[h=2]
شوگر نارمل نہ ھو تو دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ھے
[/h]
نومبر زیابطیس کے عالمی دن کے حوالے سے بطورخاص
شوگر کنٹرول نہ ھو تو دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ھے
شوگر کے شکار قارئین کے لیے
یہ خصوصی راہ نمائی کتنی مشکلوں سے بچا سکتی ہے
کئی مرتبہ احتیاط ہی سب سے بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے
ایکزمانے م
یں کہا جاتا تھا کہ اس بیماری سے نسبتاً کم لوگ متاثر ہوتے ہیں لیکن کچھ عرصے سے یہ بیماری انتہائی سرعت سے پھیلی ہے۔ذیابیطس ایک قدیم مرض ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بیماری کے شکار افراد میں دل کی شریانوں کے امراض پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔ ایسے افراد جنھیں پہلے دل کی شریانوں کے امراض لاحق ہوں، انہیں اگر ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہو جائ
ے تو ان کا مرض بہت پیچیدگی اختیار کر سکتا ہے۔ ذیابیطس کے سبب خُون کے نظام میں بے قاعدگی پیدا ہونے لگتی ہے۔ تب عموماً حیاتیاتی اور کیمیائی بے قاعدگیاں، شریانوں میں ایتھروما (چربیلے ملغوبے) کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ یا در کھیں کہ ذیابیطس جسم کے دیگر پٹھوں کی طرح دل کے پٹھوں کو بھی بتدریج ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
ذیابیطس کیا ہے؟
انسانی جسم میں معدہ سے ذرا نیچے لبلبہ (Pancrea) واقع ہوتاہے جو انسولین نامی ہارمون
پیداکرتا ہے، انسان جو بھی خوراک کھائے، اس خوراک کا اکثر حصہ خاص طور پر میٹھی اور نشاستہ دار اشیا، مثلاً روٹی یا آلو، وہ شوگر میں تبدیل ہو جاتا ہے، اس شوگر کو گلوکوز کہتے ہیں۔ گلوکوز دورانِ خُون کے ذریعے انسانی جسم میں گردش کرتا رہتاہے۔ کئی افراد میں ذیابیطس کے علاوہ کسی دوسرے عارضے کے سبب ایسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں جن سے یہ شبہ ہو کہ ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے۔ جیسے حاملہ عورتوں میں حمل کی وجہ سے بھی زیادہ پیشاب کی حاجت ہوسکتی ہے ۔
اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب گردے خُون میں شوگر کی زیادتی سے چُھٹکارا حاصل کرنا چا ہیں تو بھی زیادہ سے زیادہ پیشاب پیدا کرکے شوگر خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کے علاو ہ دورانِ حمل جسمانی ہارمونز کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کُچھ ہارمونز خُون میں شوگر کی مقدار بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے خُون میں شوگر کی زیادتی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مرض موروثی ہو۔تحقیق سے ثابت ہو ا ہے کہ اگر ماں کو ذیابیطس ہو تو بچے کو بھی لاحق ہونے کا ایک فیصد امکان ہوتا ہے ۔جب کہ باپ کو یہ مرض لاحق ہو تو بچے میں اس کی منتقلی کا امکان چھ فیصد ہوتا ہے۔انگریزی میں ذیابیطس کا طبی نامDiabetes Mellitus ہے۔ اس کی تین اقسام ہیں:
۱۔پہلی قسم کی ذیابیطس پیدائشی طور پر بچوں کو لاحق ہوتی ہے، عرفِ عام میں اسے ذیابیطس ٹائپ۔۱ کہتے ہیں۔اس کا علاج سوائے انسولین کے اور کوئی نہیں ۔
۲۔ذیابیطس کی دوسری قسم عموماََ پختہ عمر کے افراد کو لاحق ہوتی ہے۔ اسے ذیابیطس ٹائپ۔۲ بھی کہا جاتا ہے۔
۳۔ ذیابیطس کی تیسری قسم دورانِ حمل خواتین کو وزن کی زیادتی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے ۔
ذیابیطس کا اچھا کنٹرول
اچھے کنٹرول کے معنی یہ ہیں کہ ذیابیطس میں مبتلا افراد کے خون میں گلوکوز کی مقدار جس حد تک ہو سکے، ان لوگوں کے قریب تر رکھا جا ئے جو ذیابیطس سے محفوظ ہیں۔ اس کا حصول دن میں کئی مرتبہ گلوکوز کے ٹیسٹ ، مناسب غذا کے استعمال ، ورزش اور مناسب دوا؍انسولین کی صحیح مقدار کے تعین کے ذریعے ممکن ہے۔
ضروری نہیں کہ ذیابیطس کی وجہ سے کو ئی مخصوص پیدائشی نقص لاحق ہو لیکن دماغ، ریڑھ کی ہڈی اور دل کے نقائص ہونے کے امکانات ذیابیطس کے خراب کنٹرول کے باعث بڑھ جاتے ہیں۔ پیدائشی نقائص کا خطرہ ذیا بیطس کی وجہ سے نہ صرف تین گنا زیادہ ہوتا ہے بلکہ شدت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ذیابیطس کے اچھے کنٹرول کے ذریعے خون میں شکر کی مقدار درج ذیل حدود میں ہونی چاہیے:
ناشتا سے قبل
Preparandial 70-100 mg/dl
ناشتا کے بعد
Postparandial 1 hr<140 mg/dl
2 hr<120 mg/dl
٭نہار منہ یا کھانے سے فوراََ پہلے شکر کا کنٹرول:
٭اچھا کنٹرول۔80 – 110ملی گرام فیصد
٭قابلِ قبول کنٹرول۔110 – 126ملی گرام فیصد
٭خراب کنٹرول۔126 ملی گرام فیصد سے زیادہ
٭ناشتا یا کھانے کے 2 گھنٹہ بعد شکر کا کنٹرول:
٭اچھا کنٹرول۔80 – 126ملی گرام فیصد
٭قابلِ قبول کنٹرول۔126 – 180ملی گرام فیصد
٭خراب کنٹرول۔180ملی گرام فیصد سے زیادہ
ذیا بیطس اور دل کے عوارض:
بظاہر ذیابیطس اور دل کے عوارض دو مختلف چیزیں ہیں‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت کئی ایک پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان پیچیدگیوں میں امراض قلب سرِ فہرست ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ذیابیطس میں مبتلا افراد میں سے پچاس فیصد کی اموات کاسبب عارضہ قلب ہی ہوتا ہے۔ ایک شخص میں مختلف وجوہ کے باعث ذیابیطس کانشانہ بنتا ہے ۔ اس کے لیے ہائی بلڈ پریشر کے امکانات بھی یکساں ہیں۔ لیکن ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا شخص ذیابیطس میں مبتلا ہو سکتا ہے، خصوصاََ اس صُورت میں جب وہ عام لوگوں کی نسبت ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے زیادہ خطرات رکھتا ہو۔ اسی طرح ذیابیطس میں مبتلا افراد ذیابیطس کے خراب کنٹرول کے باعث گردوں کی خرابی کی زد میں آجاتے اور اس کے بعد ہائی بلڈ پریشر کے مریض بن جاتے ہیں۔
عالمی اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2000 ء میں 150 ملین سے زائد تھی۔ یہ تعداد بڑھ کر 2025 ء تک 300 ملین سے تجاوز کر جائے گی۔ عام افراد میں دل کی شریان کی بیماری 1 فیصد سے 4 فیصد تک ہوتی ہے ۔ ذیابیطس سے متاثرہ افراد میں اس کا تناسب چار گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ جب کہ دل کے بند ہونے کا امکان ، مردوں میں د گنا زیادہ ہو جاتا ہے جب کہ خواتین میں یہ امکان پانچ گنا بڑھ جاتا ہے۔
یاد رکھیں کہ بلڈ پریشر کی زیادتی اکثر اوقات ذیابیطس کے ساتھ ہی موجود ہوتی ہے، بلڈ پریشر کی زیادتی گردوں کی خرابی کے عمل کو تیز کر دیتی ہے ۔تب باریک خُون کی نالیوں (کیپلریز) کی پیچیدگی بھی واقع ہوتی ہے ۔ ذیابیطسی مریضوں کے گردوں کی شریان میں تصلب و سوزش کے سبب تنگی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ حالت غیر ذیابیطسی مریضوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے، جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کی مقدار اور کنٹرول کاانحصار دل سے خُون کے خروج اور بیرونی و سطحی خُون کی نالیوں کی مزاحمت سے ہوتا ہے۔ بڑی عُمر کے ذیابیطسی مریضوں میں انقباضی دباؤ زیادہ پایا جاتا ہے اور اس کا سبب تصلب شریانی مانا جاتا ہے۔
امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کی صُورت میں ذیابیطس کا آسان ہدف بننے والے (موروثیت یا بے تحاشہ مٹاپے کے باعث) ہائی بلڈ پریشر کے سبب پیدا ہونے والی انسولین کے خلاف مزاحمت سے ذیابیطس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ وہ ہائی بلڈ پریشر کنٹرول کرنے والی کچھ ادویات کے استعمال پر ان دواؤں کے ذیلی اثرات کے باعث بھی ذیابیطس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ ایک حقیقت ہے کہ دُنیا بھر میں یہ دونوں عارضے دن بدن بڑھ رہے ہیں، یہ صُورت ترقی پذیر ا
غیر علامتی یا بغیر درد کے دل کا دورہ (Silent Ischaemia)ور پسماندہ ممالک میں بھی ہے۔معاملے کا سنگین پہلو یہ ہے کہ جب یہ دونوں بیماریاں مل جائیں تو سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس دونوں میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کی الگ الگ وجوہ کے ساتھ یہ قدر بھی مشترک ہے کہ یہ دونوں امراض، ایک دوسرے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر پر کنٹرول اس اعتبار سے اہم ہے کہ بہت سی صُورتوں میں صرف احتیا
ط ہی سے یہ مرض کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
دل مضبوط پٹھوں سے تشکیل پایا ہوا ایک عضو ہے اور اس کا کام سارے جسم کو خُون سیراب کرنا ہے۔ ہر پٹھے یا عضو کی طرح دل کو بھی پمپ کافعل انجام دینے کے لیے آکسیجن اور خُون کی ضرورت ہوتی ہے۔ دل کی سطح پر پائی جانے والی شریان قلب (coronary arteries) دل کو خُون اور آکسیجن فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن اگر ان میں سے ایک یا کئی شریانیں تنگ ہوجائیں تو دل کے پٹھوں میں دورانِ خُون اور آکسیجن کم ہونے لگتی ہے جو انجائنا کا باعث بنتی ہے ۔ یہی درد یا انجائنا کی کیفیت خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔
عموماً یہ درد چند سیکنڈ سے لے کر چند منٹ تک رہتا اور آرام کرنے سے دُور ہو جاتا ہے اور دل کے عضو کو مستقل طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔لیکن اگر یہ عارضہ کافی عرصہ برقرار رہے تو قلب کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے اور نتیجے کے طور پر دل کادورہ واقع ہو تا ہے۔ ذیابیطس سے متاثرہ افراد کو عموماً براہِ راست دل کے دورے ہی سے ہی واسطہ پڑتا ہے کیونکہ انہیں انجائنا کے درد کی کوئی علامت محسوس نہیں ہو پاتی، ایسے دل کے دورے کو خاموش دل کا دورہ (silent ischaemia) کہا جاتا ہے۔ ذیابیطس سے متاثرہ افراد میں درد کا احساس دلانے والی نسیں متاثرہو جاتی ہیں اور دل کے درد کا احساس دماغ تک نہیں پہنچا پاتیں۔
میٹابولک سینڈروم: امراضِ قلب اور ذیابیطس کی بنیادی وجہ
میٹابولک سینڈ
روم جسے انسولین مزاحمت سینڈروم یا سینڈروم ایکس بھی کہا جاتا ہے، ان پُر خطر عوامل کا مجموعہ ہے جو مٹاپے کا شکار نیز ذیابیطس قسم دوم میں مبتلا افراد میں قلب، شریانوں کی بیماری اور ان کی خرابیوں کا ذمے دار ہے۔ جسم میں چکنائی کی تقسیم کے فرق (I.E Gynecoid Versco andriod) کا تعلق ترمیم یا تبدیل شدہ میٹابولک پروفائل‘ طبی لٹریچر میں پچاس برس قبل دستاویزی صُورت میں سامنے آ یاتھا اور اسے ۱۹۸۸ء میں سینڈروم ایکس کا نام دیا گیا ۔ سینڈروم کا جزو قلب اور شریانی بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسوب کیا گیا۔
میٹابولک کی نمایاں خصوصیات میں انسولین مزاحمت‘ پیٹ کے گرد چربی کا اکٹھا ہونا‘ ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی بڑھی ہوئی سطح (ٹرائی گلیسرائیڈ کی بڑھی ہوئی سطح اور ایچ ڈی ایل کی کمتر سطح) شامل ہیں۔ میٹابولک سینڈروم کااندازہ لگانے کے لیے یا کارڈیوویسکیولر کی بیماری اور ذیابیطس کا خطرہ رکھنے والے مریضوں کی نشاندہی کے لیے معمول کی طبی اور خاندانی ہسٹری مدد کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے حالیہ اور ماضی میں وزن کی تبدیلی‘ خوراک اور جسمانی سرگرمیوں کا مختصر احوال بشمول پیشہ ورانہ اور فرصت کے اوقات کی جسمانی مصروفیات کے بارے میں معلومات اہم ہیں۔ یہ طے کرنے کے لیے کہ ایک دن میں مریض کتنے گھنٹے بیٹھ کر وقت گزارتا ہے یا ایک جگہ ٹھہر کر کام کرتا ہے، پوچھ گچھ کی جائے ۔ اس کی عمومی خوراک، خوراک میں چکنائی کی کمی کی کوششوں یا غذا میں کسی خاص تبدیلی کے متعلق سوالات معالج کو مریض کی اپنے طرز زندگی اور عادات میں تبدیل
ی کے لیے آمادگی کا اندازہ لگانے میں مدد دیتے ہیں۔
میٹابولک سینڈروم کا شکار مریضوں کو پیٹ کے گرد چربی کو گھٹانے کے لیے موثر کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس کے علاوہ اگر ٹرائی گلیسرائیڈ کی سطح معمول سے زیادہ ہوتو اس مقصد کے لیے چکنائی سے پرہیز کے ساتھ ساتھ مناسب ورزش ضرور کرنی چاہیے اور خوراک ہمیشہ کم کیلوریز والی استعمال کرنی چاہیے۔نیز ایسے مریضوں کو ہائی بلڈپریشر اور گلوکوز کی بڑھی ہوئی سطح سے بھی بچنا چاہیے۔
ذیابیطس سے متاثرہ مریضوں کے لیے خطرے کا اندازہ (Risk Assessment)
ہائی بل
ڈ پریشر اور دل کے عوارض کے ساتھ ساتھ اگر ذیابیطس کا عارضہ بھی لاحق ہو تو مریض کے لیے موت کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ مختلف تحقیقات اور مشاہدات کی روشنی میں خُون میں شوگر کی مقدار مخصوص حد سے تجاوز کر جائے تو خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ درج ذیل جدول کی مدد سے ہر فرد اپنے بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ شوگر لیول کو دیکھ کر رِسک کا اندازہ کر سکتا ہے:
خطرے کے اندازہ کا جدول (Risk Assessment Table)
بلڈ شوگر
(Blood Sugar) mg %
خالی پیٹ شوگر کی مقد ار
(Fasting Level)
ناشتے کے بعد شوگر کی مقدار
(Post Prandial Level)
1 گھنٹے بعد ۔ 2 گھنٹے بعد
نارمل (Normal)
100 سے کم
160 سے کم
120 سے کم
ہائی رسک (High Risk)
100 – 130
160 – 220
120 – 150
قطعی خطرہ (Definite Risk)
130 سے ز ائد
220 سے زائد
150 سے زائد
سینڈروم ایکس
نشاستے دار اشیا، آٹا، چاول، آلو اور میٹھے بسکٹ وغیرہ کھانے سے خون میں شکر کی سطح بڑھ جاتی ہے جسے جسم کا حصہ بنانے کے لیے لبلبہ زیادہ مقدار میں انسولین تیار کرتا ہے۔ یہ کیفیت طب کی اصطلاح میں سنڈروم ایکس (Syndrome X) کہلاتی ہے۔ خون کی شکر میں اضافے سے حملہ قلب کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے۔ یہ کیفیت یا علامت ظاہر ہو اور اس کے باوجود خون میں ٹرائی گلیسرائیڈ، قلب دوست کولیسٹرول کے علاوہ بلڈ پریشر بھی نارمل سطح پر ہو تو ایسی صورت میں حملہ قلب کا خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی صورت میں خون میں شکر کی سطح ناشتے سے پہلے اور بعد میں ضرور دیکھتے رہنا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق ایسی صورت میں نشاستے دار اشیا کو ترک کر کے گوشت، جمنے والی چکنائیوں، مکھن، بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ کا استعمال بھی خطرناک ہے کیونکہ اس طرح سے کولیسٹرول کی سطح بڑھ جائے گی۔ ایسی صورت میں مناسب یہی ہے کہ مغزیات جیسے مونگ پھلی، زیتون کاتیل، کینولا کا تیل، چکنی یا روغنی مچھلی وغیرہ کھائے جائیں۔ مچھلی اور کینولا میں مفید قلب چکنائی اومیگا۔۳ بکثرت پائی جاتی ہے۔