babadeena

Minister (2k+ posts)
Re: ایسے لوگ اب پھرکبھی لوٹ کرنہیں آئیں گے

Salaam brother,
it is taught in Qur'an to motivate or discourage by referring to the stories of past. Umar RA definitely is a personality to promote ethics. how authentic the story is i have no clue however you objection is not valid here at all.
Thanks to add something into my limited knowledge and also give some
reference also. What is the ratio/relation/percentage of authenticity of the stories
mentioned in Quran and between the ones written by people themselves.
"Have they no sense at all"
 

w-a-n-t-e-d-

Minister (2k+ posts)
Re: ایسے لوگ اب پھرکبھی لوٹ کرنہیں آئیں گے

Agar Talb Hai Tujhko Jannat Ki Tu Palla Thaam Sahaba rz Ka..

Hubb-e-Sahaba rz Rehmatullah
Bughaz-e-Sahaba rz Lannatullah
 

hammad78

MPA (400+ posts)
ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے


دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے
ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر یہ ہے وہ شخص

عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں کیا کیا ہے اس شخص نے ؟

یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟

وہ شخص کہتا ہے ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کس طرح قتل ہوا ہے ؟

وہ شخص کہتا ہے یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین ۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا
اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،

خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں معاف کر دو اس شخص کو
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے
اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا

عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو

عمر رضی اللہ عنہ جانتے ہو اسے ؟

ابوذر رضی اللہ عنہ نہیں جانتا

عمر رضی اللہ عنہ تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟

ابوذر رضی اللہ عنہ میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا

عمر رضی اللہ عنہ ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے

عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں کدھر ہے وہ آدمی ؟

ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟

یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی
صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا

وہ بولا امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ
ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے

عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟

ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے

سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے


عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔

اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے

اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے

اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے

اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے
 

khawaja555

Councller (250+ posts)
Re: ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

Sab ko acha hona chahie ek umar razi allah taala se kaam nahin chale ga! Kia ham main koi abuzar he?kia ham main koi maqtool ke bachon jaisa koi he?nahin ham main to us qatil jaisa bi nahin !!!!!!!!
Allah taala hamain tofiq de ameen
 

behzadji

Minister (2k+ posts)
Re: ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

Agar Umer hotay tau yahan koi zinda na bachta........kisi ki gardan kutni thee aur bohat son ne tau sangsaar ho jana tha. akorray khanay se tau koi nahi bachna tha...illa mashaAllah.
 

hammad78

MPA (400+ posts)
ایسے لوگ پھر لوٹ کر آ جائیں، کبھی نہیں

ایسے لوگ پھر لوٹ کر آ جائیں، کبھی نہیں

(خلافت عمر رضی اللہ عنہ سے چند معطر واقعات جو حکمرانوں اور ذمہ داروں کیلئے ایک آئینہ ہیں)

******



سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے تو فرمایا: اے لوگو سنو اور غور کرو۔

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا: اللہ کی قسم، نا ہی تیری بات سُنیں گے اور نا ہی اُس پر غور کریں گے۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا: ایسا کیوں سلیمان ؟

انہوں نے جواب دیا: خود تو دو قمیصوں کے برابر کا کپڑا پہنتے ہو اور ہمیں ایک ایک قمیص دیتے ہو!

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: اُٹھ عبداللہ اور سلیمان رضی اللہ عنہ کو جواب دو۔

عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: میرا والد طویل القامت شخص ہے، اس لئیے میرے حصے کا کپڑا لیکر اور دونوں کو ملا کر اپنے لیئے قمیص سلوا ئی ہے۔

سیدنا سلیمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے امیر المؤمنین، اب کہیئے، ہم سُنیں گے، ہمیں حکم دو تو ہم اطاعت کریں گے۔

******

ایک بار منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے فرمایا: تُم لوگ کیا کرو گے اگر راستہ اس طرح ٹیڑھا ہونا شروع ہو گیا تو؟ اور اپنے ہاتھ کو بھی تھوڑا سا ترچھا کر کے دکھایا۔

حاضرین کی آخری صفوں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر اپنی تلوار میان سے نکال کر لہراتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم، اگر راستہ اس طرح ٹیڑھا ہوا تو ہم اپنی تلواروں سے ایسا کریں گے۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسی رعایا دی جو راستوں کو ٹیڑھا ہوتے دیکھے گی تو مجھے سیدھا کرنے کیلئے طاقت فراہم کرے گی۔

******

اے شخص نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے کہا: اے عمر رضی اللہ عنہ، اللہ سے ڈرو۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں، اور کہا:

تم میں خیر و بھلائی نہیں رہے گی اگر مجھے ایسی بات نہیں کروگے تو، اور مجھ میں خیر و بھلائی نہیں ہوگی اگر میں ایسی بات قبول نہیں کرونگا تو۔

******

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر عورتوں سے مہر کم کرنے کو کہا تو مسجد کے آخر سے ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا؛ اے امیر المؤمنین، اللہ تبارک و تعالیٰ تو فرماتے ہیں (وَآتَيْتُمْ إِحْدَاھنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْہ ُ شَيْئًا)(اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا)۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس عورت نے ٹھیک کہا ہے، عمر سے غلطی ہو گئی ہے۔

******

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم، میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایسی قمیص پہنے ہوئے دیکھا کہ اُس میں چودہ پیوند لگے ہوئے تھے اور اُس وقت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت بھی تھے۔

اسی بات کو مشہور شاعر محمود غنیم اس طرح کہتا ہے :

يا من يری عمرا تكسوہ بردتہ - والزيتُ أدمٌ لہ والكوخُ مأواہُ

يہتز كسری علی كرسيہ فرقًا - من خوفہ وملوكُ الروم تخشاہُ

اے عمررضی اللہ عنہ کی قمیص میں پیوند لگے دیکھنے والے

محض تیل جسکا سالن اور صراحی سے پانے پینےوالا تھا وہ

کسریٰ میں تخت نشین بھی اُس کے نام سے لرزاں تھے

اور روم کے بادشاہ اُس سے ڈرتے تھے

******

فارس کا وزیر ھرمزان آپ رضی اللہ عنہ کو تلاش کرتے ہوئے ایک درخت کے پاس پہنچا جس کے نیچے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو پیوند لگی قمیص پہنے اور بغیر کسی پہریدار کے سوتے دیکھ کر کہہ اُٹھا :

تو نے حکومت کی، انصاف کیا، امن دیا اور بے خوف سویا

عرب شاعر حافظ ابراہیم اس مقولے کو اپنے شعروں میں اس طرح بیان کرتا ہے:

فقال قولۃ حق أصبحت مثلا - وأصبح الجيل بعد الجيل يرويھا
أمنت لما أقمت العدل بينھم - فنمتَ نوم قرير العين ھانیھا


پس اُس نے جو حق کی بات کہی وہ ضرب المثل بن گئی

نسل در نسل آنے والے یہ بات دہراتے رہیں گے

میں ایمان لایا جب تونے اُن کے درمیان ؑانصاف کی عدالت کی

اور اسی لیئے تو تو اتنی بے فکری سے سویا

******

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: اللہ کی قسم، اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اللہ تعالیٰ مُجھ سے یہ سوال نا کردیں اے عمر، تو نے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کرایا تھا؟

******

ایک بار اپنے بچوں کے ہاتھ میں میٹھے کا ٹکڑا دیکھ لیا تو اپنی بیوی سے استفسار کیا: اس میٹھے کے بنانے کیلئے تیرے پاس پیسے کدھر سے آئے؟

اُس نے جواب دیا: بیت المال سے آنے والا آٹا تھوڑا تھوڑا بچتا تھا جسے ملا کر یہ میٹھا بنا لیا۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آٹا بچا پاتی ہے اور مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں جن کو آٹا میسر ہی نہیں!

فوراً ہی اپنے بچوں کے ہاتھوں سے میٹھے ٹکڑے لئیے اور کہا: مسلمانوں کے بیت المال کو جا کر واپس کر دو۔

******

ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو میٹھا کھانے کی طلب ہوئی تو آپ نے اُسے کہا: کہاں سے پیسے لاؤں جس سے تجھے میٹھا خرید کر دوں؟

******

حضرت عمررضی اللہ عنہ کی بیوی (عاتکہ) کہتی ہیں کہ: عمررضی اللہ عنہ بستر پر سونے کیلئے لیٹتے تھے تو نیند ہی اُڑ جاتی تھی، بیٹھ کر رونا شروع کر دیتے تھے۔

میں پوچھتی تھی: اے امیر المؤمنین، کیا ہوا؟

وہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے: مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی خلافت ملی ہوئی ہے، اور ان میں مسکین بھی ہیں ضعیف بھی ہیں یتیم بھی ہیں اور مظلوم بھی، مجھے ڈر لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کریں گے۔

******

مدینہ میں آئے قحط کے سال (عام الرمادہ) کے دوران، ایک بار منبر پر کھڑے ہوئے تھے کہ اپنے پیٹ سے گُڑگُڑ کی آواز آئی، پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: چاہے گُڑگُڑ کر یا گُڑگُڑ نا کر، اللہ کی قسم تجھے اس وقت تک نہیں بھرونگا جب تک مسلمانوں کے بچوں کے پیٹ نہیں بھر جاتے۔

******

ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ایسے خیمے سے گزر ہوا جس میں ایک عورت نے ابھی ابھی بچے کو ولادت دی تھی اور اُسکے اور بھی بچے تھے جبکہ اُسکا خاوند وفات پا چُکا تھا۔ حالات کا علم ہونے پر فوراً بیت المال تشریف لے گئے اور وہاں سے تیل اور آٹا لیکر واپس آئے، آگ جلا کر رات کا کھانا بناکر اُن سب کو پیش کیا۔

عورت نے کہا: اللہ کی قسم، تم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ قول پڑھتے ہوئے (أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ)(دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے) رو پڑے اور کہا:میرے پاس تو کُچھ بھی نہیں بچا ہوا، اور اگر کسی کی کوئی چیز میرے پاس رہتی ہو تو مجھ سے آ کر طلب کر لے۔

******

بیت المقدس کی فتح کے موقع پر پیوند لگی قمیص پہنے ہوئے تشریف لے جانے لگے تو بعض سرداروں نے کہا، اے امیر المؤمنین، اگر خوبصورت لباس زیب تن کر کے تشریف لے جاؤ تو یہ اسلام کیلئے اعزاز کی بات ہوگی۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہم وہ قوم ہیں جن کو اللہ نے اسلام سے عزت و اعزاز دیا ہے، اس کے سوا کسی بھی چیز کو عزت اور اعزاز سمجھیں تو وہ اللہ نے ذلت ہی دینا ہوگی۔

******

ایک بار صدقہ کیلئے چھوڑے ہوئے اونٹوں کو رنگ سے نشان لگا رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر کہا؛ اے امیر المؤمنین، لائیے مجھے دیجیئے، میں آپ کی جگہ ان اونٹوں پر نشان لگا دیتا ہوں۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: قیامت والے دن میرے گُناہ اُٹھانے بھی آؤ گے کیا؟

******

مدینے میں رات کو پہریداری کرتے ہوئے ایک گھر کےسامنے سے گزر ہوا، اندر سے ایک دودھ فروش عورت کی آواز آ رہی تھی جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی، دودھ میں پانی ڈال کر اسے زیادہ کر لے، عمر رضی اللہ عنہ کونسا دیکھ رہا ہے۔

اُس لڑکی نے اپنی ماں کو جواب دیا؛ مگر اللہ دیکھ رہا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ مکان اپنے ذہن میں رکھا اور اُس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم کیلئے مانگ لیا۔

بعد میں اُس لڑکی کی آل سے زاہد اور عادل خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے جنم لیا۔

******

جب مدینہ شریف میں قحط پڑا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے سر پر کھانے کا ٹوکرا رکھ کر فقراء میں بانٹنے کیلئے نکلتے تھے۔

******

قحط کے سال میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تمام فقراء اور حاجتمندوں سے کہا کہ مدینہ شریف کے گردونواح میں آ کر بس جاؤ، اُن کیلئے خود خیمے نصب کیئے اور کہا: اگر زندہ رہے تو اکھٹے رہیں گے اور مرے بھی تو اکھٹے مریں گے۔

******

ایک آدمی نے آ کر حضرت عمررضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ اے امیر المؤمنین، اگر آپ اپنے بیٹے عبداللہ کیلئے کیلئے خلافت کی وصیت کرتے جائیں تو اچھا ہوگا، کیونکہ وہ خلافت کا اہل ہے۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے جھوٹ بولا ہے اللہ تجھے ھلاک کرے، اور میں تیری مکاری کی گواہی دیتا ہوں، میں کس طرح اُس کیلئے خلافت کی وصیت کروں اور مسلمانوں میں اُس سے بہتر لوگ موجود ہیں؟
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
Re: ایسے لوگ پھر لوٹ کر آ جائیں، کبھی نہیں

جزاک الله و احسن الجزا
 

maksyed

Siasat.pk - Blogger
کیا ايسے لوگ اب پھرکبھي لوٹ کر آئيں گے ؟؟؟​

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ


میرے پاس ایک ایمیل آیا تھا جسے پڑھ کرواقع ہی میرے آنسو نکل پڑھے، امید ہے کے آپ میں سے کچھ حضرات نے ضرور پڑھا ہو گا، مگر میں پھر بھی اس کو شئیر کر رہا ہو کہ شاید اس کو پڑھ کے کسی کا بھلا ہو جائے ۔۔۔۔۔۔

نوٹ: اس واقعے کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں آپ اپنے لیے دعاء کیجئے وہاں اس خاکسار، اور ملک و قوم کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔

===============================================
پہلی محرم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم شہادت ہے ، ان کو ایک مجوسی ابولؤلؤ فیروزی نے نمازفجر کی امامت کے دوران شہید کا تھا ان کی یاد میں ایک آنسوبہانے والا اور سبق آموزواقعہ ذکر کرنے کی جسارت کررہاہوں

دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر ؓ یہ ہے وہ شخص!

سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟

یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔

کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔

سیدنا عمر ؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟

وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔

کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔

یا عمرؓ، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔

پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کسقدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تاکہ میں انکو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔

سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں: کون تیری ضمانتدے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمےیا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔

کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔

اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا

خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔

نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔

عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟

ابو ذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!

سیدنا عمرؓ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔

چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔

عمرؓ: جانتے ہو اسے؟

ابوذرؓ: نہیں جانتا اسے۔

عمرؓ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟

ابوذرؓ: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔

عمرؓ: ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔

امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔

سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔

ابو ذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔

مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذرؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔

ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟

یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔

عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا!

امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔

سیدنا عمرؓ نے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟

ابوذرؓ نے کہا، اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ابلوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔

سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔

سیدناؓ عمر اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔

اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔

اے ابو ذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔

اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔

اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔

محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔


زرا سوچیے ۔۔۔۔۔
کہ آج ہم لوگوں میں سے خیر، عفو و در گزر، صداقت، مصیبت میں مدد کا جزبہ، وفائے عہد، عدل و رحمدلی سب ہی کچھ تو اٹھا لیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جانتے ہیں کیوں ۔۔۔۔؟؟؟؟
دین سے دوری ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ سے بے خوفی ۔۔۔۔۔۔۔۔
شعرییت سے دوری ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہمارے دلوں میں تقوٰی اور اپنا خوف پیدا کر دے۔ آمین یا رب العالمین۔

حرف دعا
مخمور سید
 

riverblue

MPA (400+ posts)
jazakAllah!!! jee han ye email bohot dafa parhe hai aur shaid yahan share bhi ho chuki hai magar hamain bar bar in reminders ki zaroorat parti rahay ge........ shaid k hum iss se kuch sabaq hasil kar lain......... Allah se dua hai k is ko parh k jo kefiyat tari ho rahe hai wo waqti na ho
 

Gabagaba

Politcal Worker (100+ posts)
Omar :razi: was the first man to establish an intelligence agency.
European lawmakers were impressed by some Shariah Laws they adopted them and they are still part of Law in all europian countries e.g
Free education from childbirth,
Free food for the newborn until the age of 16
Tax system for high earners
Community police service
Animal rights
and many more. These laws are referred as Omar's Law in old Law books of Europe.