Raja Kashif Ali
Voter (50+ posts)
چھ نکات
چھ نکات ہماری ملکی تاریخ کا حصہ ہیں ! چھ نکاتی فارمولا پہلی بار شیخ مجیب الرحمن نے جنوری 1966 میں پیش کیا، جسے اس قت کی تمام جماعتوں ملکی سلامتی کے لئے خطرناک قرار دے کر مسترد کردیا! ضد اور ہٹ دھری ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ۔ 1971 کے عام انتخابات علاقہ پرستی کی بنیاد پر لڑے گئے شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کی 167 میں سے 164 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور مغربی پاکستان کی 146 میں سے 83 نشستوں ذولفقار علی بھٹو کی کے حصے میں آئیں ۔لیکن شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کوتسلیم نہیں کیا گیا ، مذاکرات ہوتے رہے مگر بے نتیجہ رہے ! اور ایک بنگالی کو پاکستان کا وزیراعظم تسلیم نہ کیاگیا حالانکہ وہ اکثریتی جماعت کا لیڈر تھا ! جب کسی کو اس کے جائز حق سے بزورطاقت محروم کردیا جائے تو احساس محرومی ! بغاوت میں بدل جاتی ہے ! اور پھر وہی ہوا جس کی تاک میں میں ہمارے دشمن گھات لگائے بیٹھے تھے !! مشرقی پاکستان پر طاقت کا استعمال کیا گیا ! ایک احساس محرومی تھا جس کو طاقت کے استعمال نے "بنگلہ دیش" کی جنگ ِآزادی میں تبدیل کردیا!!اور ہم نے "ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا"!!!
سقوطِ ڈھاکہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے !! سقوطِ اندلس اور سقوط ِ بغداد کے بعد اسلامی تاریخ کا بھی نہایت شرمندہ دور ہے !! میں اس پر نوحہ خوانی کروں !!! یا ماتم !!! میں اسے بھارت کی سازش قرار دوں !!! یا اپنوں کی نا اہلی !!!جواب ایک ہی آتا ہے کہ" ہم نے آدھا ملک گنوا ڈالا" آج اس سانحہِ جاں گُسل کو 42 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس باقی ماندہ پاکستان کی کشتی ہچکولے کھاتی سفر طے کررہی ہے ! کا میابیوں کے کئی تمغے بھی ہماری چھاتی کی شان ہیں !!! ہماری تاریخ ہمارے کئی سپوتوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے ! لیکن ہماری سیاسی قیادت نے اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھا!ہر کسی کو اپنی آن و انا پر فخر ہے!!!
آج بھی ایک تماشا سرِ بازار لگا ہوا ہے ! بین الاقوامی براداری کی نظریں اسلام آباد پر لگی ہوئی ہیں ! سرکس ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا! عمران خان اپنے چھ نکات کو زندگی اور موت کا مسلہ بنائے بیٹھے ہیں !!حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی !! کہیں کوئی سازش تو نہیں بُنی جارہی ہے ؟؟؟ عمران خان اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور ان کا جائز حق تھا کہ وہ ملک کے وزیراعظم ہوتے!! اور دھاندلی سے نواز شریف وزیر اعظم بن گیا ہے تو عمران خان کو چاہیے بڑے دل کا مظاہرہ کریں !! اور کوئی ایسا لائحہ ِعمل اختیار جس سے آئندہ کوئی ایسا نہ کرسکے ۔ اس کے لئے کیا راستہ اختیار کیا جائے اس پر اپنے رفقاء سے بھی مشاورت کریں اور رائے عامہ کوبھی مدنظر رکھیں !!آپ خود کہتے ہیں میں سپورٹس مین ہوں!! تو سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ بھی کریں ۔ اگر آپ اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے !! نظام کو بدلیں !! اپنے انتخابی منشور میں"نئے پاکستان " کے خاکے کی تشہیر کریں !!! کیا آپ کےانتخابی منشور میں "بادشاہت " کے خاتمے کی کوئی شق شامل تھی اور آپ نے اس کی بنیاد پر انتخاب لڑا تھا ؟؟یا "آزادی" کی کوئی تعریف آپ کے منشور کا حصہ تھی؟؟ آپ نظام کو بے شک بدلنے کے لئے عوام میں شعور اجاگر کریں !! لیکن کم از کم نظام کو توڑنے کی کوشش نہ کریں !اس میں فائدہ کم اور نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے ۔ آپ کا خواب ایک "نئے پاکستان" کا ہے ، جس میں غریب کو اس کا حق ملے ! اُسے تعلیم، صحت ، بجلی ، پانی اور سستا انصاف اس کی چوکھٹ پر ملےتو !! ایک صوبے کی حکومت آپ کے پا س ہے ، آپ ایک جدید نمونہ حکومت پیش کریں اور اُسے پاکستانی عوام کے سامنے رکھیں اور ثابت کریں کہ "ہم ہی پاکستان کی تقدیر بدل سکتےہیں"تو انشاء اللہ کوئی طاقت آپ کو وزیراعظم بننے سے نہیں روک سکتی!!!
دوسری طرف حکومتِ وقت کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس نے کیوں یہ جواز مہیا کیا کہ دو حضرات اپنے کارکنان کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر آکر بیٹھ جائیں !! اور اپنے مطالبات کے لئے مرمٹنے کو تیار ہوجائیں !! حکومتوں کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے ، انہیں زیادہ برداشت کی ضرورت ہوتی ہے ، انہیں بڑے دل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے !! اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ ریاست کی فلاح و بہود چاہتی ہے تو اُسے عمران خان کو راضی کرنا ہوگا !اس کے مطالبات کو آخری حد تک اہمیت دینا ہوگی !! تاکہ مسائل کا کوئی با عزت حل ممکن ہو سکے جس سے دونوں فریقین کی تسلی ہو سکے اور خاص کرتحریک انصاف کے ہمددروں اور کارکنان کی دلی تسلی ہو سکے !!
راجہ کاشف علی خان
22-08-2014
چھ نکات ہماری ملکی تاریخ کا حصہ ہیں ! چھ نکاتی فارمولا پہلی بار شیخ مجیب الرحمن نے جنوری 1966 میں پیش کیا، جسے اس قت کی تمام جماعتوں ملکی سلامتی کے لئے خطرناک قرار دے کر مسترد کردیا! ضد اور ہٹ دھری ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ۔ 1971 کے عام انتخابات علاقہ پرستی کی بنیاد پر لڑے گئے شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کی 167 میں سے 164 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور مغربی پاکستان کی 146 میں سے 83 نشستوں ذولفقار علی بھٹو کی کے حصے میں آئیں ۔لیکن شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کوتسلیم نہیں کیا گیا ، مذاکرات ہوتے رہے مگر بے نتیجہ رہے ! اور ایک بنگالی کو پاکستان کا وزیراعظم تسلیم نہ کیاگیا حالانکہ وہ اکثریتی جماعت کا لیڈر تھا ! جب کسی کو اس کے جائز حق سے بزورطاقت محروم کردیا جائے تو احساس محرومی ! بغاوت میں بدل جاتی ہے ! اور پھر وہی ہوا جس کی تاک میں میں ہمارے دشمن گھات لگائے بیٹھے تھے !! مشرقی پاکستان پر طاقت کا استعمال کیا گیا ! ایک احساس محرومی تھا جس کو طاقت کے استعمال نے "بنگلہ دیش" کی جنگ ِآزادی میں تبدیل کردیا!!اور ہم نے "ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا"!!!
سقوطِ ڈھاکہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے !! سقوطِ اندلس اور سقوط ِ بغداد کے بعد اسلامی تاریخ کا بھی نہایت شرمندہ دور ہے !! میں اس پر نوحہ خوانی کروں !!! یا ماتم !!! میں اسے بھارت کی سازش قرار دوں !!! یا اپنوں کی نا اہلی !!!جواب ایک ہی آتا ہے کہ" ہم نے آدھا ملک گنوا ڈالا" آج اس سانحہِ جاں گُسل کو 42 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس باقی ماندہ پاکستان کی کشتی ہچکولے کھاتی سفر طے کررہی ہے ! کا میابیوں کے کئی تمغے بھی ہماری چھاتی کی شان ہیں !!! ہماری تاریخ ہمارے کئی سپوتوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے ! لیکن ہماری سیاسی قیادت نے اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھا!ہر کسی کو اپنی آن و انا پر فخر ہے!!!
آج بھی ایک تماشا سرِ بازار لگا ہوا ہے ! بین الاقوامی براداری کی نظریں اسلام آباد پر لگی ہوئی ہیں ! سرکس ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا! عمران خان اپنے چھ نکات کو زندگی اور موت کا مسلہ بنائے بیٹھے ہیں !!حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی !! کہیں کوئی سازش تو نہیں بُنی جارہی ہے ؟؟؟ عمران خان اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور ان کا جائز حق تھا کہ وہ ملک کے وزیراعظم ہوتے!! اور دھاندلی سے نواز شریف وزیر اعظم بن گیا ہے تو عمران خان کو چاہیے بڑے دل کا مظاہرہ کریں !! اور کوئی ایسا لائحہ ِعمل اختیار جس سے آئندہ کوئی ایسا نہ کرسکے ۔ اس کے لئے کیا راستہ اختیار کیا جائے اس پر اپنے رفقاء سے بھی مشاورت کریں اور رائے عامہ کوبھی مدنظر رکھیں !!آپ خود کہتے ہیں میں سپورٹس مین ہوں!! تو سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ بھی کریں ۔ اگر آپ اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے !! نظام کو بدلیں !! اپنے انتخابی منشور میں"نئے پاکستان " کے خاکے کی تشہیر کریں !!! کیا آپ کےانتخابی منشور میں "بادشاہت " کے خاتمے کی کوئی شق شامل تھی اور آپ نے اس کی بنیاد پر انتخاب لڑا تھا ؟؟یا "آزادی" کی کوئی تعریف آپ کے منشور کا حصہ تھی؟؟ آپ نظام کو بے شک بدلنے کے لئے عوام میں شعور اجاگر کریں !! لیکن کم از کم نظام کو توڑنے کی کوشش نہ کریں !اس میں فائدہ کم اور نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے ۔ آپ کا خواب ایک "نئے پاکستان" کا ہے ، جس میں غریب کو اس کا حق ملے ! اُسے تعلیم، صحت ، بجلی ، پانی اور سستا انصاف اس کی چوکھٹ پر ملےتو !! ایک صوبے کی حکومت آپ کے پا س ہے ، آپ ایک جدید نمونہ حکومت پیش کریں اور اُسے پاکستانی عوام کے سامنے رکھیں اور ثابت کریں کہ "ہم ہی پاکستان کی تقدیر بدل سکتےہیں"تو انشاء اللہ کوئی طاقت آپ کو وزیراعظم بننے سے نہیں روک سکتی!!!
دوسری طرف حکومتِ وقت کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس نے کیوں یہ جواز مہیا کیا کہ دو حضرات اپنے کارکنان کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر آکر بیٹھ جائیں !! اور اپنے مطالبات کے لئے مرمٹنے کو تیار ہوجائیں !! حکومتوں کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے ، انہیں زیادہ برداشت کی ضرورت ہوتی ہے ، انہیں بڑے دل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے !! اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ ریاست کی فلاح و بہود چاہتی ہے تو اُسے عمران خان کو راضی کرنا ہوگا !اس کے مطالبات کو آخری حد تک اہمیت دینا ہوگی !! تاکہ مسائل کا کوئی با عزت حل ممکن ہو سکے جس سے دونوں فریقین کی تسلی ہو سکے اور خاص کرتحریک انصاف کے ہمددروں اور کارکنان کی دلی تسلی ہو سکے !!
راجہ کاشف علی خان
22-08-2014