از قلم: پروفیسر ڈاکٹر ھارون چودھری
صرف چند لمحوں کے لیے فرقہ پرستی کی دھکتی ہوئی انگیٹھی سے نکل کر صرف عام مسلمان بن کر سوچیں اور اسلام کی ابتدائی صدیوں کا جائزہ لیں جب فرقہ بندی ابھی معرض وجود میں نہ آئی تھی۔پھر آپ چاھیں تو مسلمان ھی رہیں اور چاہیں تو واپس شیعہ ،سُنی دیو بندی ، بریلوی ، اہل حدیث یا وھابی بن جائیں جو بہرحال اسلام نہیں بلکہ اسلام سے ملتے جلتے الگ الگ مذاہب ہیں۔
میں یہ فرض کرتے ھوئے اپنی بات آگے بڑھاتا ھوں کہ آپ نے میری دعوت قبول کر لی ھے اور اس لمحے آپ صرف مسلمان ہیں۔اب خود کو اُس دور میں موجود تصور کیجئے کہ حضرت محمدﷺ کے وصال کو 80 سال گزر چکے ہیں۔ ایک بھی صحابی زندہ نہیں ھے البتہ وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے صحابہ کو دیکھا تھا۔ اس وقت نہ امام ابو حنیفہ پیدا ھوئے تھے نہ امام مالک نہ امام جعفر صادق اور نہ فقہ لکھنے والا کوئی اورامام پیدا ھوا تھا۔
آپ ایک ایسے دور میں پہنچ گئے ہیں کہ حدیث کی ایک بھی کتاب موجود نہیں ھے اور امام بخاری اور مسلم سمیت دیگر محدثین کے پیدا ہونے میں ابھی سوا سو سال سے زیادہ عرصہ ھے۔ یہ تو بڑی مشکل صورتحال ھے کیونکہ اب آپ کو سُنت کیسے پتہ چلے گی؟ فرائض کیسے پتہ چلیں گے؟ لوگ آخر کیسے مسلمان ہیں کہ ھمارے اماموں میں سے کوئی پیدا ھی نہیں ھوا جن کے کئے ھوئے کام کے بعد ھم آج شیعہ ، سُنی ، حنبلی اور شافعی وغیرہ بنے۔
دیوبند اور بریلوی مدرسہ تو ابھی سوا ہزار سال بعد بنے گا لہذا آپ دیوبندی بریلوی بھی نہیں بن سکتے ، وہابی بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہابی فرقے کی شروعات میں ابھی سوا ہزار سال کا عرصہ ھے ، اہلِ حدیث تو تب بنیں جب حدیث کی کوئی کتاب ھو۔ جس دور میں آپ پُہنچ گئے ہیں اُس وقت لوگ حدیث نبویﷺ کو لکھنے کا تصوّر بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ حضرت مُحمدﷺ نے صاف صاف کہا تھا
کہ اگر کسی نے مجھ سے سُن کر قُرآن کے علاوہ کُچھ لکھ لیا ھے تو وہ مٹا دے۔ اور لوگوں کو اپنے بزرگوں سے سُنی ہوئی یہ باتیں یاد ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عُمر فاروقؓ اپنے اپنے ادوار میں لوگوں کی اپنے نبیﷺ کی مُحبت میں لکھی جانے والی احادیث کو اکٹھا کر کے آگ لگوا چُکے ہیں۔ اُنھیں جلیلُ القدر صحابہ کی یہ نصیحت یاد ھے کہ نبیﷺ نے قُرآن اور اپنی سُنت کے علاوہ کُچھ نہیں چھوڑا لہٰذا آپ اہل حدیث تو ھو ھی نہیں سکتے۔ صحابہ میں سے کوئی زندہ نہیں ۔ بڑی مشکل میں ہیں ھم اب کہاں جائیں۔
اتنے میں مسجد میں اذان کی آواز آتی ھے ، آپ مسجد پہنچتے ہیں تو کیسے نماز پڑھیں گے ، ہاتھ باندھ کر یا ہاتھ چھوڑ کر؟آپ یقیناً ویسے ھی نماز پڑھیں گےجیسے وہاں کی مسجد میں لوگ پڑھ رھے ھوں گے۔ یعنی سُنت مسلمانوں میں رائج ھے اس کے لئے حدیث کی ضرورت نہیں۔ فرائض کا پتہ ویسے ھی قرآن سے چل رھا ھے اور قرآن تو تب بھی وھی تھا جو آج ھے یعنی اُس دور کے مُسلمان قُرآن اور مُعاشرے میں رائج سُنّت کے سہارے ھم سے کہیں بہتر مُسلمان تھے۔ احادیث قُرآن کے نزول کے ساتھ ساتھ اُس کی تشریح کو سُنّت کی شکل میں ابتدائی اسلامی مُعاشرے میں رائج کرنے کے لیے تھیں
اور ھر سُنّت قُرآن کی تکمیل کے ساتھ ھی اسلامی مُعاشرے میں رائج ھو چُکی تھی۔ قُرآن کی تکمیل کے ساتھ ھی سُنّت کی بھی تکمیل ھو چُکی تھی۔ یعنی احادیث اپنی ضرورت پُوری کر چُکی تھی۔ تبھی ابوبکرؓ اور عُمرؓ نے احادیث کے ذخیروں کو آگ لگوائی تاکہ قُرآن و سُنّت ھی آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کا ماخذ ھو۔ تبھی آخری حج کے موقع پر حضرت مُحمدﷺ نے دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ھی صحابہؓ سے کہا کہ جو یہاں موجود نہیں اُن تک دین پہںچائیں جسے ایک آیت بھی سمجھ آئی ھو وھی باقیوں کو پہنچائے۔ بعض روایات میں ھے کہ اکثر صحابہ نے اُس حکم کے بعد حج ادھورا چھوڑ دیا اور مکّہ سے قُرآن اور آپﷺ کا عمل جو اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا (یعنی سُنّت) لے کر نکلے اور آدھی سے زیادہ دُنیا میں پھیل گئے۔
جن صحابہ نے نبیﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے دیکھا تھا ویسے ہی سکھایا جنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر یا رفع یدین کرتے دیکھا تھا اُنہوں نے آگے ویسے ہی سکھایا۔ کوفے کی طرف جو صحابہ گئے وہ آپﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا دیکھتے رہے تھے لہٰذا عراق کے سب مُسلمانوں کی اگلی نسلیں اُسی سُنت پر عمل کرنے لگیں افریقہ اور کُچھ دیگر علاقوں میں جو صحابہؓ پہنچے اُنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی سُنت سکھائی لہٰذا آج تک افریقہ کے کڑوروں مُسلمان ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے اور عین سُنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہیں۔ رفع یدین کرنا بھی سُنّت ہے نہ کرنا بھی عین سُنّت۔ نماز تو ایک مثال ہے۔
ہر مُلک کے مُسلمانوں نے مُختلف مُعاملات اور عبادات میں الگ الگ صحابہ سے الگ الگ سُنّت سیکھی لہٰذا سبھی تھوڑے تھوڑے مُختلف ہونے کے باوجود سُنّت پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اللہ نے صحابہؓ کے ذریعے ہر وہ طریقۂ عبادت کسی نہ کسی مُلک میں رائج کروا دیا جو نبیﷺ نے کبھی نہ کبھی اختیار کیا تھا۔ اُس وقت کے مُسلمان جب حج کے لیے مُختلف ملکوں سے اکٹھے ہوتے تو ان اختلافات کو بھی مُحبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ عراق والے کہتے کہ ہاتھ باندھ کر نماز کا طریقہ زیادہ مؤدّبانہ ہے مدینہ والوں کی دلیل ہوتی کہ حضوری کا احساس ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے سے زیادہ آتا ہے یہ علمی مذاکرے چلتے رہتے لیکن کوئی اس اختلاف کی بُنیاد پر ایک دوسرے کو غلط نہ کہتا۔
اب اپنی آنکھیں بند کر دوبارہ کھولیں۔ ہم اس وقت 120 ھجری یعنی حضرت محمدﷺ کے وصال کے 110سال بعد کے مدینہ میں موجود ہیں۔ مدینہ شہر میں امام مالک موجود ہیں اور مدینے میں ھی امام جعفر صادق بھی ہیں۔ یہ دونوں امام اپنی اپنی فقہ ترتیب دے رھے ہیں تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی ھوئی تعداد کے لیے نت نئے پیدا ھونے والے مسائل میں رہنمائی ھو سکے ان کا یہ مقصد ھر گز نہیں کہ یہ امت کو فرقوں میں بانٹیں۔ یہ ایک دوسرے کی بے پناہ عزت کرتے ہیں۔ عین اسی وقت عراق کے شہر کوفے میں امام ابو حنیفہ بھی فقہ لکھ رھے ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کا دور تو ھے نہیں اور نہ ھی اخبارات یا رسالے چھپتے ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کے سفر کے لئے مہینوں لگ سکتے ہیں لہذا مختلف امام اپنے اپنے لوگوں کی آسانی کے لئے مخلتف ملکوں میں فقہ لکھ رھے ہیں۔
امام شافعی اب سے کچھ سال بعد غزہ فلسطین میں اپنی فقہ لکھیں گے اور امام احمد بن حنبل بغداد میں یہی کام کریں گے۔آپ کو یہ حال سن کر شاک لگ سکتا ھے کہ باقی سب امام دور دراز ملکوں میں ہیں۔ اور نبی کے شہر میں پیدا ہونے اور اور مسجدِ نبوی میں اپنی زندگی کی سب نمازیں پڑھنے والے امام دو ھی ہیں یعنی مالک اور جعفر صادق اور دونوں ھی اپنی اپنی فقہ میں ھاتھ چھوڑ کر نماز پرھنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں
کہ حضرت محمدﷺ کی وفات کے سو سال بعد ھی مسجدِ نبوی میں نماز کا طریقہ بدل گیا تھا جو ان دونوں اماموں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کو اسلامی طریقہ بتایا۔ نہ صرف یہ بلکہ طلاق کے لیے بھی یہ الگ الگ مواقع پر دی گئی طلاق کو ھی صحیح سمجھتے ہیں- ان دونوں کے نزدیک ایک موقع پر بیس دفعہ دی گئی ایک طلاق ھی شُمار ھو گی۔ ایسے ھی مدینہ کے یہ دونوں امام اکثر مُعاملات میں عقلی دلیلں دیتے ہیں کہ عقل کے استعمال کا حُکم قُرآن میں سات سو چھپن بار ھے اور مدینے میں ابھی مُحمدﷺ کے قائم کردہ اثرات باقی تھے۔
ایسے میں آپ دیکھتے ہیں کہ اسلام کا ایک عظیم طالب علم کوفے سے علمِ دین سیکھنے مدینہ آتا ھے ، جی ھاں یہ نعمان بن ثابت ھے جسے آپ ابو حنیفہ کہتے ہیں- یہ امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کرتا ھے اور جلد ھی اسکی شہرت پورے مکے مدینے میں پھیل جاتی ھے۔ امام مالک جب بھی اسے ملتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ھو جاتے ہیں۔ یہ امام بھی اپنی فقہ لکھ رھا ھے اور ھاتھ باندھ کر نماز پڑھنے اور رفع یدین نہ کرنے کا طریقہ بیان کرتا ھے
جس پر نہ امام مالک اعتراض کرتے ہیں اور نہ امام جعفر صادق بلکہ امام مالک اب بھی جیسے ھی امام ابو حنیفہ کو دیکھتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ھو جاتے ہیں- ان کے شاگرد پوچھتے ہیں کہ آپ تو کسی کے لئے بھی کھڑے نہیں ہوتے پھر انکے لئے کیوں کھڑے ہوتے ہیں تو امام مالک کہتے ہیں کہ اسلام کے ایسے عالم اور عاشقِ رسول کا احترام مجھ پر واجب ھے- واضح رھے کہ امام مالک نے ایک حج کے علاوہ کبھی مدینے سے باھر کا سفر نہیں کیا کہ کہیں محمد کے شہر سے باھر موت نہ آجائے۔
ھر نماز مسجدِ نبوی میں ادا کی ، کبھی جوتے نہیں پہنے کہ میں کہیں ایسی جگہ جوتا نہ رکھ دوں جہاں محمدﷺ ننگے پاؤں گزرے ھوں۔ کبھی سواری پر نہ بیٹھے کہ کہیں میں کسی ایسی جگہ سوار ھو کر نہ گزر جاؤں جہاں سے محمدﷺ پیدل گزرے ھوں۔ لیکن وھی امام مالک جو رفع یدین اور ھاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہیں ایک ایسے عالم کا احترام کرتے ہیں جو رفع یدین نہ کرنے اور ھاتھ باندھ کر نماز کا طریقہ بتاتا ھے اور وہ ابو حنیفہ امام جعفر کی شاگردی اختیار کئے ہوئے ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں اور جنہیں اب شیعہ امام سمجھا جاتا ھے۔
غزہ سے ایک اور امام یعنی امام شافعی مدینہ آتے ہیں وہ خود ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ اپنی فقہ میں لکھ چکےہیں اور برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ روئے زمین پر امام مالک سے بڑا حدیث اور فقہ کا کوئی عالم موجود نہیں۔
مجھے یقین ھے کہ یہ دیکھ کر آپ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے کہ آپکے دور میں تو رفع یدین ، ھاتھ چھوڑ کر یا ھاتھ باندھ کر نماز پڑھنا اور ایسی ھی دیگر باتوں پر بیسیوں فرقے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور یہ آئمہ کرام ایک دوسرے کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ اگر کوئی امام کسی دوسرے امام کے علاقے میں جائے تو دوسری فقہ کے لوگ انہیں جماعت کروانے کو کہیں تو وہ اپنے طریقے سے نہیں اسی امام کے طریقے سے نماز پڑھاتا ھے جس امام کی وہ مسجد ھے۔
یہ دیکھتے ھی آپکو پتہ چل جائے گا کہ آپکے علما آپکو مسلمان سے حیوان بنا رھے تھے۔ بھائیوں کو شیعہ ، سُنی ، دیوبندی ، بریلوی ، وھابی وغیرہ بنا کر لڑواتے تھے۔ آپکو اپنے دور کے مُلا سے نفرت اور ان آئمہ سے محبت محسوس ھو گی اور آپ مختلف طریقوں سے نماز روزہ اور دیگر عبادات کرنے والے لوگوں کو اختلاف کے باوجود محبت کی نظر سے دیکھ کر اپنے جیسا مسلمان سمجھیں گے۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ فرقوں میں بٹ جانا شرک ھے تو شاید آپکو یقین نہ آئے کیونکہ آپکو علما نے کبھی سورہ روم کی آیت نمبر 31 اور 32 کے بارے میں تو نہیں بتایا ھوگا- ان آیات میں اللہ کہتا ھے ،
’’اسی کی طرف رجوع کرتے رھو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ھو جاؤ ، اُن مشرکوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا اور گروہ در گروہ ھو گئے۔ ھر گروہ اسی پر مگن ھے جو اس کے پاس ھے‘‘۔
کیا اس آیت کے اس کھلے حکم کے بعد بھی آپ دیوبندی ، بریلوی ، شیعہ ، حنفی ، شافعی یا مالکی کہلوانا پسند کریں گے؟
آپ سب چاھتے ھیں کہ قیامت کے دِن حضرت ﷺ آپکی شفاعت کریں لیکن میں آپکو بتاتا چلوں کہ اللہ سورہ انعام کی آیت 150میں اپنے نبی کو کیا حکم دے رھے ہیں ،
’’بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں تقسیم کیا آپﷺ کا کسی چیز میں اسے کوئی تعلق نہیں‘‘
کیا یہ آیت جان کر بھی آپ شیعہ ، سُنی ، دیوبندی ، بریلوی وغیرہ بننا پسند کریں گے یا مسلمان ھونا چاہیں گے؟جب اسلام آیا تو لوگ قبیلوں میں بٹے ھوئے تھے آپس میں نفرتیں تھیں لیکن اللہ کی رسی یعنی قرآن نے انہیں بھائی بنا دیا ، سُنتِ نبوی نے انکے دِل جوڑ دئیے لیکن مسلمان پھر سے فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن اور جہنم سے قریب تر ھو گئے۔ اللہ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں ،
’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جانا‘‘
کیا آپ بھی وھابی ، اہلِ حدیث یا اہلِ قرآن جیسے کسی فرقے سے منسوب ھونا پسند کریں گے یا مسلمان ھونا چاھتے ہیں؟
کیوں نہ ھم صحابہ کے دور کے مسلمان بن جائیں جو قرآن کو اسلامی علم کا بنیادی ماخذ مانتے تھے۔ ان کے سامنے جب کوئی حدیث پیش کی جاتی تو وہ یہ دیکھتے کہ کہیں وہ حدیث قرآن سے تو نہیں ٹکراتی ، اگر ایسا ھوتا تو وہ فوراً کہہ دیتے نبیﷺ ایسا نہیں کہہ سکتے ، یہ قرآن کے خلاف ھے۔ راوی سے سننے کی غلطی ھوئی ھو گی۔ اگر حدیث قرآن کے خلاف نہ ھو تو اسے سر آنکھوں پر رکھتے۔
کیوں نہ ھم سب اماموں کو اپنا لیں۔ سب کی عزت کریں اور جس امام کی بھی فقہ سے جو حکم آسانیاں پیدا کرے وہ لے لیں لیکن خود کو کسی بھی امام سے منسوب نہ کریں اور بس بغیر کسی فرقہ کے پہلے دور کے مُسلمان بن جائیں۔ کیوں نہ ھم عقل سے کام لینا شروع کر دیں کہ قُرآن عقل کے استعمال کا سات سو چھپن بار حکم دیتا ھے۔
میں ایک روشن خیال مسلمان ہوں اور میرا اس تحریر کو لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ فرقہ بندی اور فرقہ پرستی کی نہ تو مذہب اسلام میں گنجائیش ہے اور نہ ہی اسے پسند کیا گیا ہے ۔ فرقہ بندی ہمارے درمیان کدورتوں اور رنجشوں کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اب وقت آگیا ہے اس کی بیخ کنی کی جائے ۔
Last edited by a moderator: