ڈیلروں نے نئی گاڑیوں پر"اون منی" کی شرح مزید بڑھا دی،کس گاڑی پر کتنا اضافہ؟

car.jpg


ملک بھر میں گاڑیوں کے ڈیلروں نے "اون منی" کی شرح میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے کیونکہ گاڑیوں کی بروقت ترسیل ایک عالمی بحران کی سی صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بعض گاڑیوں کی مانگ اس قدر زیادہ ہے کہ ان کیلئے ایک سال تک کا انتظار بھی کرنا پڑتا ہے۔

جس کا فائدہ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گاڑیاں فروخت کرنے والی کمپنیوں کو سپلائی چین کے متعدد مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث نئی گاڑی بک کروانے کے بعد صارف کو گاڑی کی فراہمی کیلئے کافی لمبا عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔کچھ شہری جو فوری طور پر گاڑی حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ کار ڈیلرز کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہوئے گاڑی کی اصل قیمت کے علاوہ لاکھوں روپے "اون” کی مد میں ادا کرتے ہیں۔

کار ڈیلرز اون کی مد میں غیر قانونی طور پر منافع کمانے کیلئے بھی صارفین کو گاڑی کی فراہمی میں تعطل پیدا کرتے ہیں تاکہ صارف تنگ آکر اون دے کر گاڑی حاصل کرنے کیلئے حامی بھر لے۔ آٹو مارکیٹ میں اون منی ایک معمول کی بات ہے اور اس کے باقاعدہ طور پر ہر گاڑی کے حساب سے الگ الگ ریٹس ہیں۔ایک طرف تو حکومت گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قابو کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ ملک میں اسمبل ہونے والی گاڑیوں پر فی یونٹ 4 لاکھ روپے تک اون منی کی مد میں ہڑپ کیے جا رہے ہیں۔

سرمایہ کاروں اور آٹو سیکٹر کے ڈیلرز نے اس غیر قانونی دھندے میں اپنا پیسہ انویسٹ کرکے صارفین پر اضافی بوجھ ڈال رکھا ہے، مختلف کار ڈیلرز گاڑیاں بک کرواکے رکھتے ہیں اور جیسے ہی کوئی صارف اون منی دینے پر رضامندی کااظہار کرتا ہے اپنی پہلے سے بک کروائی گئی گاڑی اس شخص کے حوالے کرکے اس کی جیب سے لاکھوں روپے اینٹھ لیے جاتے ہیں۔

کار ڈیلر فیڈریشن کے صدر شہزادہ سلیم نے بتایا کہ اون منی کا تعلق گاڑیوں کے انجن کی کیپسٹی پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ 650سی سی سے ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر اون منی پہلے کی نسبت بڑھ گئی ہے اور اب یہ ایک لاکھ کی بجائے 2لاکھ 50ہزار تک وصول کی جا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت سوزوکی کلٹس پر اون منی 75 ہزار سے بڑھ کر 2 لاکھ 50 ہزار روپے تک وصول کی جا رہی ہے۔ ہونڈا سوک کے خواہش مند 3 لاکھ روپے تک اون منی ادا کر رہے ہیں جبکہ کرولا آلٹس پر مارکیٹ میں 4 لاکھ روپے اون منی کے نام پر اینٹھے جا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل گاڑیوں کے ایک ڈیلر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ آٹو مارکیٹ میں نئی آنے والی ایس یو ویز گاڑیوں پر اس سے بھی زیادہ اون منی وصول کی جار رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ کیا سپورٹیج، ہونڈائی ٹسکان، ڈی ایف ایس کے گلوری 580 اور ایم جی کی گاڑیوں پر 7 لاکھ روپے تک اون منی وصول کی جاتی ہے۔

 

arafay

Chief Minister (5k+ posts)
Own money clearly indicates, there is high demand and low supply. However, our auto manufacturers are not interested in expanding their capacity and instead are busy crying and asking for subsidies all the time.

Honestly if the big companies like toyota/honda really want, they can double their production and still sell all their cars on time. Instead of using bank finance, they can lease cars directly to vetted customers (like companies and repeat customers) on installment basis similar to how real estate is sold in Pakistan. This will help them keep the markup that currently goes to banks. Just imagine how many new corollas can be sold if Indus motors announces 15 lakh down payment and 5 year installment plan of rs 70k/month.

But instead of being creative and growing the business, these old seths just want to collect easy money!
 

Gujjar1

Minister (2k+ posts)
Pakistan bhi duniya ja wahid Milk hai jahan 5 saal purani garhi nayee garhi se mahngi hai, aur phir kahtey hain garhyan mahngi ho gayee hain. My cousin bought Honda 2017 for 37 lakh when he could buy new for 36, just because it has sunroof the only difference.