گورکھ دھندہ --- (2)
------------------------
کیا یہ وباء ایک سازش ہے؟
وباء پر سازشی تھیوری کے الزامات بھی انہی ممالک سے اٹھیں گے جہاں تن پر دھری چادر کی لمبائی اتنی کہ سرڈھانپو تو پاؤں برہنہ اور پاؤں چھپاؤ تو سر باہر --- معاشی واقتصادی لحاظ سے ہونا نہ ہونا برابر- اور جو خطہ (یورپ) بری طرح متاثر ہوا، وہاں اس تھیوری کا ذکر ہی نہیں- کیا ان ترقی یافتہ ریاستوں کے طبی ماہرین، انٹلیجنس، سیاستدان وسول سوسائٹی بےخبرہے یا پھر امریکہ وچین سے جواب طلب نہیں کرسکتے- اس پہلو پر بھی سوچنا چاہیے
اپنی بات کو وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں حصہ اول میں موقوف کیا تھا- اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی چین کے ساتھ سردجنگ جاری ہے- امریکہ نہیں چاہیے گا کہ عالمی یونی پولر آرڈر نظام میں اسے کوئی للکارے یا متبادل بنے- اس کے قانونی ومالی انسٹیٹیویشنل سسٹم میں دراڑ پڑے --- یہ یو این، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، جسٹس سسٹم اور ڈالر کی برتری سبھی اسی نظام کے پروردہ ہیں جن کی آبیاری امریکہ کرتا ہے- اور بدلے میں پوری دنیا پر اپنی تھانیداری جماتا ہے
چین کی پھلتی معاشی طاقت نے اسے رائج عالمی نظام میں ایک مضبوط
contender
بنا دیا ہے- ناچاہتے ہوۓ بھی عالمی سیاسی بساط پر اس کا کردار ناگزیر ہوتا جا رہا ہے- ایسے میں امریکہ کی حتیٰ الامکاں کوشش ہوگی کہ وہ اس کی معاشی نمو میں روڑے اٹکاۓ- کیونکہ اگر معاشی نمو کم ہوتی ہے تو بےروزگاری اور غربت بڑھتی ہے جس سے داخلی انتشار بڑھ سکتا ہے جو بالاخر یک جماعتی نظام کے خاتمہ پر منتہج ہوگا- اور یہ بات تاریخی شواہد سے طے ہے اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو تو وہ اندرونی وبیرونی طور پر کمزور ہوتا ہے
ٹرمپ نہیں، امریکی اسٹبلیشمنٹ کو اس بات کا ادراک ہے- اسی لیے 2018 میں ٹرمپ نے چینی درآمدات پر 500 ارب ڈالر کی لیوی ڈیوٹی نافذ کردی- چونکہ یہ سیاسی مسئلہ تھا اسی لیے امریکی ماہرین معیشت نے بھی اس کی مخالفت کی اور اسے عالمی معیشت کے لیے خطرہ قرار دیا- آخرکار مذاکرات کے کئی ادوار ہوۓ اور یہ ٹیکسز 500 سے کم ہوکر 200 ارب ڈالر پر آگۓ
امریکہ کیوں چینی برآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے؟ وجہ جاننے کے لیے یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ کسی ملک کا گروتھ ماڈل دو طرح کا ہوسکتا ہے- داخلی طلب پر معاشی نمو یا پھر خارجی طلب یعنی برآمدات کے زریعے- چینی معاشی نمو برآمدات کی محتاج ہے- جب تک اس کی برآمدات کی طلب
دنیا میں برقرار رہے گی، وہ معاشی نمو پاتا رہے گا اور جب برآمدات کو دھچکا لگے گا تو اس کا معاشی انجن سست روی کا شکار ہوگا- مگر یہ نامکمل تصویر ہے- کیا یہ معاشی نمو صرف چین کے مفاد میں ہے؟
معاشی نمو کی صورت میں چین میں ایک بہت بڑا متوسط طبقہ وجود میں آچکا ہے جو ترقی یافتہ وترقی پذیر ممالک کی اشیاء کی طلب کرتا ہے- یوں چین کی ترقی دوسرے ممالک کی خوشحالی کی قدرے گارنٹی بھی دیتی ہے- اس کی ایک مثال ایپل کمپنی کی لے لیں- ایک ٹریلین ڈالر مساوی مارکیٹ ویلیو رکھنی والی اس کمپنی کا ٪20 صرف چین سے آرہا ہے- ایسے ہی ہزاروں امریکی کمپنیوں کے کاروبار کا بھی اندازہ لگالیں-
چین امریکہ کی ان چالوں کو سمجھتا ہے اسی لیے برآمدات پر انحصار کم کرتے ہوۓ اس نے ایک ماسٹر سٹروک کھلینے کا فیصلہ کیا-
------------------------
کیا یہ وباء ایک سازش ہے؟
وباء پر سازشی تھیوری کے الزامات بھی انہی ممالک سے اٹھیں گے جہاں تن پر دھری چادر کی لمبائی اتنی کہ سرڈھانپو تو پاؤں برہنہ اور پاؤں چھپاؤ تو سر باہر --- معاشی واقتصادی لحاظ سے ہونا نہ ہونا برابر- اور جو خطہ (یورپ) بری طرح متاثر ہوا، وہاں اس تھیوری کا ذکر ہی نہیں- کیا ان ترقی یافتہ ریاستوں کے طبی ماہرین، انٹلیجنس، سیاستدان وسول سوسائٹی بےخبرہے یا پھر امریکہ وچین سے جواب طلب نہیں کرسکتے- اس پہلو پر بھی سوچنا چاہیے
اپنی بات کو وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں حصہ اول میں موقوف کیا تھا- اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی چین کے ساتھ سردجنگ جاری ہے- امریکہ نہیں چاہیے گا کہ عالمی یونی پولر آرڈر نظام میں اسے کوئی للکارے یا متبادل بنے- اس کے قانونی ومالی انسٹیٹیویشنل سسٹم میں دراڑ پڑے --- یہ یو این، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، جسٹس سسٹم اور ڈالر کی برتری سبھی اسی نظام کے پروردہ ہیں جن کی آبیاری امریکہ کرتا ہے- اور بدلے میں پوری دنیا پر اپنی تھانیداری جماتا ہے
چین کی پھلتی معاشی طاقت نے اسے رائج عالمی نظام میں ایک مضبوط
contender
بنا دیا ہے- ناچاہتے ہوۓ بھی عالمی سیاسی بساط پر اس کا کردار ناگزیر ہوتا جا رہا ہے- ایسے میں امریکہ کی حتیٰ الامکاں کوشش ہوگی کہ وہ اس کی معاشی نمو میں روڑے اٹکاۓ- کیونکہ اگر معاشی نمو کم ہوتی ہے تو بےروزگاری اور غربت بڑھتی ہے جس سے داخلی انتشار بڑھ سکتا ہے جو بالاخر یک جماعتی نظام کے خاتمہ پر منتہج ہوگا- اور یہ بات تاریخی شواہد سے طے ہے اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو تو وہ اندرونی وبیرونی طور پر کمزور ہوتا ہے
ٹرمپ نہیں، امریکی اسٹبلیشمنٹ کو اس بات کا ادراک ہے- اسی لیے 2018 میں ٹرمپ نے چینی درآمدات پر 500 ارب ڈالر کی لیوی ڈیوٹی نافذ کردی- چونکہ یہ سیاسی مسئلہ تھا اسی لیے امریکی ماہرین معیشت نے بھی اس کی مخالفت کی اور اسے عالمی معیشت کے لیے خطرہ قرار دیا- آخرکار مذاکرات کے کئی ادوار ہوۓ اور یہ ٹیکسز 500 سے کم ہوکر 200 ارب ڈالر پر آگۓ
امریکہ کیوں چینی برآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے؟ وجہ جاننے کے لیے یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ کسی ملک کا گروتھ ماڈل دو طرح کا ہوسکتا ہے- داخلی طلب پر معاشی نمو یا پھر خارجی طلب یعنی برآمدات کے زریعے- چینی معاشی نمو برآمدات کی محتاج ہے- جب تک اس کی برآمدات کی طلب
دنیا میں برقرار رہے گی، وہ معاشی نمو پاتا رہے گا اور جب برآمدات کو دھچکا لگے گا تو اس کا معاشی انجن سست روی کا شکار ہوگا- مگر یہ نامکمل تصویر ہے- کیا یہ معاشی نمو صرف چین کے مفاد میں ہے؟
معاشی نمو کی صورت میں چین میں ایک بہت بڑا متوسط طبقہ وجود میں آچکا ہے جو ترقی یافتہ وترقی پذیر ممالک کی اشیاء کی طلب کرتا ہے- یوں چین کی ترقی دوسرے ممالک کی خوشحالی کی قدرے گارنٹی بھی دیتی ہے- اس کی ایک مثال ایپل کمپنی کی لے لیں- ایک ٹریلین ڈالر مساوی مارکیٹ ویلیو رکھنی والی اس کمپنی کا ٪20 صرف چین سے آرہا ہے- ایسے ہی ہزاروں امریکی کمپنیوں کے کاروبار کا بھی اندازہ لگالیں-
چین امریکہ کی ان چالوں کو سمجھتا ہے اسی لیے برآمدات پر انحصار کم کرتے ہوۓ اس نے ایک ماسٹر سٹروک کھلینے کا فیصلہ کیا-
(جاری ہے)