ہوش کے ناخن لیں!

ARSHAD2011

Minister (2k+ posts)
اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو دی جانے والی دھمکی کے ہولناک نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اب کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ 19 اکتوبر کی صبح کیپٹن صفدر کو کراچی میں گرفتار کرنے کا حکم کس نے دیا تھا اور اِس حکم پر عملدرآمد کے بھونڈے انداز کا سب سے زیادہ فائدہ لندن میں بیٹھے ایک شخص نواز شریف کو ہوا جس کی تقریروں پر پابندی لگا کر حکمران اپنے آپ کو بڑا طاقتور سمجھنے لگے تھے۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی کہانی کے پیچھے کئی کہانیاں ہیں۔


کچھ منظر عام پر آ چکی ہیں، کچھ ابھی نہیں آئیں لیکن سب کہانیوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیاں دیتا نظر آ رہا ہے۔ اِنہی دھمکیوں کے باعث 20؍اکتوبر کی شام کراچی میں ایک بھونچال آیا جب آئی جی سندھ سمیت پولیس کے درجنوں بڑے چھوٹے افسران نے چھٹی کی درخواستیں دے ڈالیں اور سندھ میں پولیس کی غیراعلانیہ ہڑتال کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ اِس صورتحال کو سنبھالنے کے لئے پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کی جس میں اُنہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید سے مطالبہ کیا کہ وہ اِس واقعہ کی تحقیقات کریں کہ رات کے دو بجے کس نے آئی جی سندھ کے گھر کا گھیرائو کیا اور صبح چار بجے اُنہیں کہاں لے جایا گیا؟

آرمی چیف نے اِس پریس کانفرنس کے فوراً بعد بلاول سے ٹیلی فون پر بات کی اور معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ پھر اُنہوں نے آئی جی سندھ سے بھی بات کی اور آئی جی نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ دس دن کے لئے ملتوی کر دیا۔ یوں سندھ میں ایک بہت بڑا انتظامی بحران ٹل گیا۔

رات خیر خیریت سے گزر گئی لیکن صبح کچھ وفاقی وزراء نے یہ الزامات لگانے شروع کر دیے کہ سندھ پولیس نے بلاول ہائوس کے اشارے پر چھٹی کی درخواستیں دیں۔ آئی جی سندھ کے کردار پر بھی سوالات اُٹھائے جانے لگے اور واضح ہو گیا کہ وفاقی حکومت سندھ میں پیدا ہونے والے بحران کو حل کرنے کے بجائے اُسے اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

آرمی چیف نے ایک بحران کو وقتی طور پر ٹال دیا، وفاقی حکومت اِس بحران کو واپس لانا چاہتی ہے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دی جانے والی دھمکیوں پر عملدرآمد کا ایک رائونڈ پنجاب میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے تو گوجرانوالہ کے جلسے کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اُس کے علاوہ مریم نواز، رانا ثناء اللہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں پر بھی مقدمے درج کر دیے گئے۔ شہباز شریف صاحب کو قید میں گھر کے کھانے کی سہولت سے محروم کر دیا گیا اور اُن کے قید خانے کو گوانتا ناموبے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

خواجہ آصف کو بھی ایک ایسی مبینہ گفتگو کا پتا چل گیا ہے جس میں اُن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اُس گفتگو کے حوالے سے خواجہ آصف نے جو دعوے کئے ہیں، وہ پریشان کن ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں کے بعد حکمران غصے اور جوش میں ہوش کا دامن چھوڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اپوزیشن کی قیادت کے خلاف تھانہ شاہدرہ لاہور میں بغاوت کا مقدمہ حکومت نہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا کیونکہ مقدمے کا مدعی ایک اشتہاری ملزم تھا۔ کراچی میں کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمے کا مدعی بھی پولیس کو مطلوب شخص نکلا۔ افسوس یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں تاریخ سے سبق سیکھنے کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ اِس حکومت نے کراچی میں پولیس کے ردِعمل کو بلاول ہاؤس کا اشارہ قرار دیدیا۔ یہ حکومت بھول رہی ہے کہ پولیس کا یہ ردِعمل پہلی دفعہ نہیں آیا۔

1972میں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ناصرف صدر پاکستان بلکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ اُس وقت پنجاب اور سرحد (خیبر پختونخوا) میں پولیس نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ پورا نہ ہوا تو دونوں صوبوں میں پولیس نے کام چھوڑ دیا، ہڑتال ہو گئی۔ بھٹو نے اُس وقت کے آرمی چیف گل حسن سے مدد مانگی لیکن گل حسن نے معذرت کر لی۔ آخر کار بھٹو نے مجبور ہو کر ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان سے مدد مانگی۔ منیر احمد منیر کی کتاب ’’المیہ مشرقی پاکستان، پانچ کردار‘‘ میں گل حسن اور رحیم خان کے انٹرویوز موجود ہیں۔

بھٹو کو شک تھا کہ یہ ہڑتال گل حسن اور ولی خان کی سازش ہے لیکن اُن کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔ یہ معاملہ اتنا بگڑا کہ گل حسن نے استعفیٰ دے دیا۔ بھٹو کی خواہش تھی کہ فوج مدد کو نہیں آئی تو ایئر فورس مدد کو آئے۔ ایئر مارشل رحیم نے بھٹو سے کہا کہ سر ایئر فورس اپنے لوگوں پر بمباری نہیں کر سکتی۔ بھٹو نے کہا، آپ پنجاب کے شہروں پر نیچی پروازیں کریں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ مسلح افواج ہمارے ساتھ ہیں۔ ایئر مارشل رحیم خان نے بھی انکار کر دیا اور استعفیٰ دے دیا۔

بھٹو نے اُن دونوں کو آسٹریا اور اسپین میں سفیر بنا کر بھیج دیا۔ بعد ازاں پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لئے گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے خالی تھانوں کا چارج پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دے دیا اور الٹی میٹم دیا کہ 24گھنٹے میں ڈیوٹی پر واپس نہ آنے والے پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ 24گھنٹے میں ہڑتال ختم کر دی گئی اور پولیس کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ 3مارچ 1972کو صدر بھٹو نے قوم سے خطاب میں اِس ہڑتال کو بغاوت قرار دے دیا اور اِس بغاوت میں اپوزیشن کی ملی بھگت کا دعویٰ کیا۔

بعد ازاں اُنہوں نے بلوچستان میں اپوزیشن کی حکومت کو وفاق کے خلاف سازش کے الزام میں برطرف بھی کر دیا لیکن آخر کار اپنی غلطیوں کے باعث ایک ایسے مقدمہ قتل میں ملوث کر دیے گئے جو اُن کے دور حکومت میں پنجاب پولیس نے اُن پر درج کیا تھا۔

آج کے حکمرانوں کو ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 1972میں پولیس کی ہڑتال کے بعد پنجاب میں بیورو کریسی نے ایک سرکاری افسر کی گرفتاری پر اور بعد ازاں مزدوروں نے کراچی میں بہت بڑی ہڑتال کی تھی۔ بہتر ہو گا کہ 2020 میں سندھ پولیس کے ردِعمل کے پیچھے سازش تلاش نہ کی جائے بلکہ اپنی غلطیوں کو تلاش کر کے اُنہیں سدھارا جائے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیوں سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید بگڑیں گے، اِس لئے ہوش کے ناخن لئے جائیں۔


 
Last edited by a moderator:

BrotherKantu

Chief Minister (5k+ posts)
حکومت بہت بڑی پاور ہوتی ہے۔
اس ملک نے آج تک صرف اس پاور کو کرپشن کرتے ہی دیکھا ہے۔

جلد ان ملک چودوں کی عقل ٹھکانے لگا دی جاے گی کہ اگلے تیس سال مملکت پاکستان میں سناٹا رہے گا۔



ُ
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
اگر جرنیل رحیم یار خانُ کے بروتھل کی پیداوار نہ ہوں اور اپنی بیوی اور سالیوں کو دوبئی کے شاہی محل میں بھیج کر دلا گیری اور اپنے سالے کے بروتھل اور سپلائی سے اور بیوی اور سالی کی خاص خدمات کے بدلے ناجائز پروموٹ نہ ہو ئے ہوں تو ہمارے پاک فوج ہر حرام زادے غدار اور انڈیا کے حرامی اثاثوں کو وہیں واڑ سکتی ہے جہاں سے یہ حرام زادے اور مودی کو اپنی ماں کا خصمُ بنانے والے نکلے تھے اور تمامُ جونئیر افسران میں فوج کی توہین قائد اعظم کی توہین پر اور کرپشن پر ان حرام زادوں کے خلاف جو ان سے نفرت کا لاوہ پکُرہا ہے اگر پھٹ گیا تو سارے بروتھل کی پیداوار واڑ کے رکھ دئیے جائینگے Enough is enough اور کسی جنرل جا باپ بھی نہیں روک سکے گا
 

ali_786

MPA (400+ posts)
اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو دی جانے والی دھمکی کے ہولناک نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اب کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ 19 اکتوبر کی صبح کیپٹن صفدر کو کراچی میں گرفتار کرنے کا حکم کس نے دیا تھا اور اِس حکم پر عملدرآمد کے بھونڈے انداز کا سب سے زیادہ فائدہ لندن میں بیٹھے ایک شخص نواز شریف کو ہوا جس کی تقریروں پر پابندی لگا کر حکمران اپنے آپ کو بڑا طاقتور سمجھنے لگے تھے۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی کہانی کے پیچھے کئی کہانیاں ہیں۔


کچھ منظر عام پر آ چکی ہیں، کچھ ابھی نہیں آئیں لیکن سب کہانیوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیاں دیتا نظر آ رہا ہے۔ اِنہی دھمکیوں کے باعث 20؍اکتوبر کی شام کراچی میں ایک بھونچال آیا جب آئی جی سندھ سمیت پولیس کے درجنوں بڑے چھوٹے افسران نے چھٹی کی درخواستیں دے ڈالیں اور سندھ میں پولیس کی غیراعلانیہ ہڑتال کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ اِس صورتحال کو سنبھالنے کے لئے پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کی جس میں اُنہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید سے مطالبہ کیا کہ وہ اِس واقعہ کی تحقیقات کریں کہ رات کے دو بجے کس نے آئی جی سندھ کے گھر کا گھیرائو کیا اور صبح چار بجے اُنہیں کہاں لے جایا گیا؟

آرمی چیف نے اِس پریس کانفرنس کے فوراً بعد بلاول سے ٹیلی فون پر بات کی اور معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ پھر اُنہوں نے آئی جی سندھ سے بھی بات کی اور آئی جی نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ دس دن کے لئے ملتوی کر دیا۔ یوں سندھ میں ایک بہت بڑا انتظامی بحران ٹل گیا۔

رات خیر خیریت سے گزر گئی لیکن صبح کچھ وفاقی وزراء نے یہ الزامات لگانے شروع کر دیے کہ سندھ پولیس نے بلاول ہائوس کے اشارے پر چھٹی کی درخواستیں دیں۔ آئی جی سندھ کے کردار پر بھی سوالات اُٹھائے جانے لگے اور واضح ہو گیا کہ وفاقی حکومت سندھ میں پیدا ہونے والے بحران کو حل کرنے کے بجائے اُسے اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

آرمی چیف نے ایک بحران کو وقتی طور پر ٹال دیا، وفاقی حکومت اِس بحران کو واپس لانا چاہتی ہے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دی جانے والی دھمکیوں پر عملدرآمد کا ایک رائونڈ پنجاب میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے تو گوجرانوالہ کے جلسے کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اُس کے علاوہ مریم نواز، رانا ثناء اللہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں پر بھی مقدمے درج کر دیے گئے۔ شہباز شریف صاحب کو قید میں گھر کے کھانے کی سہولت سے محروم کر دیا گیا اور اُن کے قید خانے کو گوانتا ناموبے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

خواجہ آصف کو بھی ایک ایسی مبینہ گفتگو کا پتا چل گیا ہے جس میں اُن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اُس گفتگو کے حوالے سے خواجہ آصف نے جو دعوے کئے ہیں، وہ پریشان کن ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں کے بعد حکمران غصے اور جوش میں ہوش کا دامن چھوڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اپوزیشن کی قیادت کے خلاف تھانہ شاہدرہ لاہور میں بغاوت کا مقدمہ حکومت نہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا کیونکہ مقدمے کا مدعی ایک اشتہاری ملزم تھا۔ کراچی میں کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمے کا مدعی بھی پولیس کو مطلوب شخص نکلا۔ افسوس یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں تاریخ سے سبق سیکھنے کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ اِس حکومت نے کراچی میں پولیس کے ردِعمل کو بلاول ہاؤس کا اشارہ قرار دیدیا۔ یہ حکومت بھول رہی ہے کہ پولیس کا یہ ردِعمل پہلی دفعہ نہیں آیا۔

1972میں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ناصرف صدر پاکستان بلکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ اُس وقت پنجاب اور سرحد (خیبر پختونخوا) میں پولیس نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ پورا نہ ہوا تو دونوں صوبوں میں پولیس نے کام چھوڑ دیا، ہڑتال ہو گئی۔ بھٹو نے اُس وقت کے آرمی چیف گل حسن سے مدد مانگی لیکن گل حسن نے معذرت کر لی۔ آخر کار بھٹو نے مجبور ہو کر ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان سے مدد مانگی۔ منیر احمد منیر کی کتاب ’’المیہ مشرقی پاکستان، پانچ کردار‘‘ میں گل حسن اور رحیم خان کے انٹرویوز موجود ہیں۔

بھٹو کو شک تھا کہ یہ ہڑتال گل حسن اور ولی خان کی سازش ہے لیکن اُن کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔ یہ معاملہ اتنا بگڑا کہ گل حسن نے استعفیٰ دے دیا۔ بھٹو کی خواہش تھی کہ فوج مدد کو نہیں آئی تو ایئر فورس مدد کو آئے۔ ایئر مارشل رحیم نے بھٹو سے کہا کہ سر ایئر فورس اپنے لوگوں پر بمباری نہیں کر سکتی۔ بھٹو نے کہا، آپ پنجاب کے شہروں پر نیچی پروازیں کریں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ مسلح افواج ہمارے ساتھ ہیں۔ ایئر مارشل رحیم خان نے بھی انکار کر دیا اور استعفیٰ دے دیا۔

بھٹو نے اُن دونوں کو آسٹریا اور اسپین میں سفیر بنا کر بھیج دیا۔ بعد ازاں پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لئے گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے خالی تھانوں کا چارج پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دے دیا اور الٹی میٹم دیا کہ 24گھنٹے میں ڈیوٹی پر واپس نہ آنے والے پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ 24گھنٹے میں ہڑتال ختم کر دی گئی اور پولیس کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ 3مارچ 1972کو صدر بھٹو نے قوم سے خطاب میں اِس ہڑتال کو بغاوت قرار دے دیا اور اِس بغاوت میں اپوزیشن کی ملی بھگت کا دعویٰ کیا۔

بعد ازاں اُنہوں نے بلوچستان میں اپوزیشن کی حکومت کو وفاق کے خلاف سازش کے الزام میں برطرف بھی کر دیا لیکن آخر کار اپنی غلطیوں کے باعث ایک ایسے مقدمہ قتل میں ملوث کر دیے گئے جو اُن کے دور حکومت میں پنجاب پولیس نے اُن پر درج کیا تھا۔

آج کے حکمرانوں کو ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 1972میں پولیس کی ہڑتال کے بعد پنجاب میں بیورو کریسی نے ایک سرکاری افسر کی گرفتاری پر اور بعد ازاں مزدوروں نے کراچی میں بہت بڑی ہڑتال کی تھی۔ بہتر ہو گا کہ 2020 میں سندھ پولیس کے ردِعمل کے پیچھے سازش تلاش نہ کی جائے بلکہ اپنی غلطیوں کو تلاش کر کے اُنہیں سدھارا جائے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیوں سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید بگڑیں گے، اِس لئے ہوش کے ناخن لئے جائیں۔

Apni Nani Maryem ke Nahun luo . Aj kul tumhari Nani maryem ke Nahun katnay walay huay hain , jub bhi Nana safder ko Nahun marti hay wo bander ki terha uchalnay koodnay lagta hay ???
 

MADdoo

Minister (2k+ posts)
No Doubt SAFDAR ko pakarna chahiye tha but ye responsibility Sindh gov ki theee. agar Sindh gov ne nahi kia to isko achay tareeka se handle karna chahiye tha.

Imran khan and mere pyaray aqal se khali fojion ko ye ni pata k saray cards play karne k lie no hotay. Khan need some good advisors for political stability. honestly PTI me koi b dhang ka political situation handle karne wala admi ni ha. ye sab Zaidi, Bukhari, Wawda, Imran Ismail, Asad Omar etc ye in big political dramay bazon ko ni handle kar sakte. and situation aur kharab ho g.
 

Danish99

Senator (1k+ posts)
Hamid Mir proved right Sindh IG police has been kidnaped by rangers,that time all manufactured puppies of establishment were barking at him,again these rebots like puppies r barking again even the article goes in favour of Pakistan and donkey khan.
 

Amatuka

Senator (1k+ posts)
You mean no body should take any action against the uncalled for behavior of Captain Safdar bec4he is a husband of Maryam which makes him above the law. If he would have done this in a western country, he would have been interrupted immediately and taken away. Where was police sleeping the whole day. Do they think that Pakistan is a banana republic?

Every sane Pakistani will condemn Capt. Safdar's insane behavior.
 

Amatuka

Senator (1k+ posts)
And why is Bilawal asking Army chief to intervene? These politicians are so incompetent that they involve army themselves in civil matters. Then they start blaming them for interfering.
 

Danish99

Senator (1k+ posts)
You mean no body should take any action against the uncalled for behavior of Captain Safdar bec4he is a husband of Maryam which makes him above the law. If he would have done this in a western country, he would have been interrupted immediately and taken away. Where was police sleeping the whole day. Do they think that Pakistan is a banana republic?

Every sane Pakistani will condemn Capt. Safdar's insane behavior.
In west you r free to do any thing,never ever any one convited for raising slogans any where.
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
اس گشتی زاد حامد میر جعفر را والے کا بھونکنا شروع دن سے ہے اس حرام زادے کی ہڈی اور راتب کی کمی جو ہوگئی
 

Amatuka

Senator (1k+ posts)
In west you r free to do any thing,never ever any one convited for raising slogans any where.
If there is a law one should obey it. There is a law about sanctuary of Quaid's mazar. Why can't he go on the grave of his father or mother and raise slogans. We respect Quaid for his service to the nation as our baba e qaum. And no one should use his mazar for political purposes. In western world you break a law and see what happens.
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو دی جانے والی دھمکی کے ہولناک نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اب کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ 19 اکتوبر کی صبح کیپٹن صفدر کو کراچی میں گرفتار کرنے کا حکم کس نے دیا تھا اور اِس حکم پر عملدرآمد کے بھونڈے انداز کا سب سے زیادہ فائدہ لندن میں بیٹھے ایک شخص نواز شریف کو ہوا جس کی تقریروں پر پابندی لگا کر حکمران اپنے آپ کو بڑا طاقتور سمجھنے لگے تھے۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی کہانی کے پیچھے کئی کہانیاں ہیں۔


کچھ منظر عام پر آ چکی ہیں، کچھ ابھی نہیں آئیں لیکن سب کہانیوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیاں دیتا نظر آ رہا ہے۔ اِنہی دھمکیوں کے باعث 20؍اکتوبر کی شام کراچی میں ایک بھونچال آیا جب آئی جی سندھ سمیت پولیس کے درجنوں بڑے چھوٹے افسران نے چھٹی کی درخواستیں دے ڈالیں اور سندھ میں پولیس کی غیراعلانیہ ہڑتال کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ اِس صورتحال کو سنبھالنے کے لئے پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کی جس میں اُنہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید سے مطالبہ کیا کہ وہ اِس واقعہ کی تحقیقات کریں کہ رات کے دو بجے کس نے آئی جی سندھ کے گھر کا گھیرائو کیا اور صبح چار بجے اُنہیں کہاں لے جایا گیا؟

آرمی چیف نے اِس پریس کانفرنس کے فوراً بعد بلاول سے ٹیلی فون پر بات کی اور معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ پھر اُنہوں نے آئی جی سندھ سے بھی بات کی اور آئی جی نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ دس دن کے لئے ملتوی کر دیا۔ یوں سندھ میں ایک بہت بڑا انتظامی بحران ٹل گیا۔

رات خیر خیریت سے گزر گئی لیکن صبح کچھ وفاقی وزراء نے یہ الزامات لگانے شروع کر دیے کہ سندھ پولیس نے بلاول ہائوس کے اشارے پر چھٹی کی درخواستیں دیں۔ آئی جی سندھ کے کردار پر بھی سوالات اُٹھائے جانے لگے اور واضح ہو گیا کہ وفاقی حکومت سندھ میں پیدا ہونے والے بحران کو حل کرنے کے بجائے اُسے اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

آرمی چیف نے ایک بحران کو وقتی طور پر ٹال دیا، وفاقی حکومت اِس بحران کو واپس لانا چاہتی ہے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دی جانے والی دھمکیوں پر عملدرآمد کا ایک رائونڈ پنجاب میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے تو گوجرانوالہ کے جلسے کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اُس کے علاوہ مریم نواز، رانا ثناء اللہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں پر بھی مقدمے درج کر دیے گئے۔ شہباز شریف صاحب کو قید میں گھر کے کھانے کی سہولت سے محروم کر دیا گیا اور اُن کے قید خانے کو گوانتا ناموبے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

خواجہ آصف کو بھی ایک ایسی مبینہ گفتگو کا پتا چل گیا ہے جس میں اُن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اُس گفتگو کے حوالے سے خواجہ آصف نے جو دعوے کئے ہیں، وہ پریشان کن ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں کے بعد حکمران غصے اور جوش میں ہوش کا دامن چھوڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اپوزیشن کی قیادت کے خلاف تھانہ شاہدرہ لاہور میں بغاوت کا مقدمہ حکومت نہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا کیونکہ مقدمے کا مدعی ایک اشتہاری ملزم تھا۔ کراچی میں کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمے کا مدعی بھی پولیس کو مطلوب شخص نکلا۔ افسوس یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں تاریخ سے سبق سیکھنے کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ اِس حکومت نے کراچی میں پولیس کے ردِعمل کو بلاول ہاؤس کا اشارہ قرار دیدیا۔ یہ حکومت بھول رہی ہے کہ پولیس کا یہ ردِعمل پہلی دفعہ نہیں آیا۔

1972میں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ناصرف صدر پاکستان بلکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ اُس وقت پنجاب اور سرحد (خیبر پختونخوا) میں پولیس نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ پورا نہ ہوا تو دونوں صوبوں میں پولیس نے کام چھوڑ دیا، ہڑتال ہو گئی۔ بھٹو نے اُس وقت کے آرمی چیف گل حسن سے مدد مانگی لیکن گل حسن نے معذرت کر لی۔ آخر کار بھٹو نے مجبور ہو کر ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان سے مدد مانگی۔ منیر احمد منیر کی کتاب ’’المیہ مشرقی پاکستان، پانچ کردار‘‘ میں گل حسن اور رحیم خان کے انٹرویوز موجود ہیں۔

بھٹو کو شک تھا کہ یہ ہڑتال گل حسن اور ولی خان کی سازش ہے لیکن اُن کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔ یہ معاملہ اتنا بگڑا کہ گل حسن نے استعفیٰ دے دیا۔ بھٹو کی خواہش تھی کہ فوج مدد کو نہیں آئی تو ایئر فورس مدد کو آئے۔ ایئر مارشل رحیم نے بھٹو سے کہا کہ سر ایئر فورس اپنے لوگوں پر بمباری نہیں کر سکتی۔ بھٹو نے کہا، آپ پنجاب کے شہروں پر نیچی پروازیں کریں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ مسلح افواج ہمارے ساتھ ہیں۔ ایئر مارشل رحیم خان نے بھی انکار کر دیا اور استعفیٰ دے دیا۔

بھٹو نے اُن دونوں کو آسٹریا اور اسپین میں سفیر بنا کر بھیج دیا۔ بعد ازاں پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لئے گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے خالی تھانوں کا چارج پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دے دیا اور الٹی میٹم دیا کہ 24گھنٹے میں ڈیوٹی پر واپس نہ آنے والے پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ 24گھنٹے میں ہڑتال ختم کر دی گئی اور پولیس کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ 3مارچ 1972کو صدر بھٹو نے قوم سے خطاب میں اِس ہڑتال کو بغاوت قرار دے دیا اور اِس بغاوت میں اپوزیشن کی ملی بھگت کا دعویٰ کیا۔

بعد ازاں اُنہوں نے بلوچستان میں اپوزیشن کی حکومت کو وفاق کے خلاف سازش کے الزام میں برطرف بھی کر دیا لیکن آخر کار اپنی غلطیوں کے باعث ایک ایسے مقدمہ قتل میں ملوث کر دیے گئے جو اُن کے دور حکومت میں پنجاب پولیس نے اُن پر درج کیا تھا۔

آج کے حکمرانوں کو ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 1972میں پولیس کی ہڑتال کے بعد پنجاب میں بیورو کریسی نے ایک سرکاری افسر کی گرفتاری پر اور بعد ازاں مزدوروں نے کراچی میں بہت بڑی ہڑتال کی تھی۔ بہتر ہو گا کہ 2020 میں سندھ پولیس کے ردِعمل کے پیچھے سازش تلاش نہ کی جائے بلکہ اپنی غلطیوں کو تلاش کر کے اُنہیں سدھارا جائے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیوں سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید بگڑیں گے، اِس لئے ہوش کے ناخن لئے جائیں۔

ہمیں تو ہوش ہی اب آیا ہے اب بتاؤ کہ ناخن بازو سمیت چاہئے یا ساتھ میں کوئی مسالہ بھی ؟ ایک تو یہ غدار گیدڑ بھبھکیاں بہت دیتے ہیں
 

Ghothka-Beer

Voter (50+ posts)
تم ہمارا باپ کی قبرستان میں بھنگڑا ڈالو اورہم تماشا دیکھیں؟؟ جس نے بھی تمارا دروازہ کھٹکھٹایا...جس نے بھئ جی جی کو نیند سے اٹھایا !!! قوم اسکو سلام پیش کرتی ہے
 

Back
Top