
حکومت کا پیکا آرڈیننس میں ترامیم کرنے پر رضامندی کا اظہار، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بڑا اعلان کر دیا
گزشتہ روز پیکا آرڈیننس کے معاملے پر میں چوہدری پرویز الہٰی کی لاہور میں میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندہ وفد سے ملاقات میں انہوں نے کمیٹی کے مطالبات کی مکمل حمایت کی، ملاقات کے دوران میڈیا وفد میں پی بی اے، اے پی این ایس، سی پی این ای اور امینڈا کے عہدیداران شامل تھے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر 90 دن میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی ڈرافٹ لے آئے تو پیکا آرڈیننس میں ترامیم کر لیں گے۔
تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "بریکنگ پوائنٹ ود مالک" میں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت تیار ہے کہ اس آرڈیننس کو وڈرا کر کے جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت مل کر اس حوالے سے ڈرافٹ تیار کر کے پارلیمان میں پیش کیا جائے۔
انہو نے مزید کہا کہ اس حوالے سے مینڈیٹ چوہدری پرویز الہی کو دے دیا ہے اب ان کے طرف سے جس طرح اس پر ورک کیا جائے گا ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی پیکا قانون پر میڈیا کے وفد سے ملاقات کریں گے اور بات چیت کے بعد جس طرح سے بھی اس کا حل نکالیں گے، حکومت اس پر کام کرے گی، اگر جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت ایک متعین شدہ وقت کے دورانیے میں پیکا کے حوالے سے متفقہ ڈرافٹ لائیں چاہے اس کے لئے جتنی مرضی ملاقاتیں کرنی پڑیں، تو حکومت اس ڈرافٹ کے مطابق ترمیم کرنے کے لئے رضامند ہے۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) میں تبدیلیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ہم پیمرا میں تبدیلیاں کرنے جارہے تھے جس کے لئے آپ کو ڈرافٹ بھیجا وہ بھی تو آپ لوگ تسلیم نہیں کر رہے، ہم جو پی ایم ڈی اے کا قانون لانے والے تھے وہ بھی تو سول قانون تھا اس پر بھی تو آپ لوگوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے، اس میں تو کوئی قید نہیں تھی۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ اس قانون میں جو ہم نے کونسل آف کمپلینٹ بنائی تھی اس میں ہم نے کہا تھا کہ 501 فیصد میڈیا کے لوگ ہوں اور 50 فیصد پارلیمنٹ کے تا کہ ایک آزاد کونسل بنائی جاسکے جس میں اگر کوئی شخص جاکر اپنی شکایت درج کروائے تو اس کا فیصلہ کونسل کرے کیونکہ عدالتیں تو فیصلے دے نہیں رہیں، نہ ہی جج مقرر کرتی ہی پرانے "ڈی فیمیشن" ہتک عزت قانون کے تحت، ہم نے اس مسئلے کے حل کے لئے کہا کہ میڈیا ٹریبیونل بنا دیتے ہیں تو اس پر بھی آپ لوگ رضامند نہیں تھے، اب پیکا قانون میں قابل ضمانت گرفتاری کو ناقابل ضمانت گرفتاری کیا ہے تو اس پر جھگڑا شروع ہو گیا ہے۔
انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں وضاحت کی کہ ایسا نہیں ہے کہ بغیر ایف آئی آر کے بغیر پرچے کے کسی کو بھی اٹھا لیں گے، آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ گرفتار کرنے کے بعد 24 گھنٹوں میں ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے تو پیش کرنا ہی ہے، لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی "سیف گارڈ" ڈالنا چاہیئے تو میں آپ کو سپورٹ کرتا ہوں ضرور ڈالیں، کیونکہ 99 فیصد بڑے میڈیا چینلز کا تو یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کے سینئر رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے پیکا آرڈیننس میں ترمیم فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا۔ فواد چوہدری سے اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کا ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔ رابطے کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان پیکا قانون سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
اس موقع پر چودھری پرویز الہٰی نے وزیر اطلاعات کو پیکا قانون پر میڈیا کو تحفظات سے آگاہ کیا۔ دوران گفتگو فواد چودھری نے کہا کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر کامل یقین رکھتی ہے، ہم موثر ریگولیشن پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت تنقید کا خیر مقدم کرتی ہے، تنقید کی آڑ میں کسی کی ذات پر حملہ کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پیکا قانون پر میڈیا اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی کے میڈیا فریقین سے جو بھی معاملات طے ہوں گے، حکومت ان پر عملدرآمد کرے گی۔
خیال رہے کہ پیکا قانون میں ترمیم کے تحت جعلی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر اب ناصرف 5 سال تک کی قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے بلکہ اسے ناقابل ضمانت جرم بھی قرار دیا گیا ہے۔
تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو پیکا قانون کی ترمیم شدہ دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا ہے۔
اس قانون کے تحت کارروائی کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتاری کے لیے کسی وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ ترمیم شدہ قانون کے مطابق ضروری نہیں کہ یہ غلط خبر کسی شخص سے متعلق ہی ہو۔ اگر یہ خبر کسی ادارے، تنظیم یا کمپنی سے متعلق ہے تو بھی اس قانون کے تحت متاثرہ ادارہ یا تنظیم اس شخص کے خلاف کارروائی کی درخواست دے سکتا ہے۔
اور کچھ صورتوں میں تو غلط خبر یا معلومات کے خلاف شکایت کرنے والا کوئی تیسرا فرد بھی ہوسکتا ہے جو اس خبر سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/fawi1h1h21.jpg