
چین اور بھارت کے عسکری حکام کے مابین مغربی ہمالیہ میں متنازع سرحد لداخ کے مقام پر جھڑپ کے ایک سال بعد ہندوستان نے اپنے سرحدی دفاع کو مزید مضبوط بنانے کے لئے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں تبت، لداخ اور سنکیانگ کی سرحدیں ملتی ہیں، یہ علاقے اپنی خوبصورتی اور بدھ ثقافت کے باعث مشہور ہے، علاقے پر تبتی ثقافت کی گہری چھاپ ہے تاہم طویل عرصے سے ایک وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بھارتی ریاست اروناچل پردیش تبت سے ہمالیہ کے دوسرے کنارے تک پھیلا ہوا ہے اور شمال میں اپنے پڑوسی چین کے ساتھ ملتا یے جس کی وجہ سے یہ بھارتی علاقہ بھی بدھ ثقافتی ورثے کا حامل ہے۔
1959 میں چین کی اس وقت کی حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد دلائی لاما چین سے فرار ہوکر ہندوستان
آگئے تھے۔
چین کی جانب سے اروناچل پردیش کو جنوبی تبت قرار دیا گیا ہے جبکہ اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ بھی کرتا ہے، 1962 میں مختصر خونریز جنگ کے بعد زیادہ تر علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
چونکہ دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال ہمیشہ ہی عجیب سی رہی ہے تاہم 2020 کے وسط سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا، جب دونوں ملکوں کی فوج کے مابین ہونے والی جھڑپ میں کم از کم 20 ہندوستانی اور چار چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
بھارت نے چین پر الزام بھی عائد کیا ہے کہ سرحد کے قریب مستقل بستیاں قائم کررہا ہے جبکہ دونوں فریقین کی جانب سے اپنے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں گشت بھی کی جاتی ہے۔
گزشتہ ماہ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل منوج پانڈے نے خطے کے ایک غیر معمولی دورے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم نے چین کی جانب سے انفراسٹرکچر میں بنیادی پیشرفت کا مشاہدہ کیا ہے اور اس کی وجہ سے ہم نے وہاں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
بھارت نے اروناچل پردیش میں اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کیا اور کروز میزائل، ہووٹزر، امریکی ساختہ چنوک ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر اور اسرائیل میں بنائے گئے ڈرونز کو نصب کئے ہیں جبکہ دفاعی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کیونکہ سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے دونوں فریقوں میں مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔
ہندوستانی فوج کے ایک بریگیڈیئر کا کہنا تھا کہ تبت کے قریبی علاقے توانگ میں عمومی طور پر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر جاتا ہے اور آکسیجن کی کمی بھی ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے موسم سرما میں قریبی فوجی چوکیوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ کئی ہفتوں کے لیے منقطع ہو سکتا ہے، خطے کا جغرافیہ انسانوں کے لیے نقصان دی ہے، اگر کوئی مکمل طور پر فٹ، تربیت یافتہ یا موسم کے لحاظ سے تیار نہیں ہے تو یہ موسم مہلک ہوسکتا ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوجی انجینئر سطح سمندر سے 13ہزار فٹ کی بلندی پر ایک بہت بڑی سرنگ بنا رہے ہیں جو اگلے سال تک کھلنے کا امکان ہے، اس سرنگ سے علاقے کو جنوب کی جانب سے مزید راستوں سے منسلک کیا جا سکے۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر کرنل پرکشت مہرا کا کہنا تھا کہ ان سرنگوں کی تعمیر کے بعد توانگ میں مقامی لوگوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہر موسم میں رابطہ ممکن ہو سکے گا۔
لداخ سے موسم سرما میں گزرنا ناممکن ہو جاتا ہے اسی لئےاسی طرح کا ایک منصوبہ لداخ میں زوجیلا پہاڑی درے کے چٹانی خطوں کے نیچے شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس کی تعمیر کے بعد کشمیر میں ہندوستانی فوج کو تیز تر امداد پہنچانے میں مدد ملے گی۔