لیکن ایسے لوگ اپنی نمائش کیلئے ڈھنڈورے نہیں پیٹتے۔ پیسے خرچتے ہیں اپنی جیب سے اور خودنمائی سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور یہ بھی ہیں جنہوں نے اتنا مال کھایا ہے کہ حساب لگانے بیٹھیں تو صفحات کم پڑجائیں لیکن ان کی حرص اتنی بے پناہ ہے کہ مطمئن ہونے کا نام نہیں لیتے۔اوپر سے ناٹک یہ ہے کہ وہ اس خوش قسمت قوم کے حکمران بھی بنائے جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان لوگوں سے جو چالیس پچاس سال سے اس قوم کی گردن پر سوار ہیں کب جان چھوٹے گی؟ ایک دو الیکشنوں میں عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ ہماری بس ‘ان لوگوں کو مزید برداشت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن کیا کمال کی سیاست اس ملک کی ہے کہ جن کو عوام نے ردکردیا وہ پھر سے اقتدار کی مسندوں پر بٹھا دیے گئے ہیں۔

چلیں بٹھا دیے گئے ہیں ‘ اس پر ہم کیا اعتراض کرسکتے ہیں؟ اعتراض کریں بھی تو ہماری سننی کس نے ہے؟ یہاں تو الیکشن کمیشن کے فارم 45 ‘ 47 اور49 کے حوالے سے ریاضی کے وہ وہ کمالات دکھائے گئے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام بھی ہوں توسرپکڑلیں۔لیکن اتنی درخواست تو ہوسکتی ہے کہ جو زبردستی جتائے گئے ہیں وہ زمین پر قدم توذرا آہستہ سے رکھیں۔

کم از کم ایسی چیز تونہ کریں جو عام فہم ذوق سے بالکل ہی خالی ہو۔پنجاب کے نئے حکمرانوں کے جو اعمال ہم دیکھ رہے ہیں اُن میں ذوق نام کی کوئی چیز نظر آتی ہے؟ قیمتی کپڑوں میں ملبوس ‘ پیروں میں جوتا بھی پتا نہیں کون سے برانڈ کا ‘ ہاتھ پرایسی گھڑی جس کی لاگت کروڑوں میں ہو‘ اورسرکاری سکول جہاں غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں ‘افسروں کی ایک فوج کے ساتھ دورہ فرمایا جائے۔ ایسی چیزوں سے آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟کس کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟