
کلائمیٹ چینج، ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ جیسے سنگین مسئلے نے جہاں دنیا کو ایک پیج پر لا کھڑا کیا ہے اس کے پیچھے پاکستان کی کیا کاوشیں اور محنت ہے اس حوالے سے معاملے کو احسن انداز میں پیش کرنے کیلئے سرکاری ٹی وی نے "گرین ویژن پاکستان" کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔
اس پروگرام میں پاکستان کی ابھرتی ہوئی نوجوان خاتون صحافی حنا چودھری نے پاکستان ٹیلی ویژن کیلئے بلین ٹری پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ ماحولیات سے متعلق موضوعات پر تفصیلی ڈاکیومنٹری بنانے کا آغاز کیا ہے۔ کیونکہ ایسا پاکستان میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ حکومت ماحولیاتی تبدیلی پر اس طرح سے فوکس کر رہی ہے اور ماضی کی حکومتوں کی نسبت زیادہ سنجیدہ نظر آتی ہے۔
اس حوالے سے دنیا نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنے کیلئے گرین ہاؤس گیس ایمیشن کو کنٹرول کیا جائے۔ اس کیلئے کیوٹو پروٹوکول، کوپن ہیگن کانفرنس اور پیرس معاہدے جیسے اہم اقدامات سامنے آئے۔ مگر اتنا سب ہونے کے باوجود بھی نتائج زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ اس کی وجہ ہے انفرادی کاوش کا فقدان۔
جرمن واچ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان 5ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں ہر سال شہر قائد میں لوگ ہیٹ ویو سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ لاہور جیسے بڑے شہر میں بھی اسموگ صورتحال کو خراب اور بڑی تعداد میں لوگوں کو بیمار کرنے کا مؤجب بنتی ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی ماحولیات ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ چاول کی فصل میں رہ جانے والے باقیات کو تلف کرنے کیلئے ایک مشین تیار کی گئی ہے جس کو ہیپی سیڈر کر نام دیا گیا ہے۔ فی الحال 500 مشینیں تیار کر کے کسانوں کو دی گئی ہیں جو کہ آنے والے وقت میں 5000 کے قریب بنانے کا ارادہ ہے یہ مشینیں سبسڈی پر کسانوں کو فراہم کی جائیں گی۔
معاون خصوصی ملک امین اسلم نے کہا کہ اس مشین کی مدد سے چاول کی باقیات کو جلانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس مشین کا فائدہ یہ ہے کہ یہ اس تنے کو دوبارہ زمین میں بو دیتی ہے جس سے پانی کا خرچہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ اس سے آرگینک فرٹیلائزر ملتا ہے جس سے پیداوار یقنی طور پر بڑھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں یورو2 کوالٹی کا فیول درآمد کیا جا رہا تھا جسے اپ ڈیٹ کر کے یورو5 تک لے گئے ہیں اب صرف یہی فیول درآمد کیا جا رہا ہے۔ ملک امین اسلم نے کہا کہ ہماری ریفائنریز ابھی بھی یورو2 بنا رہی ہیں ان سے بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کو یورو فائیو پر لے کر جائیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے بلوکاربن اور بلین ٹری سونامی کی مدد سے لگائے جانے والے جنگلات کے فوائد پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس ماحولیاتی آلودگی جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کس قدر کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نےکہا کہ ہمارا کاربن پروڈیوس کرنے کا حصہ بہت کم ہے مگر اس کے باوجود ہم متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہیں۔