سابق سیکرٹری دفاع جنرل خالد نعیم لودھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تاریخی الفاظ استعمال کیے کہ "جب کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو جائے تو اس کو لگتا ہے کہ یہ اس کی طاقت ہے مگر جب وہ گھوڑے سے اترتا ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھوڑے کی طاقت تھی"۔ان کے مطابق "جو لوگ حال ہی میں گھوڑوں سے اترے ہیں ان کا حال دیکھیں کہ اب وہ کہاں ہیں اور کدھر گئی ان کی وہ طاقت"۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ ’کچھ لوگ‘ کھل کر کسی نئے نظام کا اعلان کر دیں تا کہ سب کو پتہ چل سکے کہ اس وقت ملک میں کس کا اور کون سا نظام رائج ہے۔
یہ سب کون کروا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں جنرل نعیم خالد نے کہا کہ ’اس وقت جو لوگ ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں وہ بھی ہمارے ہی جتنے پڑھے لکھے ہیں، انھوں نے بھی ہمارے ہی جتنے کورس کیے ہوئے ہیں۔‘
جنرل نعیم کے مطابق ’اپنے اپنے ادوار میں ہم نے بھی کوئی اتنے اچھے کام نہیں کیے ہیں‘۔ تاہم ان کے مطابق ’ہم نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں فوج کو کافی حد تک ان کاموں (سیاسی معاملات) سے نکال دیا تھا۔‘
ان کارروائیوں کے اثرات سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے پاس انٹیلیجنس ہے شاید انھیں زیادہ درست معلومات حاصل ہوں اور ممکن ہے کہ ہمیں بتانے والے سب جھوٹ بتا رہے ہوں، مگر جو کچھ سامنے ہے وہ سنگین حالات کا پتا دے رہا ہے۔‘
تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات سے متعلق جنرل نعیم نے کہا کہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح سے کسی سیاسی جماعت کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔
کسی ادارے یا شخصیت کا نام لیے بغیر سابق سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ’جب کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو جائے تو اس کو لگتا ہے کہ یہ اس کی طاقت ہے مگر جب وہ گھوڑے سے اترتا ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھوڑے کی طاقت تھی۔‘
ان کے مطابق ’جو لوگ حال ہی میں گھوڑوں سے اترے ہیں ان کا حال دیکھیں کہ اب وہ کہاں ہیں اور کدھر گئی ان کی وہ طاقت۔‘
جنرل نعیم خالد لودھی کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ صرف ملٹری کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں بیوروکریسی، پولیس اور دیگر کردار بھی شامل ہیں جو اسے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہیں بڑی اسٹیبلشمنٹ بنا دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پنجاب میں اس وقت نگراں حکومت کا بھی خاصا ’ہولڈ‘ ہے، جو باقاعدہ ایک حکومت کے طور پر سب منصوبوں کو دیکھ رہی ہے۔
جنرل نعیم خالد کی رائے میں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد نہیں ممکن بنایا گیا تب سے ملک کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس وقت نظام گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھ رہا ہے۔
نعیم خالد لودھی نے کہا کہ ان کارروائیوں کے اگر نفسیاتی پہلو پر بات کی جائے تو جو لوگ اس وقت حد سے زیادہ ناجائز کر رہے ہیں وہ ایک جماعت اور اس کے رہنما کو مزید شہرت کی بلندیوں پر پہنچا رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس سارے کھیل میں قانون کا مذاق بن رہا ہے اور ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔
ان کے خیال میں ’جس وقت تک عوام کی رائے کو مقدم نہیں مانا جائے گا اس وقت تک ملک کی میعشیت کو بہتر نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اگر عوام کی مرضی کے بغیر جو مرضی کر لیں اور کوئی بھی نظام لے آئیں ملک کو دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا ہے۔
www.bbc.com
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ ’کچھ لوگ‘ کھل کر کسی نئے نظام کا اعلان کر دیں تا کہ سب کو پتہ چل سکے کہ اس وقت ملک میں کس کا اور کون سا نظام رائج ہے۔
یہ سب کون کروا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں جنرل نعیم خالد نے کہا کہ ’اس وقت جو لوگ ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں وہ بھی ہمارے ہی جتنے پڑھے لکھے ہیں، انھوں نے بھی ہمارے ہی جتنے کورس کیے ہوئے ہیں۔‘
جنرل نعیم کے مطابق ’اپنے اپنے ادوار میں ہم نے بھی کوئی اتنے اچھے کام نہیں کیے ہیں‘۔ تاہم ان کے مطابق ’ہم نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں فوج کو کافی حد تک ان کاموں (سیاسی معاملات) سے نکال دیا تھا۔‘
ان کارروائیوں کے اثرات سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے پاس انٹیلیجنس ہے شاید انھیں زیادہ درست معلومات حاصل ہوں اور ممکن ہے کہ ہمیں بتانے والے سب جھوٹ بتا رہے ہوں، مگر جو کچھ سامنے ہے وہ سنگین حالات کا پتا دے رہا ہے۔‘
تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات سے متعلق جنرل نعیم نے کہا کہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح سے کسی سیاسی جماعت کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔
کسی ادارے یا شخصیت کا نام لیے بغیر سابق سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ’جب کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو جائے تو اس کو لگتا ہے کہ یہ اس کی طاقت ہے مگر جب وہ گھوڑے سے اترتا ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھوڑے کی طاقت تھی۔‘
ان کے مطابق ’جو لوگ حال ہی میں گھوڑوں سے اترے ہیں ان کا حال دیکھیں کہ اب وہ کہاں ہیں اور کدھر گئی ان کی وہ طاقت۔‘
جنرل نعیم خالد لودھی کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ صرف ملٹری کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں بیوروکریسی، پولیس اور دیگر کردار بھی شامل ہیں جو اسے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہیں بڑی اسٹیبلشمنٹ بنا دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پنجاب میں اس وقت نگراں حکومت کا بھی خاصا ’ہولڈ‘ ہے، جو باقاعدہ ایک حکومت کے طور پر سب منصوبوں کو دیکھ رہی ہے۔
جنرل نعیم خالد کی رائے میں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد نہیں ممکن بنایا گیا تب سے ملک کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس وقت نظام گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھ رہا ہے۔
نعیم خالد لودھی نے کہا کہ ان کارروائیوں کے اگر نفسیاتی پہلو پر بات کی جائے تو جو لوگ اس وقت حد سے زیادہ ناجائز کر رہے ہیں وہ ایک جماعت اور اس کے رہنما کو مزید شہرت کی بلندیوں پر پہنچا رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس سارے کھیل میں قانون کا مذاق بن رہا ہے اور ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔
ان کے خیال میں ’جس وقت تک عوام کی رائے کو مقدم نہیں مانا جائے گا اس وقت تک ملک کی میعشیت کو بہتر نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اگر عوام کی مرضی کے بغیر جو مرضی کر لیں اور کوئی بھی نظام لے آئیں ملک کو دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی رہنماوں کے خلاف ’متنازع‘ مقدمات کے پیچھے کون ہے اور اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ - BBC News اردو
موجودہ حالات میں بھی نو مئی کے واقعات کے بعد جس طرح پے در پے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے گئے اور انھیں گرفتار کیا گیا اس نے ملک کے احتساب کے نظام، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
