ڈیمز کی فوری تعمیر ، حکومت کا ایک فیصد خصوصی ٹیکس لگانے کا فیصلہ

67896d9e03b06.jpg

پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے اجازت طلب کی ہے کہ ملک میں تیار ہونے والی ہر قابل ٹیکس مصنوعات پر ایک فیصد نیا خصوصی ٹیکس (سیس) عائد کیا جائے، تاکہ بھارت کی آبی جارحیت کے مقابلے میں دو بڑے آبی ذخائر — دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم — کی جلد تکمیل کو ممکن بنایا جا سکے۔


ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت خزانہ اور وزارت آبی وسائل نے تجویز دی ہے کہ بجلی اور ادویات کے سوا تمام قابل ٹیکس اشیاء پر ایک فیصد سیس نافذ کیا جائے تاکہ اضافی مالی وسائل جمع کیے جا سکیں۔ تاہم، آئی ایم ایف نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 1000 ارب روپے کے منظور شدہ وفاقی ترقیاتی بجٹ (پی ایس ڈی پی) میں ہی گنجائش نکالے، نہ کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالے۔



https://twitter.com/x/status/1934987246081298654

صوبوں کی عدم دلچسپی، مرکز کی نئی حکمتِ عملی


ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب اکثر صوبوں نے ان دو اہم وفاقی منصوبوں کے لیے مالی تعاون سے انکار کر دیا۔ دیامر بھاشا ڈیم کی ابتدائی لاگت 480 ارب روپے جبکہ مہمند ڈیم کی لاگت 310 ارب روپے رکھی گئی تھی، مگر اب دونوں منصوبوں کی تکمیل کے لیے کم از کم 540 ارب روپے مزید درکار ہیں۔


وزارت آبی وسائل نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ موجودہ مالیاتی رفتار پر ان ڈیمز کی تکمیل میں 15 سے 20 سال لگ سکتے ہیں، جو قومی سلامتی کے تناظر میں ناقابل قبول ہے۔ اس لیے حکومت نے ان منصوبوں کو تیز رفتار بنیادوں پر مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔



عوام پر نیا بوجھ یا پانی کی بقا؟


تجویز کے مطابق، تمام مقامی طور پر پیدا ہونے والی قابل ٹیکس اشیاء کی مجموعی مالیت پر ایک فیصد نیا سیس لگایا جائے گا۔ تاہم، بجلی اور ادویات جیسی بنیادی اشیاء، جو فی الوقت سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، اس سے مستثنیٰ رہیں گی۔


نیا سیس ’گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس‘ (GIDC) کی طرز پر ہوگا، جسے ماضی میں ایران-پاکستان گیس پائپ لائن کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایسا سیس صرف مخصوص مقصد کے لیے علیحدہ قانون سازی کے ذریعے ہی لگایا جا سکتا ہے، اسی لیے یہ سیس فنانس بل 2025 کے ذریعے نہیں بلکہ ایک علیحدہ بل کے ذریعے نافذ کیا جائے گا — جس کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہے۔



موجودہ ترقیاتی بجٹ میں رکاوٹیں


منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق نئے مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ میں درحقیقت صرف 640 ارب روپے دستیاب ہوں گے، باقی 360 ارب روپے مخصوص منصوبوں جیسے کراچی-کوئٹہ روڈ، صوبائی اسکیمز اور قبائلی علاقوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ان حالات میں موجودہ پی ایس ڈی پی سے ڈیم منصوبوں کی تکمیل ناممکن نظر آتی ہے۔


بھارتی آبی جارحیت پر دوٹوک پیغام


بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی کوششوں کے بعد پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ پانی کی فراہمی بند کرنا ’جنگی اقدام‘ کے مترادف سمجھا جائے گا۔ ان خطرات کے پیش نظر پاکستان نے آبی خودکفالت کے لیے فوری اقدامات کی راہ اپنائی ہے۔


صوبائی رویے اور مالی بحران


ذرائع کے مطابق حالیہ نیشنل اکنامک کونسل (NEC) اجلاس اور بعد ازاں وزیر اعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہونے والے اجلاسوں میں صرف خیبر پختونخوا حکومت نے ڈیمز کی مالی معاونت میں دلچسپی دکھائی، جبکہ دیگر صوبے پیچھے ہٹ گئے۔


جی آئی ڈی سی کا مسئلہ اور حکومتی ناکامی


دلچسپ بات یہ ہے کہ جی آئی ڈی سی کے تحت جمع کیے گئے 400 ارب روپے سے زائد کی رقم اب تک ٹیکسٹائل اور فرٹیلائزر کمپنیاں حکومتی خزانے میں جمع نہیں کرا سکیں۔ حکومت اس رقم کو ڈیمز کی تعمیر میں استعمال کرنے کی کوشش پر بھی غور کر رہی ہے۔
 
Last edited:

Back
Top