
وزیراعظم کے دورہ چین پر ڈس انفارمیشن پھیلانے اور پروپیگنڈا کرنے پر حبیب اکرم کا تبصرہ۔۔ کیا ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہے؟ حبیب اکرم کا سوال
اپنے کالم میں حبیب اکرم لکھتے ہیں کہ ذرا تصور فرمائیے کہ ملک کا وزیراعظم چین جیسے عظیم دوست ملک کے دورے پر ہے اور ہمارے جید صحافی اس بات پر شرطیں لگا رہے ہیں کہ میزبان ملک کا صدر وزیراعظم سے نہیں ملے گا۔ اپنے وزیراعظم کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ اس کا استقبال کسی نچلے درجے کے اہلکار نے کیا ہے۔
حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ جب خبرآگئی کہ چین کے صدر نے ہمارے وزیراعظم سے ملاقات کرلی تو پھر شکوک و شبہات پیدا کرنیکی کوشش کی گئی جس مطلب یہ تھا کہ چین سے تعلقات کے حوالے سے حکومت پرباقاعدہ جھوٹ بولنے کا الزام دھرا جائے۔ جب ملاقات کی تصویر آگئی تو یہ کہا گیا ابھی تک چینی حکومت نے جاری نہیں کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب وہاں سے تصویر کے ساتھ خبر ریلیز ہوگئی کہ کہا گیا کہ 'پریس ریلیز میں وہ نکات نہیں جو ہماری حکومت کہتی ہے۔ پھر وہ نکات بھی آگئے تو خاموشی چھا گئی۔
اس پر حبیب اکرم نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم صحافیوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے وزیراعظم کی دوست ملک میں سبکی کے خواہشمند ہیں اوراس کے لیے ہر حد سے گزر جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ کونسی صحافت ہے کہ اپنے ہی ملک کے سربراہ توہین کی خواہش ہماری خبر بن جائے؟ اس قدر نفرت میں ہم اپنا ہی گریبان چاک کر بیٹھے ہیں۔
حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے دورۂ چین کے موقع پر جو کچھ پاکستان میں صحافت اور سیاست کے نام پر ہوا‘ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ بالغ نظری تو دور کی بات ہے‘ ہم بلوغت کی الف ب تک بھی نہیں پہنچے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ذاتی‘ سیاسی‘ مسلکی یا مذہبی اختلافات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ ہم اتنے کمزور‘ نالائق اور پسماندہ ہیں کہ خود ہی اپنی تباہی کے لیے کافی ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/habibn112b11.jpg