
پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے شائع کی گئی لیبر سروے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 3 سال کے دوران ملک میں 55 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔ جو کہ 2008 سے 2018 تک کے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور سے کہیں زیادہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق بیورو آف اسٹیٹسٹکس نے ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ 3 سالوں میں ہر سال اوسطاً 18 لاکھ 40 ہزار سے زائد ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔ جب کہ صوبہ سندھ میں بھی بیروزگاری کی شرح کم ہوئی ہے جہاں اس عرصے کے دوران 6 اعشاریہ 3 فیصد بیروزگاری ہے جو کہ گزشتہ ادوار کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
تاہم صوبہ سندھ میں ہی یہ بیروزگاری کی شرح مسلم لیگ ن کی حکومت کے اختتام پر 5 اعشاریہ 8 فیصد تھی۔ سندھ میں اس شرح میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں فیملی ورکرز کو بھی باقاعدہ باروزگار افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن کی شرح ⅕ ریکارڈ کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ پیپلزپارٹی کے دورحکومت 13-2008 کے دوران 69 لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے جو کہ سالانہ بنیادوں پر 14 لاکھ بنتی ہیں۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت 18-2013 کے دوران 57 لاکھ نئی نوکریاں پیدا کی گئیں جو کہ سالانہ 11 لاکھ 40 ہزار سے زائد بنتی ہیں۔
اسی طرح اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور حکومت میں معاشی ترقی کی اوسط شرح پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اوسط شرح نمو سے کافی زیادہ تھی۔ گزشتہ 70 سالوں میں پہلی بار ملک نے مالی سال 20-2019 کے دوران جی ڈی پی میں بھی 1 فیصد کمی دیکھی جب دنیا عالمی وبا کورونا سے متاثر تھی۔
سروے کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ ملازمتوں کی تخلیق میں شعبہ جاتی شراکت ناہموار تھی اور نئی ملازمتوں کی اکثریت صنعتی شعبے میں پیدا ہوئی تھی۔ وزیراعظم نے اپنی حکومت کے دور میں 10 ملین ملازمتیں پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور 5.5 ملین ملازمتوں کی تخلیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 تک صرف 9 ملین ملازمتیں ہی پیدا کی جا سکتی تھیں۔
یاد رہے کہ سروے میں 10 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تمام افراد جنہوں نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران کم از کم ایک گھنٹہ کام کیا ہے ان کو بطور ملازم اور باروزگار ہی تصور کیا گیا ہے۔ تاہم ملازمت پیشہ افراد کی 10 سال کی عمر کی تعریف چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے پاکستان کے عالمی اسٹینڈرڈ سے مطابقت نہیں رکھتی۔
دوسری جانب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی طرف سے جاری کردہ روزگار کی صورتحال پر رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 19-2018 تک ملک کے 31 فیصد سے زائد نوجوان بے روزگار تھے۔
تازہ ترین سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 21-2020 میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد تھی جو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ لیکن سروے کے مطابق یہ پچھلے سال میں ریکارڈ کیے گئے 6.9 فیصد سے کم تھا۔
خیبرپختونخوا میں بیروزگاری کی شرح تین سال قبل 7.2 فیصد تھی، جو گزشتہ مالی سال میں بڑھ کر 8.8 فیصد تک پہنچ گئی جو کہ چار وفاقی اکائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔
پنجاب میں گزشتہ مالی سال میں بے روزگاری کی شرح 6.8 فیصد تھی جو کہ 6 فیصد سے زیادہ ہے۔ لیکن پچھلے سال سندھ میں یہ 3.9 فیصد تھی جو تین سال پہلے 4.9 فیصد تھی۔
بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح 4.3 فیصد ریکارڈ کی گئی جو کہ تین سال پہلے کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے۔
شعبہ کے لحاظ سے کل روزگار میں زراعت کے شعبے کا حصہ تین سال پہلے کے 38.5 فیصد سے کم ہو کر 37.4 فیصد رہ گیا ہے۔ لیکن صنعتی شعبے کا حصہ 23.7 فیصد سے بڑھ کر 25.4 فیصد ہو گیا۔ ملازمتوں میں خدمات کے شعبے کا حصہ بھی تقریباً 38 فیصد سے کم ہو کر 37.2 فیصد رہ گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران صنعتی شعبے میں تقریباً 2.5 ملین ملازمتیں پیدا ہوئیں جبکہ مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور میں 2.1 ملین ملازمتیں پیدا ہوئیں۔
زرعی شعبے میں مزید 1.4 ملین ملازمتیں اور خدمات کے شعبے میں 1.7 ملین ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں خدمات کے شعبے میں تقریباً 4.3 ملین ملازمتیں پیدا ہوئی تھیں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/imran-khan-jobs-and-pak.jpg