بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
کیسی کو تکلیف دینا کیسا ھے
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠
(احزاب۵۸)
اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ کئے ستاتے ہیں توانہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا ہے۔
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جولوگ ایمان والے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس سے انہیں اَذِیَّت پہنچے حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہوتا جس کی وجہ سے انہیں اذیت دی جائے توان لوگوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا اور خود کوبہتان کی سزا اور کھلے گناہ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔
رسول ﷲ ﷺ نے فر مایا
رحم اور ہمدردی تو اس شخص سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہے۔
( مسند احمد:ج،2،ص301 ،تر مذی، باب ما جاء فی رحمت ا لناس)
آقا ﷺ نے فر مایا تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بد تر ترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔
( مسند احمد،ج2-،ص368)
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه
کامل مسلمان تو وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاؤں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔
صحیح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ حدیث نمبر: 10
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے کسی مسلمان کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائ اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائ اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائ
{معجم اوسط للطبرانی:3745،عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ}
کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایک اور فرمان میں موجود ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا
’’ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، گاہک کو دھوکا دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکان دار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، کسی کے سودے پر سودا نہ کرو، اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرے، نہ اُسے ذلیل ورُسوا کرے اورنہ ہی حقیر جانے۔ (پھر) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا
تقویٰ یہاں ہے، اور(مزید یہ کہ) کسی شخص کے بُرا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو بُرا جانے۔ ایک مسلمان ،دوسرے مسلمان پر پورا
پورا حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور ا س کی عزت۔(مسلم،ص1064،حدیث:6541)
تخریبی جذبات میں حسد، بغض و عناد اور آپس کی رنجشیں ہیں جو انسان کے دین اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔
ایمان اور "ایقان"(یقین ہونے) میں فرق ہوتا ہے۔ ہم ایمان تو لے آئے ہیں گویا تصدیق تو کرلی ہے اور تسلیم کرلیا ہے مگر اگر یقین ہوتا تو ایک گناہ بھی عمداََ ہم سے صادر نہ ہوپاتا۔ایک شخص کو پتا ہو کہ پانی گرم ہے اور پورا یقین ہے کہ سخت ترین گرم پانی ہے اور ہاتھ ڈالیں گے تو جل جائے گا، وہ شغل میں بھی نہیں ڈالے گا۔ کوشش ہی نہیں کرے گا۔ اور یقین ہو کہ آخرت ہے اور ہر حال میں ہے اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور کامل یقین ہو تو گناہ کا صدور کیسے ہوسکتا ہے؟ اس لیے ایمان کو "ایقان" کے درجے پر پہنچانا ہمارا کمال ہے اور ہمارا ہدف ہونا چاہیئے کہ محض تصدیق و تسلیم کافی نہیں ہے، اس میں زیادت یہاں تک کہ ایقان کے درجے تک پہنچانا ہمارا مقصد ہوناچاہیئے۔ اور اس کیفیت کی علامت یہ ہے کہ آپ گناہ کرنے جائیں اور آپ کو ایسا محسوس ہونے لگے کہ آپ آگ میں کودرہے ہیں اور ڈر کر پیچھے ہٹ جائیں۔
اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَهْوَاءِ
اے اللہ! بے شک ہم برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے آپ کی پناہ لیتے ہیں