پاکستان میں ہم پنجابی ہیں، پٹھان ہیں سندھی ہیں اور بلوچی ہیں، پر ہم کشمیری نہیں - خدا نہ خواستہ میرا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں - میرا مطلب ہے کہ کشمیری واحد قوم ہے جو ہمارے آپس کے گروہی تعصب کا شکار نہیں - عمومی طور پر کشمیری ہم سب کی لاڈی قوم ہے - اس بات کا اندازہ لگانا ہو تو ٢٠٠٥ کا زلزلہ یاد کریں اور یاد کریں کہ یہ قوم کس طرح تڑپ اٹھی تھی اور کس طرح ان کی مدد کو پہنچی تھی -
پچھلے ستر سال سے کشمیر پر ہر سیاسی جماعت نے کھل کر سیاست کی اور فوج نے کھل کر فوجییت کی لیکن ہم کشمیر کا کوئی ھل نہیں نکال سکے - تو جناب مسلہ کشمیر اب ایک نئی جہد میں داخل ہو گیا ہے - تو اب اس کا ھل کیا ہے - کیا اقوام متحدہ، ٹرمپ اور عربیوں کے تشوشی بیانات سے یہ مسلہ ھل جو جاۓ گا ؟؟؟ میری ناقص راۓ میں کشمیر کا واحد حل وہ ہے جو اس فوج نے کبھی ڈھونڈا تھا - وہ لوکل اور جہادی تنظیموں کی مدد سے بھرپور گوریلا جنگ - لیکن اس کا سارا سیٹ اپ ایس ایس جی کا چوہا مشرف کب کا ختم کر چکا ہے جب اس نے آقا بش امریکی کے سامنے قوم کا ماتھا زمین پر لگا دیا تھا - ظاہر ہے اس وقت یو ایس ایس آر ختم ہو چکا تھا - پچاس سالہ سرد جنگ امریکہ جیت چکا تھا - اب سارے جہادوں کو حرام کہنے کا وقت تھا --- تو جناب اس وقت ہم نے کشمیری قوم کو بھی مکمل طور پر تنہا چھوڑ دیا تھا
اب وہ سیٹ اپ کیسے اور کب بنے گا - ضرب ازب اور رد الفساد جیسے عظیم ملحمات ہمارے ماتھے پر دو چمکتے ستارے ہیں - اوپر سے ہم پھسڈی حافظ سعید کا جہادی پجامہ بھی اتار چکے ہیں - اور دوبارہ سے وہ سیٹ اپ بنانے کے نتیجے میں پاکستان کو کیا کچھ بھگتنا پڑے گا - یہ سب بہت مشکل سوالات ہیں - اور یہ سوالات ہمارے اصل مالکان (عرف ایسٹیبلشمنٹ) کے سوچنے کے ہیں - وہ سوچیں گے اور اس پر عمل کریں گے یا ہمیشہ کی طرح گونگلوں سے مٹی جھاڑیں گے یہ الگلے دو مہینوں میں آپ کو نظر آ جاۓ گا - اقوام متحدہ، ٹرمپ، عربی اور باقی دنیا ہمیشہ کی طرح منافقت کے سوا کچھ نہیں کریں گے
ہم پاکستانی اور ہماری لاڈلی کشمیری قوم اکیلی ہے - لیکن ہم عوام تو اس ملک اور اس کے پالیسیوں کے مالک تو نہیں - ہم ہر زلزلے جیسی مصیبت کے وقت کشمیریوں کی مدد کے لئے ٹرک بھر کر تو پہنچ جایں گے لیکن اس سے اگے نہ ہماری اوقات ہے نہ اجازت - جب ہم جہادی تنظیموں کو مستقل پٹا ڈال کر امن کی راہ ڈھونڈنے کی بات کریں گے تو مالک کو غصہ آے گا - اور وہ اس کو ڈان لیکس کیہ کر ہمیں ڈنڈے سے مارے گا - اور اگر ہم جہادی تنظیموں کا سہارا ڈھونڈیں گے تو ایف اے ٹی ایف جیسی قدغنیں لگیں گی اور جدت پسند ہمیں اپنی آزادی چھینے کا الزام دیں گے
لیکن میں کشمیر کے لئے مایوسی نہیں پھیلانا چاھتا - ہم اسی منافقت میں پھنسے رہیں گے - اور طالبان آ کر وہ سارے کام کریں گے جو ہمارے کرنے والے ہیں - پھر ہماری طرف کی ریاست مدینہ بھی انہوں نے ہی بنانی ہے - ہم احمق ہوں نہ ہوں - ہندو احمق نہیں - وہ اس بات کو جلد بھانپ جاۓ گا - طالبانوں اور امریکہ کے امن معاہدہ کے بعد ہندوستان نے یہ اقدام واپس لے لینا ہے اور کشمیریوں کو کچھ آزادی بھی دے دینی ہے -
اس کو ہماری حکومت نے اپنی بہت بڑی کامیابی کیہ کر اپنے گلے میں ھار پہنانا ہے اور کامیاب امریکی دورے جیسی ایک اور ڈسکو شروع ہو جانی ہے جو امرکی دورے سے زیادہ زور کی بجنی ہے اور کچھ دیر چلے گی بھی - کامیاب امریکی دورے اور ورڈ کپ کی ڈسکو کی طرح دو ہفتے میں ہی ٹھس نہیں ہو گی
اس کے بعد طالبان کو کشمیر جانے کی ضررت نہیں رہے گی - وہ یکسوئی کے ساتھ یہاں ریاست مدینہ بنایں گے - اور مشرف دور سے شروع ہوے سارے حساب چکتا کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں گے
پچھلے ستر سال سے کشمیر پر ہر سیاسی جماعت نے کھل کر سیاست کی اور فوج نے کھل کر فوجییت کی لیکن ہم کشمیر کا کوئی ھل نہیں نکال سکے - تو جناب مسلہ کشمیر اب ایک نئی جہد میں داخل ہو گیا ہے - تو اب اس کا ھل کیا ہے - کیا اقوام متحدہ، ٹرمپ اور عربیوں کے تشوشی بیانات سے یہ مسلہ ھل جو جاۓ گا ؟؟؟ میری ناقص راۓ میں کشمیر کا واحد حل وہ ہے جو اس فوج نے کبھی ڈھونڈا تھا - وہ لوکل اور جہادی تنظیموں کی مدد سے بھرپور گوریلا جنگ - لیکن اس کا سارا سیٹ اپ ایس ایس جی کا چوہا مشرف کب کا ختم کر چکا ہے جب اس نے آقا بش امریکی کے سامنے قوم کا ماتھا زمین پر لگا دیا تھا - ظاہر ہے اس وقت یو ایس ایس آر ختم ہو چکا تھا - پچاس سالہ سرد جنگ امریکہ جیت چکا تھا - اب سارے جہادوں کو حرام کہنے کا وقت تھا --- تو جناب اس وقت ہم نے کشمیری قوم کو بھی مکمل طور پر تنہا چھوڑ دیا تھا
اب وہ سیٹ اپ کیسے اور کب بنے گا - ضرب ازب اور رد الفساد جیسے عظیم ملحمات ہمارے ماتھے پر دو چمکتے ستارے ہیں - اوپر سے ہم پھسڈی حافظ سعید کا جہادی پجامہ بھی اتار چکے ہیں - اور دوبارہ سے وہ سیٹ اپ بنانے کے نتیجے میں پاکستان کو کیا کچھ بھگتنا پڑے گا - یہ سب بہت مشکل سوالات ہیں - اور یہ سوالات ہمارے اصل مالکان (عرف ایسٹیبلشمنٹ) کے سوچنے کے ہیں - وہ سوچیں گے اور اس پر عمل کریں گے یا ہمیشہ کی طرح گونگلوں سے مٹی جھاڑیں گے یہ الگلے دو مہینوں میں آپ کو نظر آ جاۓ گا - اقوام متحدہ، ٹرمپ، عربی اور باقی دنیا ہمیشہ کی طرح منافقت کے سوا کچھ نہیں کریں گے
ہم پاکستانی اور ہماری لاڈلی کشمیری قوم اکیلی ہے - لیکن ہم عوام تو اس ملک اور اس کے پالیسیوں کے مالک تو نہیں - ہم ہر زلزلے جیسی مصیبت کے وقت کشمیریوں کی مدد کے لئے ٹرک بھر کر تو پہنچ جایں گے لیکن اس سے اگے نہ ہماری اوقات ہے نہ اجازت - جب ہم جہادی تنظیموں کو مستقل پٹا ڈال کر امن کی راہ ڈھونڈنے کی بات کریں گے تو مالک کو غصہ آے گا - اور وہ اس کو ڈان لیکس کیہ کر ہمیں ڈنڈے سے مارے گا - اور اگر ہم جہادی تنظیموں کا سہارا ڈھونڈیں گے تو ایف اے ٹی ایف جیسی قدغنیں لگیں گی اور جدت پسند ہمیں اپنی آزادی چھینے کا الزام دیں گے
لیکن میں کشمیر کے لئے مایوسی نہیں پھیلانا چاھتا - ہم اسی منافقت میں پھنسے رہیں گے - اور طالبان آ کر وہ سارے کام کریں گے جو ہمارے کرنے والے ہیں - پھر ہماری طرف کی ریاست مدینہ بھی انہوں نے ہی بنانی ہے - ہم احمق ہوں نہ ہوں - ہندو احمق نہیں - وہ اس بات کو جلد بھانپ جاۓ گا - طالبانوں اور امریکہ کے امن معاہدہ کے بعد ہندوستان نے یہ اقدام واپس لے لینا ہے اور کشمیریوں کو کچھ آزادی بھی دے دینی ہے -
اس کو ہماری حکومت نے اپنی بہت بڑی کامیابی کیہ کر اپنے گلے میں ھار پہنانا ہے اور کامیاب امریکی دورے جیسی ایک اور ڈسکو شروع ہو جانی ہے جو امرکی دورے سے زیادہ زور کی بجنی ہے اور کچھ دیر چلے گی بھی - کامیاب امریکی دورے اور ورڈ کپ کی ڈسکو کی طرح دو ہفتے میں ہی ٹھس نہیں ہو گی
اس کے بعد طالبان کو کشمیر جانے کی ضررت نہیں رہے گی - وہ یکسوئی کے ساتھ یہاں ریاست مدینہ بنایں گے - اور مشرف دور سے شروع ہوے سارے حساب چکتا کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں گے