کیا بلوچستان میں پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟

2یمع4ررربلہچھستان.png


عام انتخابات 2024 کے انعقاد میں 20 روز سے بھی دو ہفتہ باقی رہ گیا , ایسے میں جہاں امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے وہیں سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار جوڑ توڑ کے عمل میں بھی مصروف ہیں، اس صورتحال میں سیاسی حلقوں میں ایک سوال زبان زد عام ہے کہ کون سی سیاسی جماعت کتنی نشستیں حاصل کرے گی۔

بلوچستان کے سیاسی و عوامی حلقوں کی بات کی جائے تو ان کے مطابق مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف اور نیشنل پارٹی سمیت کئی جماعتوں کے امیدوار ممکنہ طور پر ایوان کا حصہ بن سکتے ہیں ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2018 میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی 7 نشستیں حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف ان انتخابات میں کہاں کھڑی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دے رکھے ہیں صوبے سے قومی اسمبلی کی 16 جنرل نشستوں میں سے 12 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 51 جنرل نشستوں میں سے 31 پر پی ٹی آئی نے اپنے امیدواروں کو الیکشن کے میدان میں اتار رکھا ہے۔

واضح رہے کہ پارٹی نے بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں سے امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں جو اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ ٹکٹ حاصل کرنے والے امیدواروں میں کوئی قابل ذکر نمایاں شخصیت شامل نہیں۔

بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی بلوچستان میں وہ سیاسی جڑیں موجود نہیں جیسی پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں ہیں۔ ’دراصل بلوچستان کا سیاسی مزاج ملک بھر سے ذرا مختلف ہے، صوبے کی پشتون آبادی والے علاقوں میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک تو موجود ہے لیکن صوبائی سطح پر تنظیم سازی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ووٹر بھی تذبذب کا شکار ہیں۔

سید علی شاہ کے مطابق پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اس وقت روپوش ہے، اس کے علاوہ ایسی بھی نشستیں ہیں جہاں تحریک انصاف کے 2 سے 3 امیدوار ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ ’اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی صوبے میں مقبول ہے لیکن ووٹر کا ووٹ کسی ایک ٹریک پر نہیں تو ایسی صورت میں ایک دو نشستوں کے علاوہ تحریک انصاف کچھ خاص نہیں کر پائے گی۔

سیاسی ماہرین کا بھی یہی موقف ہے کہ گزشتہ انتخابات میں عمران خان کی مقبولیت کی ایک لہر بن چکی تھی جس نے بلوچستان کا بھی رخ کیا، جس کے باعث تحریک انصاف نے صوبے سے نشستیں حاصل کیں، تاہم صوبائی سطح پر پی ٹی آئی کا اندرونی اختلاف اور عمران خان کی صوبے میں عدم دلچسپی کے باعث پارٹی کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

انہی معاملات نے پی ٹی آئی کے ووٹر کو بھی مایوس کیا ہے تاہم اب صورتحال 2018 کے انتخابات سے بالکل برعکس ہے اب تحریک انصاف کا سپورٹر تو موجود ہے مگر ووٹر نہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے کسی بھی قابل ذکر سیاسی رہنما کو ٹکٹ جاری نہیں کیا جس کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں یی ٹی آئی کا صوبے سے نشستیں حاصل کرنا نا ممکن سا نظر آتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما منظور وسان نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی 30 یا 40 سیٹیں لے سکتی ہے۔اپنے ایک بیان میں منظور وسان کا کہنا ہے کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آزاد امیدوار پی پی پی میں آئیں گے، اچھا ہے بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں، باہر ہوتے تو انہیں امیدوار بھی نہ ملتا۔

منظور وسان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے الیکشن کے وقت ن لیگ میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے اختلافات سامنے آئیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیت پیپلز پارٹی کی ہے۔