قرآن کی روشنی میں منافقین کے نفسیاتی صفات
قرآن مجید وہ نکات جو منافقین کی نفسیاتی شناخت کے سلسلہ میں، روحی و نفسیاتی خصائص کے عنوان سے بیان کر رھا ھے، پہلی خصوصیت تکبر و خود محوری ھے۔
کبر کے معنی اپنے کو بلند اور دوسروں کو پست تصور کرنا، تکبر پرستی ایک اھم نفسیاتی مرض ھے جس کی بنا پر بہت زیادہ ھی اخلاقی انحرافات پیش آتے ھیں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں۔
((ایاک والکبر فانه اعظم الذنوب والئم العیوب))]
تکبر سے پرہیز کرو اس لئے کہ عظیم ترین معصیت اور پست ترین عیب ھے۔
کبر، اعظم الذنوب ھے یعنی عظیم ترین معصیت ھے کیونکہ تکبر ھی کے ذریعہ کفر نشو و نما پاتا ھے، ابلیس کا کفر اسی کبر سے وجود میں آیا تھا، جس وقت اسے آدم(ع) کے سجدہ کا حکم دیا گیا، اس نے خود کو آدم علیہ السلام سے بزرگ و برتر تصور کرتے ھوئے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اس فعل کی بنا پر کفر کے راستہ پر چل پڑا۔
(ابیٰ واستکبر و کان من الکافرین)]
اس نے انکار و غرور سے کام لیا اور کافرین میں ھوگیا۔
انبیاء حضرات کے مخالفین، تکبر فطرت ھونے ھی کی بنا پر پیامبروں کے مقابلہ میں قد علم کرتے تھے، اور انبیاء حضرات کی تحقیر و تکفیر کرتے ھوئے آزار و اذیت دیا کرتے تھے، جب ان کو ایمان کے لئے دعوت دی جاتی تھی وہ اپنی تکبری فکر و فطرت کی بنا پر انکار کرتے ھوئے کھتے تھے۔
(قالوا ما انتم اِلّا بشر مثلنا)
ان لوگوں نے کھا تم سب ھمارے ھی جیسے بشر ھو۔
آیات قرآن کی بنا پر تکبر منافقین کی صفات میں سے ھے۔
(و اذا قیل لهم تعالوا یستغفر لکم رسول الله لوّوا رئوسهم ورایتهم یصدون وهم مستکبرون)]
اور جب ان سے کہا جاتا ھے کہ آؤ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھارے حق میں استغفار کریں گے تو یہ سر پھرا لیتے ھیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بنا پر منھ بھی موڑ لیتے ھیں۔
(و اذا قیل له اتّق الله اخذته العزّة بالاثم)
جب ان سے کہا جاتا ھے کہ تقوائے الھی اختیار کرو تو وہ تکبر کے ذریعہ گناہ پر اتر آتے ھیں۔
(و اذا قیل لهم لا تفسدوا فی الارض قالوا انّما نحن مصلحون)[
جب ان سے کہا جاتا ھے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کھتے ھیں کہ ھم تو صرف اصلاح کرنے والے ھیں۔
قرآن کریم منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کے سلسلہ میں دوسری صفت خوف و ہراس کو بتا رھا ھے، قرآن ان کو بے حد درجہ ہراساں و خوف زدہ بیان کررھا ھے، اصول کی بنا پر شجاعت و شہامت، خوف وحشت کا ریشہ ایمان ھوتا ھے، جہاں ایمان کا وجود ھے دلیری و شجاعت کا بھی وجود ھے
حقیقی صاحبان ایمان کی صفت شجاعت ھے لیکن چونکہ منافقین ایمان سے بالکل بے بہرہ مند ہیں، ان کے نزدیک خدا کی قوت لایزال وبی حساب پر اعتماد و توکل کوئی مفہوم و معنا نہیں رکھتا ھے لھذا ہمیشہ موجودہ قدرت سے خائف و ہراساں ہیں خصوصاً میدان جنگ کہ جہاں شہامت، سرفروشی، ایثار ھی والوں کا گذر ھے، وھاں سے ہمیشہ فرار اور دور ھی سے جنگ کا نظارہ کرتے ھیں اور نتیجہ کے منتظر ھوتے ھیں۔
(فاذا جاء الخوف رأیتهم ینظرون الیک تدور أعینهم کا الذی یغشی علیه من الموت)
جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے ان کی آنکھیں یوں پھر رھی جیسے موت کی غشی طاری ھو۔
منافقین کی نفسیاتی خصوصیت میں سے، تشویش و اضطراب بھی ھے چونکہ ان کا باطن ظاہر کے بر خلاف ھے لہذا ہمیشہ اضطراب کی حالت میں رھتے ھیں کہیں ان کے باطن کے اسرار افشانہ ھوجائیں اور اصل چھرہ کی شناسائی نہ ھوجائے جس شخص نے بھی خیانت کی ھے یا خلافِ امر شی کا مرتکب ہوا ھے اس کے افشا سے ڈرتا ھے اور تشویش و اضطراب میں رہتا ھے عربی کی مثل مشہور ھے "الخائن خائف" خائن خوف زدہ رھتا ھے، دوسرے یہ کہ منافقین نعمت ایمان سے محروم ھونے کی بنا پر مستقبل کے سلسلہ میں کبھی بھی امید واری و در خشندگی کا اعتقاد نھیں رکھتے ھیں اور اپنے انجام کار سے خائف اور ہراساں رھتے ھیں
(و یحلفون بالله انهم لمنکم و ماهم منکم و لکنهم قوم یفرقون)
اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ھیں کہ یہ تم ھی میں سے ھیں حالانکہ یہ تم میں سے نھیں ہیں یہ لوگ بزدل ھیں