
کراچی میں سنیچر سے دوبارہ شروع ہونے والی طوفانی بارش کا سلسلہ کراچی کے مکینوں کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں ہے۔
شہر میں سنیچر کی شب شروع ہونے والا ہلکی اور تیز بارش کا سلسلہ اتوار کو بھی جاری ہے اور بارشوں کی وجہ سے شہر کے بیشتر علاقوں اور اہم شاہراوں پر پانی جمع ہو گیا ہے جبکہ نشیبی علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں۔
بارش کی وجہ سے جہاں شہر میں حادثات میں اضافہ ہوا ہے وہیں بارش سے متعلقہ وجوہات کی بنا پر اب تک کم از کم پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے۔
جناح ہسپتال کراچی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ بارشوں کے بعد کرنٹ لگنے سے ڈیفینس کے علاقے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ایک شخص مکان کی چھت گرنے جبکہ ایک موٹرسائیکل سوار گڑھے میں گرنے سے ہلاک ہوا ہے۔
محکمہ موسمیات کے نیشنل فوکاسٹنگ سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں سب سے زیادہ بارش ایئرپورٹ کے علاقے میں 153 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ اس کے علاوہ سرجانی ٹاؤن کے علاقے میں 151 ملی میٹر، گلشن حبیب میں 149 ملی میٹر،لانڈھی میں 118 ملی میٹر، یونیورسٹی روڈ پر 112 ملی میٹر، ناظم آباد میں 109 ملی میٹر، کیماڑی میں 108 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا چکی ہے۔
وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کراچی میں اوسطاً مون سون میں اتنی بارشیں نہیں ہوتیں اور اس سال زیادہ بارشوں کے باعث پانی کی نکاسی میں مشکلات ضرور پیش آئی ہیں۔
تاہم انھوں نے کہا کہ پہلے سے کئے گئے ہنگامی اقدامات کے باعث اس مرتبہ زیادہ مشکلات نہیں ہوئیں اور اگر یہ انتظامات نہ کیے گئے ہوتے تو شہریوں کو جو پریشانی اس وقت ہورہی ہے وہ کئی سو فیصد زیادہ ہو سکتی تھی۔
سعید غنی نے بتایا کہ ملیر اور لیاری ندی میں پانی کی زیادتی کے باعث کورنگی اور ای بی ایم کازویز پر پانی آنے کے باعث ان دونوں کو احتیاطاً بند کر دیا گیا ہے جبکہ وہاں سے پانی کی نکاسی کے لیے بھی تمام وسائل کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ کازویر میں طغیانی کی وجہ سے کورنگی کے علاقے کا شہر کے باقی حصوں سے رابطہ کٹ گیا تھا اور کورنگی کاز وے پر پھنسے افراد کو کرین کی مدد سے نکالا گیا ہے۔
سعید غنی نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلاوجہ گھروں سے نکلنے سے گریز کریں اور بجلی کی تنصیبات سے دور رہیں۔
انھوں نے شہریوں سے یہ بھی کہا کہ پیر کو عیدِ قرباں کے موقع پر شہری کوشش کریں کہ وہ اپنے جانور کسی کھلے میدان میں ذبح کریں تاکہ ان کی آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تاہم عید کے روز تحریکِ انصاف کی کابینہ کے رکن علی حیدر زیدی نے ایک تصویر ٹویٹ کی جس میں ایسا لگ رہا تھا کہ کراچی میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ پانی سے بھری سڑکوں پر قربانی کے جانوروں کا خون ہے۔
https://twitter.com/x/status/1160801771096334336~
کراچی میں بارشوں پر سوشل میڈیا پر صارفین اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
جیو ٹی وی کی نیوز اینکر علینہ فاروق نے بارش کی شدت بتانے کے لیے تیز بارش سے متعلق انگلش محاورے میں ہی ترمیم کر ڈالی۔
صحافی جبران پیش امام نے کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ وہی سڑک ہے جہاں پر ان کے گھر کا گیٹ بارش کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔
ایک صارف نے قربانی کے جانوروں کو بارش سے محفوظ رکھنے کا انوکھا طریقہ بتایا۔
پانی اور بجلی کا خطرناک ملاپ
کراچی میں بارش ہو اور پھر بجلی کے محکمے کی کارکردگی چھپی رہ جائے بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ جہاں شہر کی سڑکیں زیر آب آ جاتی ہیں تو وہیں بجلی کا مسئلہ بھی نظر آتا ہے۔
صارفین کی بڑی تعداد سوشل میڈیا پر صفائی کے ناقص انتظام اور ناقص انفراسٹرکچر کو سیلابی تباہ کاریوں کی وجہ بتاتی نظر آتی ہے۔
ایک صارف نوفل نقوی نے تو شہر کے علاقے خیابانِ اتحاد میں وہ مناظر بھی کیمرے میں محفوظ کر لیے جس میں بجلی اور پانی کے مسئلے کو دکھایا گیا ہے۔
اس ٹویٹ پر ایک صارف نے تبصرہ کیا ہے کہ ’صرف کراچی ہی ایسا شہر ہے جہاں آپ کو بارش اور آتش بازی ایک ساتھ دیکھنے کو ملتی ہے، کتنی مزے دار بات ہے۔‘
Last edited by a moderator: