کل رات میں جب سویا تو میرے اندازے کے مطابق وہ بالکل ویسا ہی پاکستان تھا جو میں اپنی پیدائش کے بعد سے دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔ جہاں ظلم بھی تھا، زیادتیاں بھی تھی، احتجاج بھی تھا، حکومتی نالائقی بھی اور وہ سب کچھ تھا جس کا تجربہ روزانہ کی بنیاد پر آپکو بھی ہوتا ہے اور مجھے بھی۔
مگر جب صبح بیدار ہوکر آفس پہنچا اور حسب معمول فیس بک کا دیدار کیا تو پاکستان کچھ بدلا بدلا پایا۔کیونکہ جس پاکستان کو میں جانتا ہوں وہاں لوگ برسوں سے ظلم کو برداشت کرنا اپنے لیے عقیدت سمجھتے ہیں، جہاں لوگ خود کو کمتر اور اپنے سے اوپر ایک چھوٹے سے گروہ کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور پھر اُن کی ہر بات ماننے کو اپنی زندگی کی طوالت کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں ، مگر اب مجھے یہ پاکستان کچھ بدلا بدلا سا لگا۔ اگرچہ یہاں ظلم کے اندھیرے اب بھی برقرار ہیں، یہاں زیادتیاں اب بھی ہورہی ہونگی، احتجاج بھی ہورہا ہے مگر کچھ ایسا ضرور ہوا جو تادور چھائے اندھیروں کو چیرنے والی روشنی کا دیدار کروارہا ہے۔
بات کچھ طویل ہوگئی مگر واقع بھی کچھ ایسا ہی ہے۔صبح فیس بک جیسے ہی کھولا اتفاق سے میرے سامنے 2 ویڈیوز آئیں جو ابتدا میں مجھے ایک مذاق سا لگیں مگر اُس کی حقیقت تو اُس وقت سامنے آئی جب میں نے اپنے 10 منٹ اُن کو دیکھنے کے لیے صرف کیے۔کیا شاندار منظر تھا، دل ہی دل میں ایک خوشی محسوس ہورہی تھی، مجھے لگا کہ میں خود کو تھوڑا تھوڑا آزاد محسوس کررہا ہوں شاید میرے جذبات آپکو سمجھ نہ آسکیں کیونکہ اِن جذبات کا تعلق لوگوں کی جانب سے دکھائی جانے والی بغاوت سے ہے۔ عام طور پر بغاوت کا لفظ منفی معنوں میں لیا جاتا ہے مگر نہیں نہیں ۔۔۔ یہ وہ بغاوت نہیں ہے ، یہ تو ہوا کا وہ ابتدائی جھونکا ہے جس سے کچھ نہ کچھ تسکین ضرور مل رہی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ 15 ستمبر کو پی کے 370 کراچی سے اسلام آباد کی جانب جارہی تھی جس میں سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک اور وفاق میں اقلیتوں کے وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار نے بھی سوار ہونا تھا۔ مگر لوگوں کا کیا اجب جذبہ تھا، کیا ولولہ تھا، کیا فیصلہ تھا کہ کچھ کچھ ہمت مجھے بھی آئی کہ ہاں اب کچھ ہوجائے ظلم برداشت نہیں کرینگے۔فلائیٹ کو جس وقت پر پروان بھرنی تھی مگر اضافی دو گھنٹے تک جہاز کو روکا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ رحمان ملک اور رمیشن کمار کا انتظار ہورہا ہے ۔ اگر چہ یہ کچھ ایسا تو ہرگزنہیں ہوا تھا جس پر وہاں موجود 350 مسافروں کو حیرت ہونی چاہیے۔کیونکہ ہمارے یہاں تو اِس قسم کے واقعات کا رونما ہونا ایک عام سی بات ہے جس کو سینکڑوں مسافر خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں کہ چلو جس کا انتظار کیا جارہا ہے وہ یقیناً کوئی بڑی شخصیت ہی ہوگی۔ مگر اِس بار ایسا نہیں ہوا۔ لوگوں میں ایک الگ جوش بھی تھا اور جذبہ بھی۔جویہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے کہ آخر 2 فرد کس طرح 350 مسافروں کے 2 گھنٹے محض اِس لیے ضائع کرسکتے ہیں کہ وہ سیاستدان ہیں اور سیاستدان بھی روایتی۔
لوگوں نے اگرچہ 2 گھنٹے انتظار کیا مگر اُس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ تھوڑی بہت بھڑاس نکال کر 2اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جائیں تاکہ جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوسکے۔ بلکہ مقصد تو کچھ اور ہی تھا اور یہ یقیناً پاکستان کے لیے ایک نیا منظر تھا۔ لوگوں نے پہلے آنے والے ڈاکٹر رمیش کی آمد پر نہ صرف شدید تنقید کی بھی بلکہ جہاز میں اُن کے خلاف مختلف نعرے بھی لگائے مگر وہ اِنہیں نعروں کی گونج میں کسی نہ کسی طرح اپنی سیٹ پربیٹھنے میں کامیاب ہوگئے ، مگر لوگوں کا غصہ تھا جو ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور وہ ڈاکٹر رمیش کی سیٹ پر جاکر اُن کا نام پوچھتے رہے ، پہلے تو نام بتانے سے ہچکچارہے تھے مگر بار بار کے اصرار پر اُنہوں نے بتاہی دیا اور جب اُن سے پوچھا کہ آپ سیاستدان ہیں؟ تو ابتدا میں تو انکاری رہے مگر پھر منہ سے نکل ہی گیا کہ ہاں میں ایم این اے ہوں ۔۔۔ بس پھر کیا تھا ۔۔۔ وہ ہوا جو ایک حسین یادگار کی صورت اختیار کرگیا ۔۔۔۔ لوگوں نے نعروں سے جہاز میں ایک عجب سے ماحول بنادیا اور لوگوں نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی گنجائش نہیں کہ آپ اِس میں سفر کریں اِس لیے پہلی فرصت میں اپنے سامان سمیت یہاں سے نکل جائیں اور جناب جب خلق خدا کچھ کہتی ہے تو پھر سب کو سننی ہی پڑتی ہے۔
مگر یہ بات تو تھی ڈاکٹر رمیش کی اور ابھی تو اصل کردار کی آمد باقی تھی۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ رحمان ملک صاحب حالات کو قابو کرنے میں کس قدر مہارت رکھتے ہیں مگر شاید اُن کی یہ مہارت سیاستدانوں تک ہی محدود ہے اور عوام کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ۔جب اُن کو یہ بات معلوم ہوئی کہ ڈاکٹر رمیش کو جہاز بدر کردیا گیا ہے تو محترم جہاز میں اِس طرح داخل ہونے آئے کہ جیسے اُن کو کسی چیز کا معلوم ہی نہیں مگر مسافر اُن کا پرتباک استقبال کرنے جہاز کے دروازے پر ہی موجود تھے۔بس پھر کیا تھا ، ملک صاحب نے دور سے حالات اور واقعات کو بھانپ لیا اور دور ہی دور سے واپسی میں خود کے لیے امان سمجھی اور یوں عوام کے غیض و غضب کا شکار بننے والے دونوں سیاستدان جہاز میں سوار نہیں ہوسکے اور جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگیا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان بدل گیا ہے۔ مگر یہ پانی کا پہلا قطرہ ضرور ہے۔ اور مجھے پوری اُمید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب یہ قطرہ دریا کی شکل اختیار کرجائے گا اور اِس وطن عزیز میں یہاں رہنے والوں کی حکمرانی ہوگی، اُن لوگوں کی حکمرانی ہوگی جو آئین و قانون کو مانتے ہونگے اور سب سے بڑھ کر خلق خدا کی خدمت کرنے والے ہونگے۔ میرا تو یہ ایمان ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا باقی آپ کا خیال ہے؟
http://www.express.pk/story/288491/