کھیل جو ہم نے کھیلے ہیں

dangerous tears

Senator (1k+ posts)
کیا آپ نےکبھی سوچا ہے کہ ہزاروں بے گناہ پاکستانی جو دہشت گردی کی اس جنگ میں شہید ہوئے ان کا قاتل کون ہے ؟ ضرب عضب میں پاک فوج کےجو افسر اور جوان شہید ہو رہے ہیں ان کا لہو کس کے سر ہے ؟ آرمی پبلک سکول میں وحشیانہ طریقے سے بھون دئیے جانے والے بچوں کے پیچھے کس قسم کی سفاک پالیسیوں کا رفرما تھیں؟ ان سب سوالات کا جواب جاننے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کیونکہ جن لوگوں نے دہشت گردی کا یہ عفریت پیدا کیا وہ نہ صرف ہمارے درمیان موجود ہیں بلکہ چھاتی پھلاکےاسی طرح گھومتے ہیں جیسےبھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد جنرل نیازی سر پر طرہ لگا کر گھوما کرتا تھا۔

ایسے ہی ایک ریٹایئرڈ جنرل جناب اسد درانی نے حال ہی میں ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے نہ صرف تسلیم کیا کہ طالبان بنانے کا فیصلہ درست تھا بلکہ نہایت طمانیت سے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ پشاور میں مرنے والے بچوں کی اوقات collateral damageسے زیادہ نہیں تھی۔یہ انٹر ویو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ٍ، ایک عجیب شان کے ساتھ تالیوں کی گونج میں جنرل صاحب سٹیج پر جلوہ افروز ہوتے ہیں ، اس کے بعد وہ اپنی نشست سنبھالتے ہیں اور کرسی پر جھولتے جھالتے پیچیدہ وار گیمز کی حکمت عملیاں یوں بیان کرتے ہیں گویا انہوں نے تن تنہا دو سپر پاورز کو ناکوں چنے چبوائے ہوں اور اب تمام غیر ملکی ایجنسیوں کے سربراہان کو ان کے چرنوں میں بیٹھ کر انٹیلیجنس کا ریفریشر کورس لینا چاہیے۔ذیل میں ان کے انٹرویو کے چندٹکڑے پیش ہیں، سر دھنیئے:
میزبان: جنرل اسد، کیا آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی پوری ذہانت بروئے کارلاتے ہوئے دنیا کو طالبان کا تحفہ دینے میں اہم کردار ادا کیا؟

اسد درّانی: ہم نے جو کچھ بھی کیاوہ اُس وقت کی ضرورت تھی، آج ہمیں اس بات پر کوئی تاسف نہیں کہ ہم نے اپنے کارڈز کس طرح کھیلے، اُس وقت ایسے ہی کھیلے جانے تھے۔
میزبان: سوویت یونین کے انہدام کے بعد جو کچھ ہم نے افغانستان میں ہوتے دیکھا ، جیسا کہ افغان مجاہدین وغیرہ، کیا آپ ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ کو دوبارہ موقع ملے تو آپ پھر وہی کچھ کریں گے جو آپ نے اُس وقت کیا جب آپ اس پالیسی کے انچارج تھے؟
اسد درّانی: یقینا، اب ہم کچھ اور بھی بہترکام کرسکتے ہیں۔
میزبان:بہتر سے کیا مراد؟ کیا آپ ہمیں زیادہ طالبان دیں گے یا کم ؟
اسد درّانی:نہیں( ہنستے ہوئے)طالبان اس لیے منظرِ عام پر آئے کیونکہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد مجاہدین بہتر فعالیت نہ دکھا سکے اس لیے حالات یہ رخ اختیار کرگئے۔
میزبان:( اسد درّانی کی بات کاٹتے ہوئے)آپ غیر ملکی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی بات کررہے ہیں، وہ معاملہ تو ختم ہوچکا ۔ اب یواین کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تین سے چار ہزار ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں سے 75فیصد طالبان نے ہلاک کیے۔ کیا اس کارنامے پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش کیا جائے؟
اسد درّانی: قابض فورسز نے کتنے لوگوں کو مارا؟

میزبان: ہلاک ہونے والوں میں 75فیصد سے کم کو۔
اسد درّانی: ہوسکتا ہے کہ اس سے بھی کم ہو، میں تعداد پر آپ سے بحث نہیں کرتا۔
میزبان: آپ ایک تعلیم یافتہ شخص ، ریٹائرڈ جنرل اور ایک بزرگ ہیں۔ جب کہا گیا کہ گزشتہ سال ہلاک ہونے والے ہر چار میں سے تین افراد کو طالبان نے ماراتو آپ کا ردِ عمل تھا کہ دوسرے فریق نے کتنی ہلاکتیں کیں۔ جنرل صاحب ، ہم اس وقت کسی کھیل کے میدان کی بات نہیں کررہے۔ 75 فیصد شہری ہلاکتوں کے ذمہ دار افغان طالبان ہیں اور آپ ہم سے توقع کرتے ہیں ہم انہیں خراجِ تحسین پیش کریں؟

اسد درّانی:اس جنگ کی نوعیت ہی ایسی تھی۔ یقیناًہلاکتوں کی تعداد کم ہونی چاہیے تھی لیکن اس قسم کی جنگ میں شہری ہلاکتیں ضرور ہوتی ہیں۔
میزبان: کیا آپ طالبان کی طرف سے بچوں سے بھرے ہوئے سکولوں کو دھماکوں سے اُڑانے، جیسا کہ وہ اکثر کرتے ہیں، کے فعل کو درست سمجھتے ہیں ؟ ... ہاں یا ناں میں جواب دیں۔
اسد درّانی:نہیں ، میں ان کی کارروائیوں کی وکالت نہیں ، وضاحت کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
میزبان: آپ نے ماضی میں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں۔ کیا آج بھی آپ کی یہی سوچ ہے؟
اسد درّانی:یقینا، اس جنگ کے دوران پاکستان ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار رہا کہ وہ امریکہ کااتحادی ہے۔ درحقیقت وہ اتحادی نہیں تھا۔ اتحادیوں کے مقاصد ایک سے ہوتے ہیں لیکن ان کے مقاصد میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔ اتحادیوں کی اپروچ ایک سی ہوتی ہے لیکن ہمارے درمیان ایسا کچھ نہ تھا۔
میزبان: لیکن یہ کہناکہ ہم امریکہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھے ، اس میں بہت فرق ہے۔ یہ کیسی احمقانہ قسم کی جنگ تھی کہ ایک فریق دوسرے کو کئی بلین ڈالر امداد دیتا ہے اور دوسرا فریق اُس رقم کو جیب ڈال کر ہضم کرلیتا ہے اور لوگوں کو بتاتا ہے کہ وہ دشمن ہیں۔ یہ کس قسم کی جنگ تھی؟
اسد درّانی:درحقیقت ہمیں اس سے بہت کم رقم ملی جتنی ملنی چاہیے تھی(حاضرین کی طرف داد طلب مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے)۔

میزبان:آپ اس رویے کو اخلاقی اعتبار سے کیا سمجھتے ہیں؟
اسد درّانی: اگر افراد کے درمیان کوئی ذاتی مفاد کا معاملہ ہو توپھر اخلاقیات وزن رکھتی ہیں، لیکن ریاستوں کے درمیان معاملات میں اخلاقیات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
میزبان: آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ریاستوں کے درمیان کوئی مسئلہ تھا، آپ کھیل کھیلنے کی اور گھڑسواری کی مثالیں دے رہے ہیں، چلیں ایک لمحے کے لیے اخلاقیات کونظر انداز کرتے ہوئے خالصتاً عملیت پسندی کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو آپ نے بہت کچھ تباہ کرڈالا۔ مثال کے طور پر پاکستانی طالبان، جو افغان طالبان کی ہی ایک شاخ ہیں اور ان سے ہی انسپائریشن لیتے ہیں، پاکستان میں بچوں کے سکولوں کو دھماکوں سے اُڑا رہے ہیں ، وہ گزشتہ چند برسوں سے دہشت گردی کی انتہائی گھناؤنی کارروائیوں کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں پاکستان کے فوجی جوان، جن کا آپ بھی کبھی حصہ تھے، ہلاک ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عفریت آپ نے اس لیے پیدا نہ کیے ہوں لیکن یہ آپ کی ہی عملیت پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے؟

اسد درّانی: یہ اجتماعی نقصان ہے۔ اس طرح کی گیم میں بہت بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
میزبان: بچوں کو اُن کے سکولوں میں دھماکہ خیز مواد سے ہلاک کردینا آپ کے نزدیک اجتماعی نقصان ہے؟(ششدر رہ جاتا ہے )
اسد درّانی:( اطمینان سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے )جی ہاں ۔
( میزبان دم بخود رہ جاتا ہے)اسد درّانی: ایسے پرخطر کھیلوں میں ایسے نقصان ہوجاتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ ہم نے ایسے گروہ تیار کیے لیکن پھر دوسرے فریق نے بھی یہی کچھ کیا۔یہ کھیل ایسے ہی کھیلا جانا تھا۔ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک سائیڈ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے۔ اخلاقیات کے تقاضے.......!
میزبان(بات کاٹتے ہوئے) ٹھیک ہے بات واضح ہوگئی ۔ اخلاقیات کو بھول جائیں ، عملیت پسندبنتے ہوئے ہی وضاحت کردیں کہ جو گروہ آپ نے اپنے مقاصد کے لیے تخلیق کیے اور اُنہیں مسلح کیا، اب وہ پلٹ کر آپ پر حملہ آور کیوں ہورہے ہیں؟کیا یہ سب کچھ آپ کے منصوبے کے مطابق ہورہا ہے؟کیا یہی آپ کا منصوبہ تھا اور آپ جانتے تھے کہ یہ کچھ ہونے والا ہے ؟

اسد درّانی:مقصد یہ حاصل ہوا ہے کہ افغانستان بڑی حد تک غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوچکا ہے اور اب افغانستان خود کو مستحکم اور مربوط کرسکتا ہے۔ جہاں تک تحریکِ طالبان پاکستان کا تعلق ہے تو دیکھا جائے گا کہ اُن سے کیسے ڈیل کرنی ہے۔ کوئی کامیابی بھی مفت میں حاصل نہیں ہوتی ہے۔ یہ کمزور دل لوگوں کا کھیل نہیں ہے۔
سو خواتین و حضرات یہ ان لوگوں کے نزدیک یہ بچوں کا کھیل تھا جس میں بچوں کے گلے کاٹے جاتےہیں ، مزید کسی تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں، خدا ہمارے حال پر رحم کرے !!!
سورس
 
Last edited by a moderator:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

ثابت تو یہ ہی ہوتا ہے کہ سیاست دنوں کے ساتھ ساتھ فوج بھی ان کے احکامات مانتی رہی ہے ، جو آج تک صرف اس بات پر پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں اور اس کا تعلق اسلام سے جوڑتے رہے ہیں ، شائد ان کی خارش میں کمی ہو جائے ، افغانی طالبان ، اصل افغان مجاہدین کی مخالفت میں بنائے گئے جنھوں نے روس کے خلاف لڑائی لڑی اور پاکستان بھی ان کی پشت پر تھا ، پھر جب کچھ طاقتوں کے ہاتھ سے یہ نکلے تو پاکستانی طالبان کو منظم کیا گیا ، مشرف نے چند ڈالروں کے عوض ہزاروں کا خون کروایا اور اس کا آنا بھی سیاست دنوں کی نااہلی تھی ، اب الزام الزام کھیلنے والے کچھ ہوش کریں
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
۔ یہ صرف اس جنرل کی بات نہیں. ہر سو افغانیوں میں سے پجھتر معصوم افغانوں کو زبحہ کرنے والے افغان طالبان کی حامیوں کی اس فورم پر بھا ری اکثریت موجود ہے

یہ جنرل تو چلو حسب توقع ڈالر خور احمق ہو گیا مگر اس فورم اور ہمارے معاشرے میں پاے جانیوالے افغان طالبان کے پجاریوں کو کیا نام دیا جاے؟؟؟؟

بڑے بڑے نامور اور مشہور پاکستانی "علماءے حق " ان طالبانوں کے چاہنے والے ہیں، انکو کیا کہا جاے؟؟؟ جنرل تو پھر ڈالر کے پیچھے اندھا ہو گیا ہے مگر کسی سستی نرتکی کی مانند مفتے میں طالبانی دھن پر تھرکنے والےان مخنثوں کا کیا کیا جاے؟؟؟
 

hmkhan

Senator (1k+ posts)
۔ یہ صرف اس جنرل کی بات نہیں. ہر سو افغانیوں میں سے پجھتر معصوم افغانوں کو زبحہ کرنے والے افغان طالبان کی حامیوں کی اس فورم پر بھا ری اکثریت موجود ہے

یہ جنرل تو چلو حسب توقع ڈالر خور احمق ہو گیا مگر اس فورم اور ہمارے معاشرے میں پاے جانیوالے افغان طالبان کے پجاریوں کو کیا نام دیا جاے؟؟؟؟

بڑے بڑے نامور اور مشہور پاکستانی "علماءے حق " ان طالبانوں کے چاہنے والے ہیں، انکو کیا کہا جاے؟؟؟ جنرل تو پھر ڈالر کے پیچھے اندھا ہو گیا ہے مگر کسی سستی نرتکی کی مانند مفتے میں طالبانی دھن پر تھرکنے والےان مخنثوں کا کیا کیا جاے؟؟؟


ڈاکٹر صاحب! مجھے اسد درانی کی ڈھٹائی پر دوسری جنگ عظیم میں اوڈلف ہٹلر کا دست راز اور ہٹلرکےمظالم کو قانونی جواز فراہم کرنے والا وکالت کے پیشہ سے وابسطہ نازی پارٹی کا
ہانز فرانک" یاد آگیا جو مقبوضہ پولینڈ میں گورنرجنرل کی حیثیت سے ہزاروں پولش شہریوں
کے سفاکانہ قتل عام میں براہ است ملوث تھا جنگ عظیم کے بعد گرفتار ہوا اور "نورمبرگ" کی تاریخی جنگی جرائم کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا مقدمہ میں جرح کے دوران اسد درانی کی طرح اپنے انسانیت سوز اقدامات کو جواز فراہم رتا رہا اس کا کہنا تھا کہ اسے اپنے اس اقدام پر کوئی شرمندگی یا ندامت نہیں "میں نے جو بھی کیا وہ عظیم جرمنی اور نازی فلسفہ کے عین مطابق تھا" نورمبرگ کی جنگی جرائم کی عدالت نے اسے مجرم گردانتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا او اسے 16اکتوبر1946 کو تختہ دار پرلٹکا دیا گیا کاش پاکستان میں بھی 60000 سے
زائد معصوم شہریوں کے سفاکانہ قتل عام کو جواز فراہم کرنے والے "اسد درانیوں " اس قبیل کے دوسرے افراد کو تختہ دار پر لٹکایا جا سکے
 

Back
Top