Haidar Ali Shah
MPA (400+ posts)
*شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دمشق میں سخت قحط پڑگیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ٹڈیاں سبزے کوکھاگئیں اور انسان ٹڈیوں کو کھاگئے ۔ بھوک کی شدت سے مخلوق خداہلاک ہوگئی ۔ ایک روزمیری ملاقات ایک امیر ادمی سے ہوئے ۔ میں نے اس شخص کو نہایت پریشانی کے عالم میں دیکھا جیسا کہ شہر کے دوسرے غریبوں کی ہوتی ہے ۔
میں نے اس سے پوچھا کہ "بھائی تم پریشان کیوں ہو" ؟ وہ کہنے لگا * "کیاتم جانتے نہیں کہ اس وقت قحط کی صورتحال ہے اور تمام مخلوق خدابرباد ہوگئی ہیں" ۔*
میں نے کہا کہ "مجھے اس کاعلم ہے لیکن قحط کا تم پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟ تم اللہ کے فضل سے مالدار ہواور کسی بھی شے کا حصول تمہارے لئے ناممکن نہیں".
میری بات سن کر اس شخص نے آہ بھر کر* کہنے لگا * "ایک ایسے شخص کے لئے جوحساس ہوکیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے اردگرد سے بے خبر ہوجائے اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کو بھول کر صرف اپنی ذات کی فکر کرے ؟ کوئی شریف النفس شخص کسی شخص کو دریا میں ڈوبتا دیکھ کر ساحل پر مطمئن کیسے کھڑ ا رہ سکتا ہے ؟ بے شک مجھے بھوک اور پیاس کی تنگی محسوس* نہیں ہورہی لیکن مجھے اپنے اردگرد موجود لوگوں کے غم نے ہلاک کردیا ہے". اب آجائے ہمارے چیف جسٹس کیطرف موصوف اس عمر میں پتا نہیں کہاں جارہے ہے جو اتنے اہم فیصلے سے نام نکلنے کا بالکل غم نہیں ہے اسے. نا اسے کوئی پرواہ ہے کہ"تاریخ" کیا لکھے گی؟
یہ صرف خودغرضی کی نہیں بلکہ بے شرمی کی بھی انتہا ہے. سمجھ نہیں آ رہا* کہ حضرت کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کیس کتنا وقت لے گا؟ جو اب کہہ رہے ہے کہ میں ریٹائرڈ ہو رہا ہوں. پھر سے یہ ڈرامہ لگے گا. لاکھوں لوگ پیشیوں کے انتظار میں ہیں اور یہ حضرت اپنے چھٹیوں کے غم میں دبلے ہو رہے ہے. احساس نامی چیز مر چکی ہے خود غرضی سر چھڑ کے بول رہی ہے. انصاف بہت قیمتی شے ہوتی ہے وہ ان بے ایمانوں ضمیر فروشوں کے ہاتھوں ادا نہیں ہوسکتی. انصاف دینے کیلئے اپنوں پرائیوں کو اور خیر شر کو نہیں دیکھا جاتا یہاں تو پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ "میرا" خیر کس میں ہے انصاف جائے......... میں نے زندگی میں بہت بے ایمان لوگ دیکھے ہیں لیکن اس صاحب نے جو پلٹی ماری ہے اسکی مثال شیخ سعدی کی حکایتوں اور منٹو کے افسانوں میں بھی نہیں ملتا ابن صفی کے کہانیاں پڑھی نہیں کہیں نہ کہیں تو ایسے "انصاف" کی مثال موجود ہوگی.ان کی سستیاں دیکھ کر فوجیوں نے چستیاں شروع کر دی ہے وہ ہر مہینے چار پانچ ٹانک رہے ہے. بس نام کے ساتھ "طالبان" لگا لو ار لٹکا دو.
ایک عیسائی بادشاہ نے فوج کی ناکام بغاوت پر ہزاروں فوجیوں کا قتل عام کیا. قتل عام شروع ہونے سے پہلے ایک وزیر نے مشورہ دیا کہ "ان میں سے کئی لوگ بے گناہ ہو سکتے ہیں ان کو بھی غدار قرار دے کر قتل کر دینا مناسب نہبں ہوگا".*بادشاہ نے جواب دیا" میں انہیں خدا کے پاس بھیج رہا ہو وہ خود گناہ گار اور بے گناہ*کا فیصلہ کرلے گا".
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا
میں نے اس سے پوچھا کہ "بھائی تم پریشان کیوں ہو" ؟ وہ کہنے لگا * "کیاتم جانتے نہیں کہ اس وقت قحط کی صورتحال ہے اور تمام مخلوق خدابرباد ہوگئی ہیں" ۔*
میں نے کہا کہ "مجھے اس کاعلم ہے لیکن قحط کا تم پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟ تم اللہ کے فضل سے مالدار ہواور کسی بھی شے کا حصول تمہارے لئے ناممکن نہیں".
میری بات سن کر اس شخص نے آہ بھر کر* کہنے لگا * "ایک ایسے شخص کے لئے جوحساس ہوکیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے اردگرد سے بے خبر ہوجائے اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کو بھول کر صرف اپنی ذات کی فکر کرے ؟ کوئی شریف النفس شخص کسی شخص کو دریا میں ڈوبتا دیکھ کر ساحل پر مطمئن کیسے کھڑ ا رہ سکتا ہے ؟ بے شک مجھے بھوک اور پیاس کی تنگی محسوس* نہیں ہورہی لیکن مجھے اپنے اردگرد موجود لوگوں کے غم نے ہلاک کردیا ہے". اب آجائے ہمارے چیف جسٹس کیطرف موصوف اس عمر میں پتا نہیں کہاں جارہے ہے جو اتنے اہم فیصلے سے نام نکلنے کا بالکل غم نہیں ہے اسے. نا اسے کوئی پرواہ ہے کہ"تاریخ" کیا لکھے گی؟
یہ صرف خودغرضی کی نہیں بلکہ بے شرمی کی بھی انتہا ہے. سمجھ نہیں آ رہا* کہ حضرت کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کیس کتنا وقت لے گا؟ جو اب کہہ رہے ہے کہ میں ریٹائرڈ ہو رہا ہوں. پھر سے یہ ڈرامہ لگے گا. لاکھوں لوگ پیشیوں کے انتظار میں ہیں اور یہ حضرت اپنے چھٹیوں کے غم میں دبلے ہو رہے ہے. احساس نامی چیز مر چکی ہے خود غرضی سر چھڑ کے بول رہی ہے. انصاف بہت قیمتی شے ہوتی ہے وہ ان بے ایمانوں ضمیر فروشوں کے ہاتھوں ادا نہیں ہوسکتی. انصاف دینے کیلئے اپنوں پرائیوں کو اور خیر شر کو نہیں دیکھا جاتا یہاں تو پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ "میرا" خیر کس میں ہے انصاف جائے......... میں نے زندگی میں بہت بے ایمان لوگ دیکھے ہیں لیکن اس صاحب نے جو پلٹی ماری ہے اسکی مثال شیخ سعدی کی حکایتوں اور منٹو کے افسانوں میں بھی نہیں ملتا ابن صفی کے کہانیاں پڑھی نہیں کہیں نہ کہیں تو ایسے "انصاف" کی مثال موجود ہوگی.ان کی سستیاں دیکھ کر فوجیوں نے چستیاں شروع کر دی ہے وہ ہر مہینے چار پانچ ٹانک رہے ہے. بس نام کے ساتھ "طالبان" لگا لو ار لٹکا دو.
ایک عیسائی بادشاہ نے فوج کی ناکام بغاوت پر ہزاروں فوجیوں کا قتل عام کیا. قتل عام شروع ہونے سے پہلے ایک وزیر نے مشورہ دیا کہ "ان میں سے کئی لوگ بے گناہ ہو سکتے ہیں ان کو بھی غدار قرار دے کر قتل کر دینا مناسب نہبں ہوگا".*بادشاہ نے جواب دیا" میں انہیں خدا کے پاس بھیج رہا ہو وہ خود گناہ گار اور بے گناہ*کا فیصلہ کرلے گا".
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا
Last edited: